پتھر اٹھاؤ ،پہلے اپنا سر دیکھو
پورے ملک میں اس وقت ایک ہاہاکار مچی ہے۔ ایک طرف تماشا گر خود تماشا بنتا جا رہا ہے تو دوسری جانب اس کے لگائے گئے تماشے کا بھی اب ڈراپ سین ہوا چاہتا ہے۔جے آئی ٹی کا ایک مہینہ پورا ہونے والا ہے اور عدالت نے حکم جاری کیا ہے کہ پاناما کیس کا فیصلہ دو ماہ میں ہی کیا جائے گا۔ اضافی وقت نہیں ملے گا۔ حسین وحسن نواز گزشتہ دنوں جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہوئے۔ ان سے کئی گھنٹے پوچھ گچھ کی گئی۔ اس پوچھ گچھ کا کیا نتیجہ نکلا یہ تو حتمی نتیجے سے ہی پتہ چلے گا‘ البتہ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جوابات کچھ بہت زیادہ اطمینان بخش نہیں۔ پاناما کیس سے تو اب بندہ بندہ واقف ہے کہ مبینہ طور پر حسین نواز ‘ ان کے بھائی حسن نواز نے آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی اور لندن میں فلیٹ خریدے ۔یہ سرمایہ کاری کیسے کی گئی؟ کب کی گئی؟ اس سرمایہ کاری کے لئے رقوم کہاں سے آئیں؟ اور اگر ملکی دولت بیرونِ ملک لے جائی گئی تو اس کے لئے قانونی طریقہ اختیار کیاگیا‘ یا یہ اقدام غیرقانونی طریقے سے کیا گیا۔جے ٹی آئی انہی سوالات کے جوابات تلاش کرنے کے لئے قائم کی گئی۔
دوسری جانب تماشا گر کے ساتھ ’لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا‘والا معاملہ ہو گیا ہے۔ پتہ چلا ہے کہ اور یہ معاملہ عدالت کے زیر غور بھی ہے کہ حالیہ عوامی جلسوں اور تین سال پہلے کے احتجاجی دھرنوں میں وزیر اعظم نواز شریف کے کرپشن کے ثبوتوں کے کاغذات لہرا لہرا کر حاضرین اور ٹی کے ناظرین کو دکھانے والا یہ تماشا گر تو خود ایسے ہی جرم(اگر کوئی اسے جرم تسلیم کرے)کا مرتکب ہوا۔ سپریم کورٹ نے نااہلی کیس میں حنیف عباسی کی متفرق درخواستوں پر منگل کے روز عمران خان کو نوٹس جاری کرکے ایک ہفتے میں جواب طلب کر لیا اور غیر ملکی فنڈنگ سے متعلق دائرہ سماعت پر الیکشن کمیشن سے موقف طلب کر لیا گیا۔ اس موقعہ پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ خان صاحب کو منی ٹریل(یعنی یہ تفصیلات کہ کون سے رقم کہاں سے حاصل کی گئی اور کس ذرائع سے دوسری جگہ پہنچائی گئی)ثابت کرنا ہو گی۔ یہ ثابت کرناہو گا کہ رقم جمائمہ نے ہی بھجوائی۔ قبل ازیں چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے عمران خان نااہلی کیس کی سماعت کے دوران دلائل پیش کرتے ہوئے بتایا کہ جمائمہ خان نے بنی گالہ اراضی کیس کی خریداری کے لئے رقم بذریعہ بینک ادا کی‘ ۔ اور یہ کہ گرینڈ حیات کو کل 59لاکھ روپے ادا کئے گئے۔ یاد رہے کہ گرینڈ حیات اسلام آباد میں ممکنہ طور پر بننے والی کثیر منزلہ اور اسلام آباد کی سب سے بڑی عمارت تھی‘ جس کی لیز سی ڈی اے نے گزشتہ ماہ منسوخ کر دی تھی۔ اب یہ عمارت نہیں بننے جا رہی۔ اس کثیر منزلہ عمارت کے ساتھ بننے والے لگژری اپارٹمنٹس بھی منسوخ ہو گئے ہیں۔ اس ہوٹل میں عمران خان سمیت بہت سی اہم شخصیات نے سرمای کاری کر رکھی تھی۔ یہ رقوم اب دوب جانے کا اندیشہ ہے تاہم یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ عمران خان نے اس ہوٹل میں سرمایہ کاری کے لئے رقم کہاں سے حاصل کی۔ اس کی تفصیلات(منی ٹریل)کیا ہیں۔
تو اب لگتا ہے کہ تماشا گر کا اپنا تماشا لگنے والا ہے۔ جلسوں اور دھرنوں میں دوسروں کے راز فاش اور عزت کی دھجیاں بکھیرنے والے کی اب اپنی باری ہے۔ انجیل میں حضرت عیسیٰ ؑ سے ایک واقعہ روایت ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کو تعلیم دے رہے تھے کہ فاریسیوں(یہودیوں کا ایک فرقہ)کا ایک گروہ ایک عورت کو لے کر ان کے پاس آیا۔ انہوں نے حضرت عیسیٰ ؑ سے اس کے لئے سزا تجویز کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس پر جو الزام تھا یہودی مذہب میں اس کی سزا سنگساری تھی۔ حضرت عیسیٰ ؑ نے فاریسیوں سے کہا کہ اسے سزا ضرور دو لیکن پہلا پتھر وہ شخص مارے جس نے خود کبھی گناہ نہ کیا ہو۔ بھرے جلسوں میں دوسروں پر الزامات اور تہمتوں کی سنگ باری کرنے والے ہمارے تماشا گر صاحب تو خودد اسی گناہ کے مرتکب پائے جا رہے ہیں‘ جس پر وہ دوسروں کو مطعون کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتے تھے۔
یہ ساری باتیں لکھنے کا مطلب‘ مقصد صرف ایک ہے۔ تماشا گروں اور تماشا بننے والوں سے یہ اپیل کرنا کہ بس کر دیں۔ اس قوم کو بخش دیں‘ معاف کر دیں۔ یہاں کون ہے‘ جس کے ہاتھ کرپشن سے لتھڑے ہوئے نہیں؟سبھی ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ سبھی کرپٹ ہیں۔ کوئی مالی تو کوئی اخلاقی لحاظ سے‘ لہٰذا خود کو پاک صاف اور دودھ کا دھلا ظاہر کرنے سے کچھ فائدہ نہ ہو گا۔ حصول اقتدار کی ہوس سے نکل کر عوام کی حالت زار پر غور کیجئے ۔بجلی کی لوڈ شیڈنگ انتہاکو پہنچی ہوئی ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب اس شدید گرمی میں بھی دن میں کئی کئی بجلی بند نہ رکھی جاتی ہو۔ حکومتی دعووں کے برعکس لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ ہے کہ شیطان کی آنت کی طرح بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ ملک کی آدھی آبادی خطِ افلاس سے نیچے زندگی سسک سسک کر گزار رہی ہے۔ ہمارے ملک کے کروڑوں بچے سکول کی شکل تک نہیں دیکھ سکتے۔ جو سکول جاتے ہیں‘ انہیں مکمل ذہنی آسودگی کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے کے سلسلے میں ضروری سہولیات میسر نہیں۔ ہمارے ہسپتالوں کی حالت زار کسی سے پوشیدہ نہیں‘ جہاں داکٹر دستیاب نہیں۔ ڈاکٹر ہیں تو ادویات نہیں اور اگر ادویات مل جائیں تو ضروری ٹیسٹوں کے لئے مناسب میڈیکل مشینیں نہیں ملتیں۔جاری مالی سال کی اقتصادی سروے رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان میں 997افراد کے لئے ایک ڈاکٹر‘ 10658افراد کے لئے ایک ڈینٹسٹ اور 1584افراد کے لئے ہسپتالوں میں ایک بستر دستیاب ہے۔ درآمدات میں مسلسل اضافے اور برآمدات میں مسلسل کمی کے باعث ہمارے ملک کا تجارتی خسارہ 34فیصد بڑھ چکا ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی واقع ہو رہی ہے اور عالمی اقتصادی اداروں کے قرضوں کا بوجھ اتنا بڑھ چکا ہے کہ اب ہمیں اپنے سالانہ بجٹ میں اس کے لئے باقاعدہ رقوم مختص کرنا پڑ رہی ہیں۔ اگلے مالی سال میں اس مقصد کے لئے 1366ارب روپے مختص کئے گئے ہیں (اگر ہم قرضوں کی دلدل میں نہ دھنسے اور پھنسے ہوئے ہوتے تو یہی رقم بجلی کی پیداوار بڑھانے‘ سرکاری سکولوں کے معیار تعلیم میں اضافہ کرنے یا کچھ نئے ہسپتال بنانے پر خرچ کئے جا سکتے تھے)‘ بے روز گاری کا عفریت ہر سال اپنا حجم بڑھا رہا ہے‘ لیکن ہمارے سیاستدان کرپشن کرپشن کھیل رہے ہیں۔ عوام کو ایک مسلسل عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے‘ ان طبقات نے جو خودکو اشرافیہ قرار دیتے ہیں۔ بتائے کون سی بات ہے ان میں شریفوں والی؟ جناب بہت ہو چکی یہ تماشا گری اور یہ ڈرامہ بازی۔ اب ملک اور کی معیشت پر حالت رحم کھاتے ہوئے یہ قوم کا پیچھا چھوڑ دیں تو ممکن ہے اس دلدل سے نکلنے کے بارے میں سوچنے کا بھی موقع مل جائے۔ براہ مہربانی قوم کو معاف کر دیں۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔