سوشل میڈیا: حقائق اور پروپیگنڈا

سوشل میڈیا: حقائق اور پروپیگنڈا
سوشل میڈیا: حقائق اور پروپیگنڈا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


سوشل میڈیا ایک ایسا وسیلہء معلومات ہے جس میں حقیقت اور تصنّع کے درمیان تمیز کرنا از حد مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ امریکہ کی ایک ریاست میں چند روز پہلے ایک سیاہ فام کو سفید فام پولیس افسروں نے شک کی بناء پر گرفتار کیا۔ اس کے ہاتھ اس کی پشت پر باندھے اور اسے زمین پر پیٹ کے بل لٹا کر اس کی گردن کے عقبی حصے (گُدّی) پر گھٹنا رکھ کر اوپر سے دبانا شروع کر دیا۔ کالے کا اپنا وزن تین من سے کم نہیں تھا لیکن اتنا ہی وزن گورے پولیس آفیسر کا بھی تھا۔ اس پولیس والے کے آس پاس چند دوسرے ڈشکرے جسم والے پولیس آفیسر بھی تھے جن کے ہاتھوں میں آتشیں اسلحہ تھا اور وہ کسی کو اس منظر کے نزدیک آنے نہیں دے رہے تھے۔ کوئی گورا یا کالا دور کھڑا اپنے موبائل پر اس منظر کی تصویر کشی کر رہا تھا۔ کالے کی سانس بند ہو رہی تھی اور وہ بمشکل چلّا چلّا کر فریاد کر رہا تھا کہ اس کی سانس بند ہونے کو ہے۔ تین چار منٹ کی اس کشاکش میں آخر کالا زندگی کی بازی ہار گیا اور بے سدھ ہو کر بے جان ہو گیا۔ اگلے ہی لمحے اس کی موت کا منظر پوری دنیا میں وائرل ہو گیا۔ امریکہ کی سیاہ فام آبادی کا غیض و غضب دیدنی تھا۔ ریاست مینی پولس کی پولیس گردی کے خلاف امریکہ کے طول و عرض میں ایک طوفان برپا ہو گیا۔


بپھرے ہوئے لوگ لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے۔ بڑی بڑی عمارات نذرِ آتش کی جانے لگیں۔ لوٹ مار کا بازار گرم ہو گیا۔ سیاہ فام طبقہ ویسے بھی لوٹ مار کی جبّلی صفات کا حامل ہے۔ کالوں نے امریکی صدر کے گورے محل (وائٹ ہاؤس) کو گھیرے میں لے لیا۔ آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک کے نعرے بھی وائرل ہو گئے۔ روس، چین اور دوسرے امریکہ مخالف ممالک ایسے مواقع کی تاک میں رہتے ہیں۔ انہوں نے اپنے مین سٹریم میڈیا اور نیز سوشل میڈیا کی لگامیں ڈھیلی چھوڑ دیں اور ابلاغی اسپِ تازی سرپٹ دوڑنے لگا۔ 2020ء ویسے بھی امریکہ کا صدارتی سال ہے اور ڈیمو کریٹ پارٹی کیل کانٹے سے لیس ہو کر میدانِ عمل میں کود چکی ہے۔
صدر ٹرمپ نے پہلے تو معاملے کی سنگینی کا نوٹس نہ لیا اور پولیس آفیسر مذکور کو گویا بری الزّمہ قرار دینے کا عندیہ دیا۔ لیکن جب ہنگامے سنگین اور شدید ہو گئے اور 25اضلاع میں لوٹ مار اور آگ لگانے کی وارداتیں معمول ہو گئیں تو پہلے اس پولیس والے کو معطل کیا اور پھر گرفتار کر لیا…… اور بس…… لیکن حکومت کی طرف سے یہ کارروائی سیاہ فاموں کی آتش انتقام ٹھنڈی نہ کر سکی۔ ٹرمپ نے فوج کو متحرک کرنے کا عندیہ دیا لیکن اس کا اثر الٹا ہوا۔ آج اس سانحے کو چوتھا پانچواں روز ہے۔ ایک سفید فام پولیس والا بھی مارا جا چکا ہے لیکن یہ آگ ہنوز بجھ نہیں سکی۔…… سوشل میڈیا کے توسط سے یہ ساری تفصیلات ساری دنیا میں عام ہو چکی ہیں۔ اس واقعے کا اثر نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات پر ضرور پڑے گا۔ ابھی الیکشنوں میں 5،6 ماہ باقی ہیں اس دوران مزید کتنے سیاہ فاموں کا سفید فام پولیس فورس کے ہاتھو ں ایسا ہی انجام ہو گا جو مینی پولس کے اس کالے (جارج فلا ئڈ) کا ہوا ہے اس کے بارے میں کوئی پیشگوئی نہیں کی جا سکتی، اگر ٹرمپ کا تختہ الٹا تو اس میں ایک وجہ سوشل میڈیا کی یہ ہمہ گیری اور شتابی بھی ہوگی……


اب امریکہ سے نکل کر اپنے خطے کا رخ کریں ……گزشتہ ماہ انڈوچائنا چپقلش (سٹینڈ آف) کا جو آغاز ہوا تھا اس کا ڈراپ سین ہنوز باقی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا، انڈین بارڈر فورس کے پانچ سات جوان وردیوں میں ملبوس کسی جگہ لائن آف کنٹرول پر مرے پڑے ہیں۔ اور وردیوں ہی میں ملبوس چند چینی ٹروپس ان کے جیب و دامن کی تلاشی لے رہے ہیں۔ اس طرح کی باڈی سرچ دو وجوہات کی بناء پر کی جاتی ہے۔ ایک یہ کہ ان ہلاک شدگان میں کوئی کمیشنڈ آفیسر بھی ہے یا سب کی سب لاشیں جوانوں کی ہیں۔ آپریشنل ایریا میں جنگ و جدال کے ایام میں افسروں اور جوانوں کی وردیاں یکساں ہوتی ہیں۔ دور سے معلوم نہیں ہو سکتا کہ سپاہی کون ہے،نان کمیشنڈ آفیسر (NCO) کون ہے، جے سی او (JCO) کون ہے اور کمیشنڈ آفیسر کون ہے۔ ان کی ٹوپیاں (Berets)، قمیضوں کے کاندھے اور گریبانوں کی پٹیاں بے نشان ہوتی ہیں۔ ہاں ان کی شناخت کے لئے ان کی جیب یا کسی دوسرے حصہ ء وردی میں کوئی ایسا نشان ضرور رکھ دیا جاتا ہے جو لاش کے رینک کی شناخت کرواتا ہے۔ چینی فوج اسی لئے بھارتی لاشوں کی جیبیں ٹٹول رہی تھی……


جسمانی تلاشی کا دوسرا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہلاک شدگان میں اگر کوئی آفیسر بھی ہو اور وہ سیکٹر کا کمانڈر بھی ہو تو اس کی جیب میں ایک نقشہ ضرور ہوتا ہے جس میں علاقے کی ٹوپو گرافی، طرفین کی عددی قوت، ہتھیاروں کی اقسام اور تعداد، صف بندی کا انداز (Pattern) دشمن کے اہداف، اپنی منزلِ مقصود وغیرہ سب کچھ دیا ہوتا ہے۔ یہ اٹیک پلان یا ڈیفنس پلان ایک ابتدائی سے خاکے (سکیچ) کی صورت میں بہت سے راز افشا کر دیتا ہے۔ یہ سکیچ کسی کور کمانڈر کی جیب میں بھی ہو سکتا ہے اور کسی سیکشن کمانڈر کے پاس بھی کہ جس کی زیرِکمانڈ صرف دس سپاہیوں کی نفری ہوتی ہے۔ مذکورہ بالا وڈیو میں جن چینی ٹروپس کو (بظاہر) مرے ہوئے انڈین سولجرز کی جیب تلاشی لیتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ان کے منہ پر ماسک چڑھا ہوا ہے جس سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ یہ وڈیو پرانی وڈیو نہیں بلکہ حالیہ ”کورونا ایام“ کی وڈیو ہے وگرنہ یہ شک کیا جاتا کہ شاید یہ کوئی پرانی وڈیو ہے جس کا حالیہ انڈو چائنا سٹینڈ آف سے کوئی تعلق نہیں۔


ان وڈیوز کو انلارج کرکے یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ تلاشی لینے والے ٹروپس کے خدوخال کیا ہیں اور ان کی رنگت وغیرہ کیا ہے۔ چینیوں کے چہرے کے نقوش بڑے واضح ہیں اور اسی طرح ہلاک شدگان انڈین سولجرز کے چہرے اور رنگت بھی وہی ہے جو بالعموم انڈین بارڈر فورس کی ہوتی ہے…… اس وڈیو کو جھٹلانا یا جعلی ثابت کرنا یا یہ شک کرنا کہ یہ سب کچھ عمداً بنایا گیا ہے، بظاہر محالات میں سے ہے۔ لیکن آج کل سوشل میڈیا پر جو آڈیو اور وڈیو کلپس (Clips) دیکھے جا رہے ہیں ان کو بنانے میں کمال مہارت سے کام لیا جاتا ہے۔


انڈیا نے ابھی تک یہ تسلیم نہیں کیا کہ اس کے ٹروپس کی کوئی اتلافات (Casualties) بھی ہوئی ہیں یا یہ مہینے بھر کا سٹینڈ آف بس نمائشی اور ”تقریباتی“ ہی تھا!
البتہ اگر آپ انڈین مین سٹریم میڈیا کی بغور مانیٹرنگ کر رہے ہیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ انڈیا یہ تسلیم کر چکا ہے کہ ان سرحدی علاقوں (لائن آف ایکچویل کنٹرول) میں صف بند سپاہ کو آتشیں اسلحہ استعمال کرنے کی سختی سے ممانعت ہے۔ انڈیا اور چین میں (شائد 2015ء میں) یہ معاہدہ ہوا تھا کہ ایل اے سی (LAC) پر متعین ٹروپس ایک دوسرے سے ہاتھا پائی توکر سکتے ہیں، ایک دوسرے پر پتھر / کنکر وغیرہ بھی پھینک سکتے ہیں لیکن کوئی فائری ہتھیار (از قسم رائفل یا گرنیڈ وغیرہ) استعمال نہیں کر سکتے۔ یہ انڈو چائنا سٹینڈ آف چونکہ 5مئی (2020ء) کو شروع ہوا تھا اس لئے خیال کیا جا رہا ہے کہ طرفین کی گشتیں (Patrols) متنازعہ علاقے کی پیٹرولنگ کرتے ہوئے ایک دوسرے سے جسمانی تصادم میں ملوث ہو سکتی ہیں اور گزشتہ ایام میں پاکستانی چینلوں پر بھی جو (Footages) دکھائی گئی تھیں ان میں دونوں فریقوں کے ٹروپس ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوتے بھی نظر آتے تھے…… عین ممکن ہے کہ یہ وڈیوز جو انڈین سپاہ کی لاشوں اور چینی سپاہ کی تلاشی لیتے ہوئے دکھائی گئی ہیں وہ پتھر کی ضرب سے ہلاک کی گئی ہوں۔ پتھروں اور کنکروں کا سائز تو معاہدے میں درج نہیں تھا اور نہ ہی یہ درج تھا کہ کوئی پتھر کتنی دوری سے مخالف فریق پر پھینکا یا چلایا جا سکتا ہے۔


سوشل میڈیا کے ایک اور پہلو کی طرف بھی اشارہ کرنا چاہوں گا…… آج کل انڈیا کی طرف سے انڈو چائنا قضیے پر جو خبریں دی جا رہی ہیں، ان میں رنگین نقشوں سے بھی مدد لی گئی ہے۔ یہ نقشے بظاہر بڑے دلکش اور دیدہ زیب ہیں۔ لیکن ان میں بھارتی علاقائی اور جغرافیائی موقف کو بڑی عیاری سے نمایاں کیا گیا ہے۔ قارئین سے گزارش کروں گا کہ وہ ان نقشوں سے گمراہ نہ ہوں۔ ان میں ہمارے کشمیر کو (پاکستان مقبوضہ کشمیر) (Pok) کا نام دیا گیا ہے اور اپنے ”مقبوضہ جموں و کشمیر“ کو صرف جموں اور کشمیر ظاہر کیا گیا ہے…… ایک نقشہ دیکھئے……

مزید :

رائے -کالم -