وبا کے دوران خواتین ڈاکٹرز، لیڈروں کااہم کردار، 75فیصد طبی عملہ خواتین پر مشتمل
کراچی (این این آئی) دنیا بھر میں 75طبی عملہ خواتین پر مشتمل ہے جبکہ نرسوں کی 90 فیصد تعداد عورتوں پر مشتمل ہے جنہوں نے کرونا وائرس کی وبا کے دوران انسانی جان بچانے میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے، دنیا کے چند ممالک جہاں پر خواتین وزرائے اعظم اور صدور ہیں ان ممالک میں کرونا وائرس سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد دیگر ممالک کے مقابلے میں کہیں کم ہے، عورتیں مردوں کے مقابلے میں اس وبا کے نتیجے میں بہت کم تعداد میں جاں بحق ہوئی ہیں جس کی چند بڑی وجوہات صفائی ستھرائی کا زیادہ خیال رکھنا، مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہاتھ دھونا اور لاک ڈاؤن پر زیادہ سختی سے عمل کرنے کے ساتھ سگریٹ نوشی اور دیگر علتوں سے باز رہنا شامل ہے۔ان خیالات کا اظہار دنیا کی معروف خواتین ماہرین صحت نے اتوار کے روز "کرونا وائرس اور خواتین کا کردار" کے عنوان سے بین الاقوامی آن لائن سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ آن لائن سیمینارکا انعقاد پاکستان جی آئی اینڈ لیور ڈیزیز سوسائٹی نے میڈیکل مائیکروبائیولوجی اینڈ انفیکشس ڈیزیزز سوسائٹی آف پاکستان سمیت دیگر قومی اور بین الاقوامی اداروں بشمول گیٹس فارما کے تعاون سے کیا تھا۔بین الاقوامی آن لائن سیمینارسے پاکستان سمیت امریکا، آسٹریلیا، تھائی لینڈ، ملائیشیا، سعودی عرب، انڈیا اور برازیل کی خواتین ماہرین صحت نے خطاب کیا۔ملائیشیا کی معروف ماہر صحت ڈاکٹر شرمیلا ساچی ننتھن کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد جہاں مرد وزرائے اعظم اور سربراہان مملکت نے بہت قیمتی وقت ضائع کیا وہاں خواتین لیڈروں نے فوری فیصلے کیے اور اپنے ماہرین سے مشورہ کرنے کے بعد سخت لاک ڈان اور دیگر اقدامات کیے جس کے نتیجے میں نیوزی لینڈ سے لیکر ناروے، ڈنمارک اور تائیوان میں شرح اموات کافی کم رہی جبکہ ان ممالک میں معاشی سرگرمیاں بھی دوسرے ممالک کے نتیجے میں کم متاثر ہوئیں۔ ڈاکٹر شرمیلا کا مزید کہنا تھا کہ اس سلسلے میں بھارتی ریاست کیرالہ کی وزیر صحت کا کردار بھی بہت اہم ہے جنہوں نے اپنے انتہائی اہم فیصلوں کے نتیجے میں میں ساڑھے تین کروڑ آبادی کی ریاست میں کرونا وائرس کی وبا کو کنٹرول میں رکھا جس کے نتیجے میں وہاں پر انتہائی کم ہلاکتیں ہوئیں۔ڈاکٹر شرمیلا نے مزید بتایا کہ دنیا بھر میں خواتین طبی عملے کی تعداد 75 فیصد سے زیادہ ہے جبکہ کہ نرسوں کی 90 فیصد سے زائد تعداد خواتین پر مشتمل ہے جو کہ انسانی جان بچانے میں انتہائی اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔معروف پاکستانی گیسٹرواینٹرولوجسٹ ڈاکٹر لبنی کامانی کا کہنا تھا کہ ایک طرف نہ صرف خواتین لیڈرز نے کرونا وائرس کی وبا کے دوران بہترین قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرکے ہزاروں جانیں بچائی ہیں جبکہ دوسری جانب کرونا وائرس کے نتیجے میں خواتین کی ہلاکتوں کی تعداد تعداد مردوں سے انتہائی کم رہی ہے جس کی اہم ترین وجہ ان کی احتیاط پسندی اور انسانی جان کی اہمیت کو سمجھنا ہے۔ڈاکٹر لبنی کمانی کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان سمیت دنیا بھر کے وہ تمام اسپتال جن کی سربراہی خواتین کر رہی ہیں وہاں پر صورت حال دیگر اسپتالوں اور اداروں کے مقابلے میں کہیں بہتر ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ حاملہ خواتین میں کورونا وائرس سمیت دیگر بیماریوں سے متاثر ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسی خواتین کے لئے مسلسل آگاہی پروگرام کیے جائیں۔میڈیکل مائیکروبائیولوجی اور انفیکشن ڈیزیز سوسائٹی آف پاکستان کی صدر ڈاکٹر بشری جمیل کا کہنا تھا کہ عورتیں نہ صرف قدرتی طور پر بلکہ اپنے عادات و اطوار کی وجہ سے بھی کورونا وائرس سے کم متاثر ہورہی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ عورتوں میں سگریٹ اور شراب نوشی سمیت دیگر منشیات کا استعمال انتہائی کم ہے، عورتوں میں صفائی ستھرائی کا رجحان مردوں میں زیادہ ہے جب کہ وہ زیادہ احتیاط پسندی کی وجہ سے اس وائرس سے ناصرف کم متاثر ہورہی ہے بلکہ ان میں شرح اموات بھی اسی مناسبت سے انتہائی کم ہے۔ سعودی عرب سے تعلق رکھنے والی ماہر صحت ڈاکٹر ماجدہ عبدالفتح کا کہنا تھا کہ حاملہ خواتین میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں اس لیے ان خواتین کو چاہئے کہ وہ زیادہ احتیاط کریں، ان کا کہنا تھا کہ حاملہ خواتین کے لیے مسلسل آگاہی پروگرام منعقد کئے جانے چاہئے تاکہ نہ صرف وہ خود بلکہ انکے نوزائیدہ بچے بھی اس وبا سے محفوظ رہ سکیں۔جناح اسپتال کراچی سے وابستہ ڈاکتر نازش بٹ خواتین ماہرین نے خواتین ماہرین صحت کے کردار کو مزید بڑھانے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جن ممالک یا ریاستوں میں خواتین وزرائے صحت موجود ہیں وہاں کے لوگوں میں صحتیابی کی شرح دوسرے ممالک کے لوگوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔سیمینار سے برازیل سے ڈاکٹر سیمون، امریکہ سے ڈاکٹر امریتا سیٹھی، جنوبی کوریا سے ڈاکٹر ان ینگ کم اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔