طیارہ حادثہ،دعوے نہیں کارروائی کی جائے
عید سے دو روز قبل پی آئی اے کا طیارہ جو لاہور سے کراچی جارہا تھا جناح انٹرنیشنل ائیر پور ٹ پر لینڈ کرنے سے چند لمحے پہلے آبادی پر گر کر تباہ ہوگیا۔ اس المناک حادثے پر پوری قوم اب تک سو گوار ہے۔ شہید ہونے والوں میں بچے، بوڑھے، جوان، خواتین سب شامل تھے جو عید اپنے پیاروں کے ساتھ منانے جا رہے تھے۔ اس دردناک حادثے کے باعث پوری قوم عید بھی روایتی انداز میں نہ منا سکی اور عید کی خوشیوں کو دکھ، درد اور رنج نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ جمہوری ملکوں میں عام طور پر جب کوئی بڑا قومی سانحہ ہوتا ہے تو اس سے متعلقہ وزیر فوری طور پر مستعفی ہو جاتا ہے تاکہ جب اس واقعے پر تحقیقات شروع ہوں تو وہ اس پر اثر انداز نہ ہو سکے، مگر ہمارے ملک میں اس طرح کی کسی چیز کا نام و نشان تک نہیں۔ ریل کے حادثات ہوئے تو اس کی ذمہ داری یا تو ملازمین پر ڈالی گئی یا اسے تکنیکی خرابی کا نام دے کر معاملے کو ختم کر دیا گیا۔ اسی طرح پاکستان میں اب تک 21 فضائی حادثے ہو چکے ہیں، ان پر رپورٹیں بھی تیار کی گئیں
، مگر ان میں نہ تو کسی کو مورد الزام ٹھہرایا گیا، نہ ہی کسی کو سزا دی گئی اور نہ ہی ہوا بازی کا کوئی وزیرمستعفی ہوا۔ ہمارے وزیر شہری ہوا بازی غلام سرور خان فرماتے ہیں کہ اگر کوتاہی نکلی تو میں مستعفی ہوجاؤں گا۔ پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ائیر مارشل ارشد ملک کہتے ہیں کہ مجھ سمیت جو ذمہ دار ہوگا اس کا احتساب ہوگا۔ اب سوال یہ ہے کہ وزیر شہری ہوا بازی اور سی ای او پی آئی اے دونوں اپنے شعبوں کے سربراہ ہیں۔ ان کی موجودگی میں ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ اس حادثے کی رپورٹ بغیر کسی دباؤ کے تیار ہوسکے؟۔ جس دن گورنر پنجاب چودھری سرور نے لاہور میں شہید کیپٹن سجاد گل کے گھر جاکر لواحقین سے اظہار تعزیت کیا، تو اسی دن سجاد گل کے والد نے یہ الزام لگایا کہ مبینہ طور پر حادثے کی ذمہ داری ان کے شہید بیٹے پر ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے، تاکہ حادثے کے اصل ذمہ داروں کو بچایا جا سکے۔اسی دوران میڈیا کو مخصوص حلقوں کی طرف سے کچھ رپورٹس لیک کی گئیں جس کا واضح مقصد سارا ملبہ شہید ہونے والے عملے پر ڈال کر معاملے کو گول کرنا تھا۔
فرانس کی کمپنی ائیر بس کا جو طیارہ A320 کراچی ائیر پورٹ پر 22 مئی کو حادثے کا شکار ہوا اس کے متعلق طیارہ ساز کمپنی کی انتظامیہ دعویٰ کرتی ہے کہ ان کا بنایا ہوا یہ طیارہ دنیا بھر میں فضائی حادثات کے حوالے سے محفوظ ترین ہے، ایوی ایشن کے اعدادوشمار سے کمپنی کے اس دعویٰ کی تصدیق ہوتی ہے۔ A320۔ طیاروں میں حادثوں کی شرح دس لاکھ اڑانوں میں 0.25 فیصد ہے جو دنیا میں سب سے کم ہے۔ پاکستان میں لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد22 مارچ سے اب تک یہ طیارہ مسلسل دو ماہ تک گراؤنڈ پر تھا۔ حادثے کے دن لاہور سے اس کو معمول کی پری فلائٹ ٹیسٹ کے بعد قابل پرواز قرار دیا گیا تھا۔ پائلٹ سجاد گل ایک ماہر ہوا باز تھے جو وسیع تجربہ بھی رکھتے تھے۔ ایئر لائن انڈسٹری میں اپنے 24 سالہ کیریئر میں کیپٹن سجاد گل کو 17,000 گھنٹوں سے زیادہ پرواز کا تجربہ تھا اور انہوں نے 4,700 گھنٹوں کے لئے A320 ایئربس بھی اڑایا تھا۔ معجزانہ زندہ بچ جانے والے مسافر کے مطابق دوران پرواز بھی ایسی کوئی غیر معمولی بات نہیں ہوئی۔ طیارہ ساز کمپنی الگ حیران پریشان ہے کہ ہوا کیا ہے۔ طیارے کا بلیک باکس کمپنی فرانس لے جا رہی ہے جہاں حتمی رپورٹ جاری ہوگی اور کمپنی کی جاری کردہ رپورٹ کو پاکستان کی انکوائری کمیٹی کی رپورٹ سے زیادہ معتبر سمجھا جائے گا۔ اس دوران خبر یہ ہے کہ کمرشل پائلٹس کی تنظیم پاکستان ائیر لائن پائلٹ ایسوسی ایشن پالپانے حکومت کی ابتدائی 4 رکنی تحقیقاتی ٹیم کو مسترد کر دیا ہے، دوسری طرف شہید پائلٹ سجاد گل کے والد نے بھی کہہ دیا ہے کہ جب تک فرانس سے ائیر بس کی رپورٹ نہیں آجاتی ہم انکوائری کو تسلیم نہیں کریں گے۔
واقعات کے مطابق ہوا کچھ یوں کہ حادثے سے قبل جب پائلٹ نے طیارے کی لینڈنگ کی اجازت مانگی توسب کچھ نارمل تھا۔ جہاز اتارتے ہوئے بہت زیادہ جھٹکے محسوس کئے گئے جس سے ایک تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ پھر انہوں نے فوری طور پر جہاز کو دوبارہ ٹیک آف کر لیا اور انہیں کہا گیا ایک بار دوبارہ چکر لگا کر آؤ۔ اگر ہم غور کریں تو سمجھ سکتے ہیں کہ حادثہ اسی مرحلے میں ہو چکا تھا۔جب طیارے نے اترنے کی اجازت مانگی تو یہ بات ائیر ٹریفک کنٹرول کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ اس کی یقین دہانی کرے کہ طیارے کا لینڈنگ گیئر کھل چکا ہے کہ نہیں۔ ان لوگوں کا کام ہوتا ہے کہ یہ لوگ بذریعہ دوربین دیکھیں کہ کیا جہاز کے خودکار ہائیڈرالک پہیے کھل گئے ہیں یا نہیں اور پھر لینڈنگ کی اجازت دی جاتی ہے۔ بد قسمت پرواز 8303PK کا لینڈنگ گیئر نہیں کھلا تھا اور ان حالات میں پائلٹ کو نشاندہی نہ کرانا یا لینڈنگ کی اجازت دینا موت کو دعوت دینا تھا۔ جب پائلٹ نے پہلے لینڈنگ کی کوشش کی تھی تو جہاز کے دونوں انجن زمین سے رگڑ کھا چکے تھے اور یہیں جہاز کا کام تمام ہوچکا تھا۔ اس کے بعد فوری طور پر ائیر پورٹ میں ہنگامی حالات کا اعلان ہو جانا چاہیے تھا۔ جب ایمرجنسی لینڈنگ ہونے والی ہوتی ہے تو رن وے پر فائر پروف فوم بچھا دیا جاتا ہے۔ اس طرح جہاز کو نقصان کم پہنچتا ہے اور جانی نقصان بھی بہت کم ہوتا ہے۔لیکن پاکستان میں کہاں ایسا نظام۔ جب طیارہ پندرہ سے اٹھارہ منٹ بعد چکر کاٹ کر واپس آیا تو اسے ہدایت دی گئی کہ 3000 فٹ کی بلندی پر جاؤ لیکن جب جہاز 2000 فٹ پر تھا تو پائلٹ کا جہاز پر کنٹرول ختم ہوچکا تھا۔ جب بلندی 1800 فٹ ہوئی تو جہاز کا کنٹرول ٹاور سے رابطہ کٹ گیا اور وہ بے قابو ہوکر رہائشی علاقے میں جا گرا۔ سی اے اے نے کہا کہ ہوائی جہاز کے کپتان کو یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ "ہم انجن کھو چکے ہیں " جس کے بعد انہوں نے ہوائی اڈے کے ٹریفک کنٹرولر سے رابطے سے محروم ہونے سے قبل اپنے آخری رابطے کے دوران مے ڈے، مے ڈے" بول دیا تھا۔
اس حادثے میں بظاہر سراسر نالائقی نظر آتی ہے۔ جس میں سب سے پہلے تو لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ائیر پورٹ کے عملے کی غلطی ہے جنہوں نے اس جہاز کو قابل پرواز قرار دیا لیکن اس سے بھی زیادہ بڑی مجرمانہ غلطی تو کراچی کنٹرول ٹاور کی ہے جس نے طیارے کے پہیے کھلنے کی تصدیق کیے بغیر ہی اسے لینڈ کرنے کی اجازت دے دی۔
ہمیشہ کی طرح وزیر اعظم پاکستان نے جائے حادثہ کا دورہ کرنے کی بجائے عید کی چھٹیاں نتھیا گلی میں گزارنے کو ترجیح دی۔ کہانی اتنی سادہ بھی نہیں کہ پائلٹ پر سارا ملبہ ڈال کر اسے ختم کیا جا سکے۔ پی آئی اے کے پھٹیچر جہاز اب واقعی اْڑتے ہوئے تابوت بن چکے ہیں۔ تحقیقاتی رپورٹ آنے سے پہلے شہید پائلٹ سجاد گل پر انگلیاں اٹھانا ان کے عمر بھر کے کیرئیر کو داغدار کرنے کے مترادف ہے۔ بظاہر صورت حال یہی ہے کہ غلطی تسلیم کرنے پر کوئی تیار نہیں اور گناہ گارتحقیقات سے بھی بآسانی بچ جائینگے۔ کسی کو کیے کی سزا نہ ملنے پر ہی ملک کا جانی اور مالی نقصان ہو رہا ہے۔ اگر ایک بار شفاف انکوائری ہو اور ذمہ داروں کو سزا دی جائے تو حادثات میں بہت کمی آسکتی ہے۔ تب تک بہترین عمل یہی ہے کہ حتمی رپورٹ آنے تک قیاس آرائیوں سے گریز کیا جائے۔ لیکن ایسا تب ہی ممکن ہے جب حکومت اور پی آئی اے کے حکام مخصوص مقاصد کے لئے من گھڑت رپورٹیں لیک کرنے سے باز رہیں۔حادثے میں قیمتی جانی و مالی نقصان پر یہ کہہ کر قوم کے غم کامداوا نہیں کیاجاسکتا کہ مرنے والے شہید ہیں۔ان کے ورثاء کو معاوضہ دیا جائے گا۔ اس جہاز میں سفر کرنے والے عید پر اپنے پیاروں سے ملنے جارہے تھے یا اپنے انتہائی ضروری فرائض کی ادائیگی کرنے جارہے تھے،کوئی بھی یہ سوچ کر جہاز پر سوار نہیں ہوا تھا کہ فرنٹ لائن پر دشمن کے ساتھ لڑنے جارہا ہے۔ مجرمانہ غفلت کو شہادت اور مالی معاوضے جیسے پرکشش الفاظ سے ڈھانپنے کی کوشش حماقت اور دھوکہ ہے، بطور مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ مرنے والے شہید ہی ہیں اور ہم ان کے درجات کی بلندی اور لواحقین کے صبر کے لئے دعاگو بھی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ قوم ذمہ داروں کا احتساب چاہتی ہے، قومی مفاد کے نام پر جرائم چھپانے کا کھیل اب ختم ہونا چاہیے۔