کشمیر لاک ڈاؤن اور کورونا وبا
مقبوضہ وادی جموں و کشمیر میں جبری لاک ڈاؤن کو دس ماہ ہو رہے ہیں۔ اس مدت میں وادی میں بسنے والوں نے سکھ کا سانس نہیں لیا۔ مردوں، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں نے ہر وہ ظلم سہا ہے جو بزدل بھارتی غاصب حکمرانوں نے ان پر توڑا ہے۔ وادی میں ان بھارتی فوجیوں کی اکثریت ہے جو بھارت کے مشرقی اور جنوبی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں اور جو وادی کی زبان اور تہذیب و ثقافت سے ناآشنا ہیں۔ یہ فوجی جہالت اور ظلم و جبر کی گُھٹی لئے ہوئے ہیں اور تشدد پسندی ان کا شعار ہے۔ رات کے اندھیروں میں یہ فوجی بے قصور کشمیری نوجوانوں کو گھروں سے اٹھاتے ہیں، ان پر دہشت گردی کا الزام دھرتے اور انہیں گولی مار کر شہید کرتے ہیں۔ ایسا کبھی کبھار نہیں ہوتا، بلکہ یہ روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ وہ کشمیری بچیاں، لڑکیاں اور عورتیں کہ جن کے چہروں پر کبھی سورج کی کرن نہ پڑی تھی، اب موت کے خوف سے بے نیاز، اوڑھنیاں اپنے سروں پر لئے اپنے پیاروں کے حق میں گھروں سے باہر نکل رہی ہیں۔ چشمِ فلک نے زندگی کی ارزانی شاذ ہی کبھی دیکھی ہو گی۔
5اگست 2019ء کو مقبوضہ وادی میں لاک ڈاؤن نافذ ہوا تو ایک واویلا مچا۔ اندرون و بیرونِ کشمیر مذمت کی صدائیں بلند ہوئیں۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ اہل کشمیر صابر ہیں اور برداشت کا مادہ رکھتے ہیں۔ وادی کے لوگ خوراک اور ادویات کی کمی کا شکار ہوئے۔ مساجد میں جانے سے روک دیئے گئے۔ جنازے اٹھانے سے منع کر دیئے گئے لیکن کشمیریوں کا وہ عزمِ صمیم جسے غاصب بھارتی حکمران ضرب پہنچانا چاہتے تھے، متزلزل نہ کر سکے۔ اسی دوران کورونا وائرس کی وبا نے بلا تخصیص ترقی یافتہ اور پسماندہ ممالک کے لوگوں کو لاک ڈاؤن کے حقیقی تصور سے آشنا کیا۔ ان ممالک میں جو ترقی کی معراج پر تھے، لوگ موت کے ہاتھوں اسی طرح زچ ہوئے کہ غریب ممالک میں لوگ قحط اور بھوک سے اس طرح متاثر نہ ہوئے ہوں گے۔
بہرحال بھارت ایک ایسا ملک ہے کہ جس کے حکمرانوں اور رہنماؤں کی تنگ نظری، بزدلی، تُھڑ دلی، اذیت پسندی، شقاوت اور بے رحمی بدرجہء اتم موجود ہے۔ انہیں ذرا سا موقع ملے تو ان کا دھرم اپنی تمام تر کالک اور سنگینی کے ساتھ برہنہ ہو جاتا ہے۔ ان کے ظلم کا کوڑا صرف اہل کشمیر کی پیٹھ پر نہیں بلکہ پورے بھارت میں ان علاقوں پر برس رہا ہے جہاں مسلمان اقلیت کی صورت میں سر چھپائے بیٹھے ہیں۔
میں سوچتی ہوں کہ ہم لوگ کس قدر محفوظ و مامون ہیں۔ ہم رب الرحیم کا جتنا شکر بھی ادا کریں وہ کم ہے کہ جس ذاتِ بے ہمتا نے ہمیں آزادی کی نعمت سے نوازا ہے۔ لیکن ہم پر فرض ہے کہ ہم اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کے حق میں صدا بلند ضرور کریں جو آزادی کے حصول کے لئے اپنی جان و مال اور عزت و آبرو کھپا رہے ہیں۔
مقبوضہ وادی سے آنے والی خبروں کے مطابق بھارتی فوجی کشمیری شہید نوجوانوں کے جنازوں کے بڑے بڑے اجتماعات سے خوفزدہ ہو کر ان کی میتیں لواحقین کے حوالے کرنے کی بجائے سونہ مرگ اور اوری میں اپنے زیر انتظام قبرستانوں میں دفن کر رہے ہیں جس کا واحد مقصد شہداء کے جنازوں میں کشمیریوں کی والہانہ شرکت کو روکنا ہے۔ بھارتی فوج یہ مذموم عمل کورونا وائرس کی آڑ میں انجام دے رہی ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ حالیہ شہید کمانڈر ریاض نائیکو کی میت بھی سو نہ مرگ کے علاقے میں دفن کی گئی تھی جہاں ان کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لئے لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ لہٰذا اطلاعات ہیں کہ بزدل بھارتی فوج نے ان کی میت کو قبر سے نکال کر نامعلوم مقام پر دفنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ چند برس گزرے معروف بیورو کریٹ اور صحافی خالد حسن مرحوم کشمیر کے ایک سفر سے واپس آئے تو انہوں نے بتایا کہ مقبوضہ وادی میں صرف ایک ہی صنعت پھل پھول رہی ہے اور وہ ہے قبرستانوں کا پھیلاؤ اور بڑھاؤ۔ بھارت کے جنونی رہنما اس صنعت کی ترقی کے خواہاں ہیں، تاہم وہ اس حقیقت سے نابلد ہیں کہ دنیا کا انتظام و انصرام ایک ایسی ہستی کے ہاتھوں میں ہے جو انسانی ظلم و ستم کو ایک حد تک برداشت کرتی ہے۔ کورونا وائرس دکھائی نہ دینے والا ایک مہلک وائرس ہے۔ اس وائرس نے پوری دنیا میں جس طرح ہلاکت کا بازار گرم کیا ہے، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔سماج اور معاشرے کی ساری اقدار جو ناگزیر سمجھی جاتی تھیں، لمحوں میں تلپٹ ہو گئی ہیں۔ عالمی سطح پر احساس ہوا کہ دکھائی نہ دینے والی وبا کے نتیجہ میں نافذ ہونے والا لاک ڈاؤن کیسی قباحتیں رکھتا ہے اور وہ لوگ جو 5اگست 2019ء سے ہمالیہ کی خوبصورت ترین وادی میں جبری نظر بندی کا شکار ہیں، بھارتی غاصبوں کے ہاتھوں ظلم و ستم سہ رہے ہیں، کس درجہ ہمت والے اور صابر ہیں۔