اسرائیل کاسنگ باری کرنیوالے کو کڑی سزائیں دینے کیلئے قانون سازی کرنے کا فیصلہ
مقبوضہ بیت المقدس(آئی این پی)اسرائیلی حکومت نے فلسطینیوں کو احتجاج سے روکنے کا نیا ہتھکنڈہ استعمال کرتے ہوئے سنگ باری کرنے والے فلسطینیوں کو کڑی سزائیں دینے کیلئے قانون سازی شروع کرنے کا فیصلہ کرلیاجس کی منظوری کے بعد سنگ باری جیسے معمولی نوعیت کے جرم پر 35 سال تک قید کی سزا دی جا سکے گی۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق صہیونی حکومت نے سنگ باری کرنے والے فلسطینیوں کو بھی کڑی سزائیں دینے کے لیے اب قانون سازی شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت کا تجویز کردہ بل پارلیمنٹ سے منظور ہو گیا ہے تو سنگ باری جیسے معمولی نوعیت کے جرم پر 35 سال تک قید کی سزا دی جا سکے گی۔ کابینہ کی آئینی کمیٹی نے کنیسٹ کی جانب سے منظور کردہ سنگ باری سے متعلق سزاؤں کے ایک سابقہ بل میں مزید ترامیم تجویز کی ہیں۔ موجودہ آئین میں یہ بات شامل ہے کہ سنگ باری کرنے والے شخص کو سزا دینے سے قبل اسرائیلی پراسیکیوٹر کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ حملہ آور نے نقصان پہنچانے کی نیت سے سنگ باری کی تھی لیکن نئے مجوزہ بل میں یہ شرط ختم کر دی گئی ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی کابینہ کی جانب سے منظور کردہ نئے ترمیمی بل میں اب پراسیکیوٹر کو کسی فلسطینی پر سنگ باری کے الزام میں اس کی جانب سے نقصان پہنچانے کی نیت کو ثابت کرنے کی سردردی نہیں ہو گی بلکہ صرف الزام ہی کافی ہو گا۔ محض الزام ہی کی بنیاد پر سزا دی جا سکے گی۔رپورٹس کے مطابق اسرائیل کے قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی بھی ایسے شخص کے خلاف کارروائی کریں گے جسے سنگ باری کرتے پکڑا گیا ہو۔ گاڑی چلاتے ہوئے فون یا دیگر مواصلاتی آلات کا استعمال کرتے دیکھا گیا ہو یا اس نے فوج یا پولیس پر دانستہ یا غیر ارادی حملے کی کوشش کی ہو۔ ان تمام صورتوں میں مجوزہ قانون کے تحت ہی سزا ہو گی۔اسرائیلی کابینہ میں سنگ باری کے الزام میں سزاؤں کا نیا مسودہ قانون دراصل فلسطینیوں کو احتجاجی مظاہروں سے روکنے کا ایک نیا حربہ ہے۔ اس سیاہ قانون کے ذریعے فلسطینیوں کو ڈرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ انہوں نے مظاہروں کے دوران صہیونی فوجیوں پر پتھراؤ کی کوشش کی تو انہیں 35 سال تک جیل میں رہنے پڑ سکتا ہے۔