ایٹمی سائنسدان آزاد:عافیہ کی رہائی کی چاپ

عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے تندو تیز مہم چلتی رہی۔ ان کی بہن فوزیہ صدیقی نے ہر در پر دستک دی جہاں بھی اسے رہائی کے لیے امید کی کرن نظر آئی۔ پاکستان میں عافیہ کی گرفتاری کے بعد پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن تحریک انصاف اور اب بارہ تیرہ پارٹیوں کی حکومت ہے، ان میں سے ہر حکومت کے ذمہ داروں نے عافیہ صدیقی کی رہائی میں کردار ادا کرنے کی حامی بھری۔ شاید اندر کھاتے کچھ کہا سنا بھی ہو بظاہر کوئی بڑی کوشش دکھائی نہیں دی لہٰذا وہ بدستور امریکہ کی قید میں ہے اور یہ 86سال کی قید ہے۔86سال سزا کا ٹ کر رہا ہونگی تو ان کی عمر سوا سو سال ہوچکی ہوگی۔ فوزیہ صدیقی کو ان سے ملنے کی اجازت دی گئی ہے۔ ان کی عافیہ سے دو ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ فوزیہ کو انسانی ہمدردی کی بنا پر ملاقات کی اجازت دی گئی، اسی بنا پر ان کو کچھ عرصہ ان کے ساتھ رہنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ امریکہ بہادرتھوڑا انسانیت سے اور کام لے۔عافیہ کو رہا کر دیں اگر ایسا نہیں کرنا تو ان کو پاکستان کی کسی جیل میں منتقل کر دیں۔ باقی سزا وہ یہیں کاٹ لیں گی۔ عافیہ کراچی سے2003ء میں جنرل مشرف کی حکومت کے دنوں میں 3بچوں سمیت لاپتہ ہوئیں۔5سال بعد امریکہ نے ان کی غزنی افغانستان سے گرفتاری کا دعویٰ کیا۔ تعلق القاعدہ سے جوڑا گیا۔ ان سے 2کلو سائنائڈ اور کیمیائی ہتھیار بنانے کا فارمولا بر آمد ہونے کا بھی دعویٰ کیا گیا۔ وہ امریکی فوجیوں پر حملے کی مبینہ منصوبہ بندی کر رہی تھیں۔ ان پر تفتیش کے دوران امریکی فوجیوں پر فائرنگ کا الزام ہے۔ جوابی فائرنگ میں وہ زخمی ہوئیں۔2010ء میں ان کو 86سال قید کی سزا سنا دی گئی۔اب امریکہ کچھ مہربان ہوا ہے لہٰذا عافیہ صدیقی کی رہائی کی چاپ سنائی دے رہی ہے۔
چند ماہ قبل دو امریکی ارکان کانگریس نے ایوان نمائندگان میں پاکستان کے خلاف قرارداد پیش کی۔اس قرارداد میں بنگلہ دیش کی 1971ء کی ”جنگ آزادی“ کے دوران پاکستانی فوج کے مظالم کو نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا گیا۔کانگریس مین اسٹیو کیبٹ(Chabot)اور رو کھنہ کی طرف سے پیش کی گئی قرارداد میں مارچ سے دسمبر 1971ء کے درمیان پاکستانی فوج کی طرف سے بنگالیوں اور ہندوؤں کے خلاف ڈھائے جانے والے مظالم اور لاتعداد لوگوں کی موت اور مصائب کی مذمت کی گئی۔ اس قراداد میں امریکی صدر سے مطالبہ کیاگیاتھا کہ وہ پاک فوج کے مظالم کو انسانیت کے خلاف جرائم، جنگی جرائم اور نسل کشی کے طور پر تسلیم کریں۔
قرارداد میں جنرل یحییٰ خان کے حوالے سے کہا گیا کہ 22 فروری 1971ء کو ایک میٹنگ میں اعلیٰ فوجی افسران سے مشرقی پاکستان کے 30 لاکھ باشندوں کو قتل کرنے کا کہا گیا تھا……۔
یہ قراداد جیسے پیش ہوتی ہے اس پر امریکہ میں مقیم احتشام ارشد نظامی نے وائس آف ہیومینٹی انٹرنیشنل کے پلیٹ فارم سے ایک مہم چلائی اور واضح کیا کہ وہاں نسل کشی غیر بنگالیوں کی ہوئی۔حکومت پاکستان کو اس حوالے سے آگے آنا تھا مگر اس کی ترجیحات کچھ اور رہی ہیں۔ادارے بھی اپنی اصل ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ کہیں اور الجھے رہے لہٰذا یہ محاذ خالی رہا جس سے اب صورت حال کو بھیانک کرتا ہوا نتیجہ سامنے آیا ہے۔ بھارتی میڈیا اس منافقت کو شدو مد سے اٹھا رہا ہے۔بھارت ایکسپریس کے مطابقڈچ سیاست دان ہیری وین بومل نے یورپی وفد کے ساتھ 20 سے 26 مئی تک بنگلہ دیش کے دورے کے دوران 1971 میں ہونے والی نام نہاد نسل کشی کی تحقیقات کی۔
اس یورپی بنگلہ دیش فورم (EBF) مشن میں نسل کشی کے ماہرسائنسدان انتھونی ہولساگ، سیاسی تجزیہ کار کرس بلیک برن، برطانوی EBF کے چیئرمین انصار احمد اللہ اور ڈچ EBF کے چیئرمین بیکاش چودھری بروا شامل تھے۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس مشن کا مقصد 1971 میں بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کے دوران بنگلہ دیش میں پاکستانی فوج کی طرف سے کی گئی نسل کشی کے بارے میں خود معلومات حاصل کرنا تھا۔
وفد نے بنگلہ دیش میں متاثرین، گواہوں، نسل کشی کے محققین، ماہرین تعلیم، پالیسی سازوں اور حکومتی نمائندوں سے ملاقات کی۔ دارالحکومت ڈھاکہ اور دوسرے بڑے شہر چٹاگانگ میں اور اس کے آس پاس متعدد قتل گاہوں اور جنگی عجائب گھروں کا دورہ بھی کیا۔ فیکٹ فائنڈنگ مشن ڈچ حکومت اور ایوان نمائندگان کو اپنے نتائج سے آگاہ کرے گا۔ یورپی بنگلہ دیش فورم ان نتائج پر ایک کانفرنس کا بھی اہتمام کرے گا۔یہ وفد جو ذہن بنا کر گیا وہ اس کے دورے کے بیان کردہ مقاصد سے عیاں ہے۔
اس وفد کی بنگلہ دیش میں آمد کی ہمارے ہاں خبر ہوتی تو اسے پاکستان آنے کی دعوت دے کر دوسرا نکتہ نظرجو اصل ہے اس کے سامنے رکھا جاتا یا اُن حالات سے مکمل طورپرآگاہ ماہرین پر مشتمل وفد ان کیساتھ ملاقات کے لیے بنگلہ دیش بھیج دیا جاتا۔مگر وہی بات بے حسی والی ہے۔
یوم تکبیرپرایک حوصلہ افزا پیشرفت یہ ہوئی کہ ڈاکٹر محمد فاروق کی نظر بندی ختم کر دی گئی۔ڈاکٹر فاروق کو29نومبر2003ء کو حراست میں لیا گیا۔ ان کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی 4فروری2004ء کو نظر بندی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر فاروق 20سال سے نظر بند تھے۔وہ اے کیو خان کے دست راست تھے اور یہی ان کا جرم ٹھہرا۔آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا جنرل جاوید اقبال کی رہائی کے بعد یہ ایک اور بڑا فیصلہ ہے۔ جنرل جاوید کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی جوجنرل عاصم منیر کے پیشرو آرمی چیف نے کم کرتے کرتے 6ماہ پر محیط کر دی تھی۔ وہ سزابھی جنرل عاصم منیر نے ختم کر دی۔بے حسی کے اس دور میں یہ احساس کی بات اورحساسیت ہے کہ ایسا انسانیت آہنگ فیصلہ کیا گیا جنرل جاوید پر کیا الزام تھا؟ کیسے تحقیقات ہوئیں؟کیسے سزا ہوئی؟ بطور ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس بعد ازاں ڈی جی،آئی ایس آئی سب کچھ ان کے علم میں تھا جس کی بنا پرجنرل جاوید اقبال کی رہائی ہوئی۔
ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر محمد فاروق نظر بندی ختم ہونے کے بعد اب آزاد شہری ہیں۔ وہ کہیں بھی جا سکتے ہیں ان سے کوئی بھی مل سکتا ہے۔ ان سے فون پر بات ہوئی تو وہ اس اقدام پر مطمئن ہیں۔