ہم پر کیا حاوی ہے ؟

ہم پر کیا حاوی ہے ؟
ہم پر کیا حاوی ہے ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بڑے خواب دیکھنے والوں کو اپنے خوابوں کی تعبیر کی جلدی بھی بہت ہوتی ہے۔ اسی جلدی میں ایسے لوگوں سے اتنی ساری غلطیاں سر زد ہوجاتی ہیں کہ انہیں بھگتنا پڑتا ہے۔ ایکس ایکٹ کمپنی کے شعیب شیخ کو ہی دیکھئے۔ ٹی وی چینل کا آغاز ہی نہیں ہوا تھا اور انہوں نے پاکستان کا سب سے بڑا چینل کا دعوی کر دیا تھا۔ وہ اس بات سے کیوں لا علم رہے کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں مسابقت اور مقابلے کو کھلے دل سے تسلیم نہیں کیا جاتا ، ان کے ہم عصر چینل مالکان انہیں چت کر سکتے ہیں۔ گزشتہ دو سالوں سے بول کے چرچے تھے۔ کسی فلم کی زیادہ پبلسٹی بھی اسے نقصان پہنچا دیتی ہے۔ شعیب شیخ کی فلم کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ بات کی ابتدا جعلی ڈگریوں کی فروخت سے ہوئی اور جا پہنچی ٹی وی چینل کے لئے منگائی گئی مشینوں ، آلات اور کیمروں تک۔ کسی بھی قسم کا جو بھی سامان ملک میں در آمد کیا جاتا ہے اس کی چھان پھٹک کسٹم حکام کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے، لیکن بول کے معاملے میں کسٹم حکام اپنا ریکارڈ چیک کرنے کی بجائے بول کے دفتر پہنچ گئے کہ انہیں رسیدیں دکھائی جائیں۔ رسیدیں دکھانے والا تو خود ایف آئی اے کی حراست میں ہے۔


حکومت نے پیمرا کے ذریعہ بول کی نشریات شروع ہونے سے پہلے ہی پابندی عائد کر دی۔ اس سے قبل ایف آئی اے کو تحقیقات کی ذمہ داری دی گئی۔ ابھی تحقیقات اپنے منطقی انجام کی طرف سرک رہی ہے اور حتمی نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔ کم از کم کسی عدالت کو مطلع نہیں کیا گیا تو پھر حکومت نے بول پر پابندی کیوں عائد کرا دی۔ پیمرا اور محکمہ داخلہ بھی اب جاگا کہ بول والوں نے لبیک نامی جس ٹی وی چینل کا لائسنس خریدا تھا (جی ہاں، لائسنس خریدا ہی جاتا ہے) اس کی انتظامیہ کی تبدیلی کی تو محکمہ داخلہ نے اجازت ہی نہیں دی تھی۔ پیمرا ضوابط کے تحت کمپنی میں شامل ہونے والے نئے افراد کے بارے میں پیمرا کو سیکورٹی کلیئر نس کرانا ہوتی ہے پھر تبدیل کی اجازت ملتی ہے جس کے بعد متعلقہ کمپنی سیکورٹیز اینڈ ایکس چینج کمیشن آف پاکستان میں کمپنی کے نئے مالکان کا اندراج کراتی ہے۔ حیران کن بات نہیں کہ بول کے چرچے کے دوران کسی ذمہ دار سرکاری محکمے نے یہ سراغ لگانے کی کوشش ہی نہیں کی کہ کون سی شخصیات بول چینل کے مالکان میں شامل ہیں۔ بول کمپنی میں کس کا کتنا پیسہ لگا ہوا ہے۔ ان کے پاس یہ پیسے کہاں سے آرہے ہیں۔ لبیک ٹی وی لائسنس کے جن لوگوں کے پاس حصص ہیں وہ پیمرا کے ریکارڈ کے مطابق سلیمان، صدیق اسماعیل، شعیب شیخ، وقاص عتیق، عائشہ شعیب شیخ، ثروت بشیر ہیں۔ انتظامیہ کی تبدیلی کا معاملہ کسی نکتہ پر اختلاف کے باعث عدالت میں زیر سماعت ہے۔


سارے ہی سرکاری اداروں سے اپنی اپنی جگہ کوتاہیاں سر زد ہوئی ہیں۔ ان کوتاہیوں کی پردہ پوشی کے لئے سب ہی ایک ساتھ جاگے اور چڑھ دوڑے ۔ گرفتاریاں، ہوئیں۔ ہتھکڑی لگائی گئی۔ پولیس موبائل میں بٹھا یا گیا۔ ایسا لگا کہ پاکستان میں قانون کی بالا دستی ہے اور قانون ہر ایک کے لئے اسی طرح استعمال ہوتا ہے جیسا شعیب شیخ کے لئے سرگرم کیا گیا ہے۔ جعلی ڈگریاں فروخت کرنا جرم ہے۔ امریکہ تو بڑی بات ہے جہاں ہزاروں تعلیمی ادارے ڈگریاں جاری کرتے ہیں۔ وہ کتنی درست ہوتی ہیں، اس کا اندازہ تو امریکی ریاستوں کی انتظامیہ کو بھی نہیں ہوتا۔ پاکستان میں جعلی ڈگریاں اور مارک شیٹ تھوک کے حساب سے ضرورت مندوں کو مل جاتے ہیں۔ کیا ہم اپنی قومی اسمبلی، سینٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کی تفصیلات بھول گئے کہ کون کون جعلی ڈگریاں پیش کر کے انتخابات میں حصہ لینے کے لئے اہل قرار پائے تھے۔ اتنا بڑا اسکینڈل بنا تھا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن اور اس وقت کی وفاقی حکومت کے درمیاں ٹھن گئی تھی۔ کئی وفاقی اداروں کے سربراہ بھی اس گورکھ دھندے میں ملوث رہے اور اہم ترین سرکاری اداروں کی سربراہی جعلی ڈگریوں کے سہارے کی جاتی رہی ۔ اس مثال کو پیش کرنے کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ شعیب شیخ قابل معافی ہیں۔ انہیں ان کے کئے گئے غیر قانونی اقدامات کی سزا ملنا چاہئے۔ کالا دھن استعمال کرنے والے جب قانون کے شکنجے میں آتے ہیں تو ٹیکس اور جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔ ایسا تو اس ملک میں بار بار ہوتا رہا ہے کہ حکومت نے کالا دھن استعمال کرنے والوں کو چھوٹ بھی دی ہے۔ ان کا قصور یہ بھی تو ہے کہ انہوں نے بڑے خواب کیوں دیکھے۔ وہ کیوں پاکستان کے نو دولتیوں کی فہرست میں شامل ہونا چاہتے تھے۔ بول چینل میں بھرتی ہونے والے لوگوں کو جلد یا بدیر ملازمتیں تو مل ہی جائیں گی۔ البتہ انہیں ان کی خدمات کا وہ معاوضہ نہیں ملے گا جو بول چینل کے مالک شعیب شیخ دے رہے تھے۔


ایکس ایکٹ ہو یا بول ، اس کے ساتھ تو جو کچھ ہونا ہے، وہ تو نوشتہ دیوار ہے، لیکن پاکستان کے ان سرکاری اداروں کو جن سے کوتاہیاں سر زد ہوئی ہیں ، کون احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کرے گا۔ کیا صرف شعیب شیخ نے ٹیکس چوری کیا، کیا صرف بول چینل نے غلط چینل سے اپنی مشینیں اور آلات منگائے ؟ پاکستان میں تو درجنوں صنعتی ادارے ایسے ہیں جنہوں نے منگایا کچھ تھا، لیکن ڈیوٹیاں بچانے کے لئے بتایا کچھ اور تھا۔ ایک زمانے میں جب ایوب خان کے دور میں ملک میں صنعتی انقلاب لایا جارہا تھا تو صنعت کار اور سرمایہ کار حکام کے عملی تعاون سے پیسہ بچا تے رہے تھے۔ وہ سلسلہ ایسا چلا کہ آج تک ختم نہیں ہوا۔ بازاروں میں وہ غیر ملکی سامان جو دکان دکان فروخت ہو رہا ہے ، اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اسمگلنگ اس بڑے پیمانے پر کی جارہی ہے کہ اس نے ملکی معیشت کا ڈھیر کردیا ہے۔ پاکستان میں جتنی بھی شوگر ملیں لگائی گئی ہیں ان تمام کی قیمت زیادہ اس لئے دکھائی گئی تھی کہ قومی مالیاتی اداروں سے پیسہ حاصل کرنا مقصود تھا۔ میڈیکل کے شعبے میں جتنا بھی سامان استعمال کیا جاتا ہے، اس کا بڑا حجم کسٹم حکام کی آ نکھوں میں دھول جھونک کر لایا جاتا ہے۔


حکومت کو چاہئے کہ چینل کو کام کرنے کا موقع دے۔ اس مطالبہ پر پاکستانی صحافیوں کی تمام تنظیمیں متفق ہیں۔صحافیوں کی بڑی تعداد ابھی تک بول سے منسلک ہے۔ انگریزی زبان کے ایک بڑے اخبار ڈان نے بھی اداریہ لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت تحقیقا ت مکمل ہونے دے اور عدالتوں میں مقدمات پیش کرے۔ اخبار کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ حکومت پیمرا کو اپنی ہدایات کے تحت چلانا چاہتی ہے۔ اسی اخبار نے اپنی ویب سائٹ پر لوگوں کی رائے حاصل کرنے کے لئے ایک سوال بھی رکھا ہے۔ کیا ایکس ایکٹ کے فیصلے تک بول کی نشریات بند رہنا چاہیں ؟ ہفتہ کی رات تک 2509 افراد نے نہیں میں جواب دیا ہے جب کہ ، 1978 افراد نے ہاں میں جواب دیا ہے۔ یہ لوگوں کے ایک مختصر گروہ کی رائے ہے، لیکن عام طور پر اکثریت یہ ہی چاہتی ہے کہ بول کو کام کرنے کی اجازت دی جائے۔ صحافتی معاملات کی ایک اور ویب سائٹ نے تو لوگوں سے ایک سوال کا جواب طلب کیا۔ سوال یہ ہے کہ ’’کیا ایکس ایکٹ اور بول کے خلاف نیو یارک ٹائمز کی خبر سازش ہے ‘‘۔ گو بہت کم جواب ملے ،لیکن 53 افراد اسے سازش ہی سمجھتے ہیں جب کہ 16 اسے سازش نہیں سمجھتے۔ حالانکہ پیمرا ایک با اختیار ریگولیٹری ادارہ ہے۔ پیمرا ایسا ریگولیٹری ادارہ ہے جس پر ہر حکومت حکم چلاتی ہے۔ پیمرا نے کراس میڈیا کا قانون بنایا تھا۔ اس قانون کے تحت کسی اخبار کا مالک بیک وقت ٹی وی چینل یا ریڈیو کا مالک نہیں ہو سکتا تھا، لیکن اس وقت کے صدر مشرف نے بعض اخباری مالکان کی خواہشات کے سامنے سر جھکا دیا تھا۔ اور پیمرا سے یہ قانون ختم کرا دیا تھا۔ اب ذرائع ابلاغ کے ادارے اور اخبارات سلطنت بن گئے ہیں۔ شعیب شیخ بھی ایک سلطنت کھڑی کر رہے تھے۔ جب حکومتوں نے قوانین کو اپنے تابع بنانے کی کوشش کی ہے اسے نتائج بھی بھگتنا پڑے ہیں۔


رہ گیا شعیب شیخ کا معاملہ، اسے عدالتیں جانیں۔ اسی کیس کو بنیاد بنا کر حکومت کو قانون کی بالا دستی قائم کرنے کی بنیاد ڈال دینا چاہئے، لیکن اس تماش گاہ میں یہ ایک مشکل کام ہے ۔ ایسا کوہ گراں ہے جو حکومت میں شامل بہت سارے لوگ اٹھانانہیں چاہیں گے۔ ہر ایک کو اپنے مفادات عزیز ہوتے ہیں۔ اور جب مفادات رکھنے والے ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھتے ہوں تو وہ کبھی نہیں چاہیں گے۔ اپنے وقت کے ساتھ ساتھ تمام وقتوں کے ممتاز دانشور، ادیب اور شاعر آسکر وائلڈ نے ’’ پریس ، ریاست کا چوتھا ستون ‘‘پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ ماضی میں لوگوں کے پاس ریک Rack (اذیت دینے کا شکنجہ ) تھا، اب ان کے پاس پریس ہے۔ یقیننا یہ ایک اصلاح شدہ شے ہے ، لیکن ابھی بھی یہ بہت خراب ہے۔غلط ہے اور مایوس کن ہے۔ ایڈمنڈ برکی (اٹھارویں صدی کے آئرستانی فلاسفر، سیاست دان، مقرر تھے) نامی کسی شخص نے صحافت کو چوتھی ریاست (ریاست کا چوتھا ستون ) قرار دیا۔ بلاشبہ اس وقت یہ حقیقت تھا ، لیکن موجود ہ دور میں صرف یہ ہی ریاست ہے جو دیگر تینوں ریاستوں (ستونوں ) کو کھا گئی ہے۔ لارڈز ٹیمپورل ( دارالامرا کے ارکان بشپوں کے علاوہ) کچھ نہیں کہتے۔ لارڈز اسپریچوئل ( برطانوی دارالامرا کے بشپ ارکان) کچھ نہیں کہتے۔ ہاؤ س آف کامنز (برطانوی دارالعوام ) کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے اور نہ ہی کچھ کہتے ہیں۔ ہم پر صحافت حاوی ہو گئی ہے ‘‘ ۔

مزید :

کالم -