نہال ہاشمی کا بیان اور عمران کی ریٹنگ
ہم ’’کھلواڑ‘‘ کے ماہرہیں، یہاں کھوٹے سکے کو دھاگہ باندھ کر گلی میں پھینکا جاتا ہے، آتے جاتے راہی کو بیوقوف بناکر مزہ لیا جاتا ہے۔شیطان بس اتنا ہی کرتا ہے کہ حلوائی کی دکان سے شیرے کے دو قطرے دیوار پر لگا دیتا ہے۔ تماشا خود بخود شروع ہو جاتا ہے۔ جی ہاں! یہ ’’ریٹنگ ‘‘ کا زمانہ ہے۔ ریٹنگ کے لئے سحروافطار کو بھی ’’گیم شوز‘‘ میں بدل دیا جاتا ہے۔ دین کو کمرشلائز کردیا جاتا ہے۔ انعام گھروں کے نام پر روزہ داروں سے جوا کھیلا جاتا ہے۔ یہ ’’ریٹنگ‘‘کا سیاپا ہی ہے کہ سینئر اینکر پرسنز بڑے اہتمام سے نہال ہاشمی کے ایک ذاتی بیان کو اچھال رہے ہیں۔ کوئی نہال کے بیان کو جے آئی ٹی کے خلاف قرار دے رہا ہے، کوئی عدلیہ کے خلاف تو کوئی کسی دوسری طرف اشارہ کررہا ہے۔
حیرت ہے کہ جب پاکستان کی وزارتِ اطلاعات نہال ہاشمی کی جذباتی بیان بازی کو ان کے ذاتی خیالات قرار دے رہی ہے۔جب وزیر اعظم ہاؤس نہال ہاشمی سے ان کے بیانات کی وضاحت طلب کرچکا ہے سپریم کورٹ ازخود نوٹس کے ذریعے نہال ہاشمی سے جواب طلب کرچکی ہے، ہاشمی اپنی سینٹ کی نشست سے استعفیٰ دے چکے ہیں، جب مسلم لیگ (ن) نے ان کی بنیادی رکنیت معطل کردی ہے تو پھر نیوز چینلز کس مفاد کی خاطر اداروں کے درمیان تصادم کروانے پرتلے ہوئے ہیں؟
ہر چھوٹی چھوٹی بات کو بڑے طوفان میں بدل دینا کون سی صحافت ہے؟ پوری قوم دیکھ رہی ہے کہ شریف فیملی کوئی شور مچائے بغیر پاناما کیس پوری تیاری اور تابعداری سے لڑ رہی ہے۔ عدالتوں کے تمام احکامات پر عملدرآمد کررہی ہے۔ حسین نواز بیماری کی پروانہ کرتے ہوئے 4گھنٹے جے آئی ٹی کے سوالات کا جواب دیتے ہیں اور دوسری طرف جے آئی ٹی کے بلاوے پر حسن نواز لندن سے پاکستان پہنچتے ہیں، جب شریف خاندان کی ہر طرح کی دیانتداری ، تابعداری اور شرافت سب پر عیاں ہے تو پھر اداروں میں چپقلش اور دراڑیں ڈالنے والوں کے ارادے کیا ہیں؟کیوں ملک میں افراتفری پھیلائی جارہی ہے، کیوں قوم کو کسی ’’سنسنی خیز‘‘ میچ کی کمنٹری سنائی جارہی ہے؟ کن عزائم کو پورا کیا جارہا ہے اور کن طاقتوں کو خوش کرنے کی ناکام کوششیں ہو رہی ہیں؟
یہ 90کی دہائی نہیں، زمانہ بدل گیا ہے۔ اب اداروں کے درمیان تصادم ممکن ہے اور نہ ہی جمہوریت کو بار بار پاتال میں پھینکا جاسکتا ہے۔ نیوز لیکس کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ حکومت نے پاک آرمی کے تحفظات دور کرنے کے لئے ہر ممکن اقدامات اٹھائے تو دوسری جانب پاک فوج نے بھی ملک و قوم کی خاطر ’’ان پاپولر‘‘ فیصلے کرکے اداروں کے درمیان تصادم کا خواب دیکھنے والوں پر خاک ڈالی۔ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف ہر قسم کی بیان بازی کو ترک کرکے خاموشی سے ترقیاتی کاموں پر دھیان دیئے ہوئے ہیں۔ ان کی باڈی لینگوئج صاف بتارہی ہے کہ انہیں عمران خان کی پھوکٹ بیان بازی سے کوئی سروکار نہیں، وہ مزید ’’سکینڈ لائز‘‘ سیاست میں اُلجھنے کو تیار نہیں۔ جے آئی ٹی کیسے تفتیش کرتی ہے۔ انہیں کچھ غرض نہیں، انہوں نے کام کرنا ہے، سرجھکا کے اپنے مشن کو پورا کرنا ہے اور کسی دوسری جانب توجہ دے کر اپنا وقت ضائع نہیں کرنا، بقول بلھے شاہ:
تینوں کافر کافر آکھدے
توں آہو آہو آکھ
عمران خان کی بیان بازی سن کر بعض اوقات ہنسی آتی ہے، تو کبھی کپتان پر ترس آتا ہے۔ وکیل کہتے ہیں کہ بنی گالہ محل کے پیسے جمائمانے دیئے، کپتان کا دعویٰ ہے کہ نہیں، جمائمانے نہیں دیئے، بلکہ نیازی آف شور کافلیٹ بیچ کردیئے گئے۔ پوچھنے والے پوچھ رہے ہیں کہ جمائمانے بنی گالہ محل کی قیمت سے کہیں زیادہ پیسے بھیجے ، باقی پیسے کہاں خرچ کئے گئے؟ کہنے والوں کے ’’منہ پھٹ‘‘ انداز سے کون واقف نہیں ، ان کا سوال یہ بھی ہے کہ یہودی لابی کا پیسہ پاکستان میں کیوں آیا؟ سب سے اہم ’’پوچھ گچھ‘‘ یہ ہونے والی ہے کہ تحریک انصاف کی فنڈنگ پاکستان کے اندر چند ہزار اور بیرون ملک اربوں میں کیسے ہوئی ہے؟ لیکن ہمیں ان سوالوں، شکوک و شبہات ، الزامات سے کوئی غرض نہیں ، ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ کسی طرح سے الزام تراشی، بہتان بازی کی سیاست ختم ہو۔جس طرح وزیر اعظم نواز شریف، وزیر اعلیٰ شہباز چپ چاپ ملکی معیشت کو مضبوط و مستحکم کرنے میں جتے ہیں، ویسے ہی اپوزیشن جماعتیں بھی ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کی بجائے ، حکومت کا ساتھ دیں، لیکن ایسا ہوتا کسی صورت نظر نہیں آتا۔ 2018ء کا الیکشن جیسے جیسے قریب آرہا ہے، الزامات کی سیاست عروج حاصل کررہی ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی 2018ء کا الیکشن جیتنے کی دعویدار ہے اور ’’مفاہمت کی سیاست‘‘ کا درس دینے والے حکومت پر تابڑ توڑ حملے کررہے ہیں۔ کشمیریوں کے کیا حالات ہیں۔ پاکستان میں کس قدر غربت ہے، مسائل کا توڑ کیا ہے، کسی کو ان سب سے غرض نہیں، الزام تراشیوں سے فرصت نہیں۔ سپریم کورٹ کہہ رہی ہے کہ عمران خان اگر بنی گالہ اراضی کی منی ٹریل ثابت نہ کرسکے تو نتائج بھگتیں گے،ادھر الیکشن کمیشن پی ٹی آئی سے پارٹی فنڈنگ کا حساب مانگ رہا ہے، لیکن کپتان اور ان کی پارٹی کہیں بھی کوئی ثبوت یا پروف دینے کو تیار نہیں۔ پھر بھی دوسروں پر الزام تراشی میں کپتان اور ان کی جماعت نمبر ون ہے۔ اسی سے ’’ریٹنگ‘‘ بنتی ہے، نیوز چینلز پیچھے بھاگتے ہیں، چھوٹا سیاستدان بڑا لیڈر بنتا ہے؟
کون نہیں جانتا کہ عمران خان کی تحریک انصاف کے پاس نہ کوئی بڑا منشور ہے اور نہ اس جماعت کی حکومت نے خیبر پختونخوا ہ میں کوئی اہم کارکردگی دکھائی ہے۔ عمران خان کی ساری سیاست الزامات کے گرد گھومتی ہے۔ عمران اور ان کی پارٹی نے الزامات کا نام’’تلاشی‘‘ رکھا اور پھر وقت کا سچ انہیں گھیر کراس پوائنٹ پر لے آیا، جہاں ان کی اپنی تلاشی شروع ہوگئی، اس سب کے باوجود عمران آج بھی ’’ریٹنگ‘‘ میں پیچھے ہیں۔بات یہ ہے کہ ہم فضولیات سے کب باہر نکلیں گے؟ کب ملکی مسائل پر توجہ دیں گے۔ کب ملک کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لئے حکومت اور اپوزیشن کو ایک ساتھ کام کرتے دیکھیں گے؟یقیناًہمارے مسائل یہ نہیں جن میں ہماری لیڈر شپ نے قوم کو الجھایا ہوا ہے۔ ہمارا مسئلہ سی پیک ہے، جس کی جلد از جلد تکمیل ہمارے معاشی و سماجی مسائل کا علاج ہے۔ ہمارا مسئلہ گوادرپورٹ ہے، جس کی تعمیر اصل میں ہمارے خوابوں کی تعبیر ہے۔ ہمیں بھارت جیسا چالاک وشاطر ہمسایہ طرح طرح کے مسائل میں الجھائے ہوئے ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج آئے دن معصوموں کے خون سے ہولی کھیلتی ہے۔افغانستان آئے روز ہمارے مسائل میں اضافہ کررہا ہے، ملک دشمن عناصر بلوچستان میں ترقی کا پہیہ روکنے کے لئے مزدوروں کو لائن میں کھڑے کرکے گولیاں مار رہے ہیں، لیکن ہمیں ان میں سے کسی بھی مسئلہ سے کوئی غرض نہیں۔ ہمیں اپنی ریٹنگ کی فکر ہے۔ افسوس کہ یہ وقت قومی یکجہتی کا ہے، تعمیر پاکستان کا ہے، اتحاد و یگانگت کا ہے۔
سی پیک کی تکمیل کا ہے، مگر ہم اس سنہری وقت کو ’’ریٹنگ ‘‘ کی نذر کررہے ہیں۔