بلوچستان میں امن: آہنی ہاتھوں کی ضرورت

بلوچستان میں امن: آہنی ہاتھوں کی ضرورت
بلوچستان میں امن: آہنی ہاتھوں کی ضرورت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مستونگ میں 22 پشتونوں کی ہلاکت اور 10 افراد کے اغوا کے واقعہ کے بعد وفاق اور صوبے میں ہلچل تو ضرور پیدا ہوئی ہے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا جس کی توقع کی جارہی تھی ۔اگرچہ مستونگ سانحہ کے بعد وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف نے آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر میں بلوچستان کی صورتحال سے نمٹنے کے لئے تفصیلی تبادلہ خیال اور واضح لائحہ عمل مرتب کیا جس کے بعد کور کمانڈر بلوچستان ناصر خان جنجوعہ نے اس عزم کا اعلان کیا کہ ہم بلوچوں اور پشتونوں کو لڑانے کی سازش ناکام بنادیں گے اور نام نہاد علیحدگی پسندوں کو ان کے بلوں سے نکال کر خاتمہ کریں گے اسی طرح وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر مالک نے بھی راست اقدام کرنے کے لئے آج بروز 2 جون کل جماعتی کانفرنس طلب کی ہے جس میں بلوچ علیحدگی پسندوں کے خلاف راست اقدام کے لئے قومی اتفاق رائے سے لائحہ عمل مرتب کئے جانے کا امکان ہے بلوچستان میں بغاوت کی تاریخ بڑی پرانی ہے اور ایوب خان سے مشرف تک باغیوں کے خلاف متعدد آپریشن کئے گئے لیکن یہ تاریخ سر و گرم موسم کی طرح چلتی رہی تاہم نواب اکبر بگٹی جنہوں نے بھٹو کے دور میں باغیوں کی سرکوبی کے لئے آپریشن کی سربراہی کی، مشرف دور میں ان کی ہلاکت کے بعد بلوچ آزادی پسندوں کو ایک قد آور لاش کا سہارا مل گیا اور 2006 کے بعد بلوچ علیحدگی پسندوں کی سرگرمیوں میں تیزی آگئی۔ بلوچستان کو بیک وقت مختلف تحریکوں کا سامنا ہے بلوچوں کے پانچ مسلح گروپ نام نہاد آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں جبکہ طالبان اور لشکر جھنگوی اہل تشیع اور اپنے مخالف عناصر کو نشانہ بنارہے ہیں بلوچستان میں اس وقت بلوچ لبریشن فرنٹ بلوچ لبریشن آرمی بلوچ ری پبلکن آرمی لشکر بلوچستان جنگجو گروپ کام کررہے ہیں حالیہ مستونگ واقعہ کی ذمہ داری بلوچ لبریشن فرنٹ نے قبول کی ہے جس کا سربراہ اللہ نذیر ہے اور بلوچ جنگجوؤں کے سب سے بڑے گروپ کی قیادت کررہا ہے۔ اس کا دائرہ کار مکران ڈویژن تک محیط ہے جس میں آواران پنجگور تربت اور واشک شامل ہیں اور یہ وہ علاقے ہیں جہاں سرداروں کا عمل دخل بہت کم ہے اور انہی علاقوں سے بی ایس او کے سابق سربراہ ڈاکٹر عبدالحی بلوچ اور ڈاکٹر مالک وزیر اعلیٰ بلوچستان نے سرداروں کے مقابلے میں بلوچستان نیشنل پارٹی کی بنیاد رکھی تھی وزیراعظم نواز شریف نے آواران کی مخصوص صورتحال کے پیش نظر ڈاکٹر مالک کو بلوچستان کا وزیراعلیٰ نامزد کیا تھا اور جن کے ذمے یہ کام لگایا گیا تھا کہ وہ جنگجوؤں کو مذاکرات کی ٹیبل پر لائیں گے اور مسئلے کا سیاسی حل تلاش کریں گے۔ لیکن تقریباً دو سوا دو سال کے عرصہ اقتدار میں وہ ان جنگجو تنظیموں پر تمام تر سیاسی اور عسکری حمایت کے باوجود قابو نہ پاسکے دوسرا بڑا جنگجو گروپ بالاج مری اور حربیار مری کی قیادت میں مسلح جنگ لڑرہا ہے یہ گروپ قومی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے علاوہ غیر بلوچوں کے قتل عام میں بھی ملوث ہے بالاج اور حربیار مری لندن میں مقیم ہیں اور انہیں افغانستان اور بھارت کی حمایت حاصل ہے۔ اس طرح ایک بڑا گروپ بلوچ ری پبلکن آرمی کا ہے جس کا قیام نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد وجود میں آیا اور اسکی قیادت میر نواب براھمداغ کے پاس ہے جو افغانستان میں بیٹھ کر اس گروپ کی قیادت کررہا ہے اسی طرح حربیار مری ان کے چھوٹے بھائی مہران مری میں حکمت عملی میں اختلافات کے بعد یونائیڈ بلوچ آرمی قائم ہوئی جبکہ پانچواں گروپ لشکر بلوچستان ہے جس کا سربراہ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان اختر مینگل کا بھائی جاوید مینگل ان سب گروپوں کا پہلے مسلح افواج پیرا ملٹری فورس پولیس اور پنجابیوں کا بلوچستان سے خاتمے کا ایک مشترکہ مقصد تھا لیکن اب بلوچ لبریشن فرنٹ نے اس کا دائرہ پشتونوں تک بڑھادیا ہے یہ گروپ سمجھتا ہے کہ افغان جنگ کے بعد بڑی تعداد میں پشتون بلوچستان میں آباد ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے بلوچ پشتون آبادی کا تناسب بگڑنے لگا ہے یہ گروپ مسائل اور وسائل کی بنیاد پر سیاست کرتے اور اس نعرے کی بنیاد پر اپنی طرف پڑھے لکھے لوگوں کو راغب کرتے ہیں کا سب سے بڑا ہدف پنجاب کی معاشی ترقی ہے اگر حالات کا تجزیہ کریں تو پنجاب کے جاگیردار اور اشرافیہ اسی طرح خوشحال ہیں جیسے بلوچستان کے بڑے سردار۔ پنجاب کے چند بڑے شہروں میں ہونے والی معاشی ترقی کے اثرات سے پنجاب کے غریب عوام آج بھی محروم ہیں جیسے بلوچستان کے لوگ گوادر بندر گاہ کے ثمرات سے محروم ہیں پاکستان کی 70 فیصد دیہی آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے صحت کے حالات بھی بلوچستان سے مختلف نہیں لیکن بیرونی قوتوں کی سازشوں اور وفاقی حکومت کی نا اہلی کی وجہ سے بلوچستان کے نوجوانوں میں احساس محرومی کی شدت میں اضافہ ہوا ہے اگرچہ آج پورا پاکستان نازک صورتحال سے دوچار ہے لیکن بلوچستان کے حالات کو مزید خرابی سے بچانے کے لئے کسی بڑے راست اقدام کی ضرورت ہے نیم دلانہ ایکشن کی بجائے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے وفاق اور صوبائی حکومتوں کو غیر ملکی ہاتھ اور غیر ملکی ایجنسیوں پر الزام لگا کر اپنی ذمہ داریوں سے مبرا ہونے کا جواز پیش نہیں کرنا چاہیے اگر واقعی بلوچستان کے مختلف علاقوں میں’’ را‘‘ اور افغانستان کی خفیہ ایجنسیاں ملوث ہیں تو اس راز کو پردے میں رکھنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اسے ٹھوس ثبوت کے ساتھ عوام کے سامنے لانا ہوگا اور اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں پیش کرنا ہوگا ورنہ بار بار خفیہ ہاتھوں پر الزام لگانے سے ہماری ایجنسیوں اور سکیورٹی کے اداروں پر سوالیہ نشان کھڑے ہونگے۔ حالات کا تقاضہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔

مزید :

کالم -