ملک کو تبدیلی کی ضرورت ہے

آنے والے انتخابات کی اہمیت صرف اگلی حکومت کی تشکیل تک ہی محدود نہیں ہے، اور اگر ایسا ہوتا تو پھر یہ ایک معمول کا ہی معاملہ ہوتا کہ انتخابی عمل کا مقصد ہی پُر امن انتقال ِ اقتدار ہوتا ہے۔کوئی ایک چال باز، میٹھی گولی دینے والا، یا کوئی دوسرا آنکھوں میں دھول جھونکنے والا، کوئی بھی ہوتا، سب ٹھیک تھا کہ نہر سویز کے اس پار فی الحال جمہوری عمل ایسے نتائج کا حامل ہی ہو سکتا ہے، تاہم اس وقت معاملہ کچھ اس سے سوا ہے اور ا ب ان انتخابات سے صرف انتقال ِ اقتدار ہی نہیں بلکہ اس ملک، جو بدقسمت حالات سے دوچار ہے، کا مستقبل وابستہ ہوچکا ہے۔ ایک اور گھمبیر سوچ ذہن میں سانپ کی طرح کنڈلی مارے بیٹھی ہے کہ کیااب اس جمہوریہ کو بچایا بھی جا سکتا ہے یا پھر یہ سعی ¿ لا حاصل ہے؟تاہم اس سوال کا جواب اس طرز ِ انتخاب سے وابستہ ہے جس کا مظاہرہ اس ملک کے رائے دہندگان اگلے دو یا تین ماہ میں کرنے والے ہیں۔ 1970ءکے انتخابات نے پاکستان کو دولخت کرنے کی راہ ہموار کی جبکہ2013ءکے انتخابات نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اب باقی ماندہ پاکستان کو بچانا ہے یا پھر خدانخواستہ اسے مزید صدمات سے دوچار ہو نا پڑے گا۔ اس انتہائی صورت ِ حال کی وجہ ہماری اجتماعی قومی خود کشی کرنے کی دائمی خواہش ہے۔
ان نازک حالات میں بھی ہمارا رد ِ عمل گھسا پٹا، بودا اور کج فہمی کے غرور کا آئینہ دار ہے کہ ”سب ٹھیک ہے“ جبکہ سیاسی میدان میں جمہوریت کے نقاب میں آمریت کا کھیل کھیلنے والے وہی کھلاڑی ہیں جنہوںنے گزشتہ تین دھائیوںسے قوم کی قسمت کو اپنے ذاتی مفاد کی سولی پر لٹکا رکھا ہے، چنانچہ ہمیں بہت ادق چیلنج درپیش ہے اور گزرتا ہوا وقت اس کی سنگینی میں اضافہ کرتا جارہا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ان مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لئے ہمارے سامنے نسخہ وہی آزمایا ہوا ہے کل صحراﺅں میں بھٹکانے والے آج سمندروں میں ڈبونے کے درپے ہیں اور قوم کل گرمی کی تمازت سے بے جان تھی، جبکہ آج سمند ر کی اتھاہ گہرائی اس کی شکستہ کشتی کو چیلنج کررہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان چلے ہوئے کارتوسوں کو اپنے دفاع کے لئے کافی سمجھنا دل کو دھلا دیتا ہے اور ہمارے پاس کوئی اور جائے پناہ ہے بھی نہیں۔دن کا اجالا کسی طرف ہویدا نہیںہے ،ہر طرف تاریکی نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ اگر پاکستان کے افق پر کوئی اور سمت ہویدا ہوتی تو اس ہولناک سکوت میں تبدیلی کا ارتعاش پیدا کرتے ہوئے امید کا دامن تھاما جا سکتا تھا، لیکن ان پیران ِ تسمہ پا سے چھٹکارا پانے کی کوئی ترکیب نظر نہیں آتی۔
1970ءکے انتخابات میں شیخ مجیب او ر ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کو اپنے اپنے سحر میں گرفتارکر لیا تھا۔ اپنی بے مثال خطابت کے ذریعے انہوںنے اپنے دائرہ ِ اثر میں لوگوں کوبے چینی کے جذبات سے بھر دیا۔ مشرقی پاکستان مغربی پاکستان کی ”آمرانہ بالا دستی “ سے نجات چاہتا تھا، جبکہ مغربی پاکستان کے عام لوگ جو خود بہت سے مسائل کا شکار تھے ، بھی سماجی طور پر نجات کے خواہاں تھے۔ اُن شعلہ بیان رہنماﺅںنے عوام کے جذبات کو بر انگیختہ تو کر دیا ، لیکن وہ اپنے مقدر کے ستاروںکی گردش سے بے خبر تھے،تاہم وہ اپنے وقت اور اس میں درپیش مسائل کے سچے ترجمان تھے۔ آج ڈراﺅنے خوابوں اور گمنام خدشات کی اسیر اس سرزمین، جس میں تبدیلی کے نقیب ہر آن دعووں کی بساط سجائے امروز و فردا کے من پسند امکانات کا ورد کرتے رہتے ہیں، کے مسائل کا حقیقی ترجمان کون ہے؟بے ریش و باریش رہنما، آنکھوںمیں طاقت کا خمار، اپنی دانائی اور سیاسی اخلاص پر یقین ِ کامل اور اقتدار کی دیوی کو گھر کی باندی (یا گھڑے کی مچھلی محاورہ اپنے ظرف کے مطابق)بنانے کی خواہش کرنے والے فطری یا غیر فطری انتخابی اتحاد قائم کرتے ہوئے میدان میں صف آراءہورہے ہیں۔
اس ستم کو جھیلنے کے لئے ویگنر (Wagner) کی شاعری اور موسیقی کی ضرورت ہے ،تاہم مغربی موسیقی کی تانیں یہاں ناپید ہیں، تو کیا وادی مہران کی موسیقی بھی پانی میں آگ نہیں لگا سکتی۔ کیا ہمارے پہاڑ یورپی پہاڑوںسے کم پُر شکوہ ہیں؟کیا دریائے سندھ کی روانی مغربی دریاﺅںسے کم ہے؟ اگر ہماری”طبیعت غزنوی، قسمت ایازی“ ہے تو کیا ہوا،ہمارے ہاں بھی فطرت اپنی پوری حشر سامانیوںکے ساتھ موجود ہے تو پھر ہماری شاعری میں وہ تڑپ اور موسیقی میں وہ سوز کیوں نہیںہے جو ویگنر کی موسیقی کا خاصا ہے؟ کیا اب بھی دل کی ڈھڑکنیں بے ترتیب ہونے کا وقت نہیں آیا ؟کیا اب بھی آتش فروز جلوے خوابیدہ رہیںگے؟کاش جذبات کی بجلی کا کوئی کوندا، کوئی لپک، کوئی ہنگامہ خیز موج نہنگوںکے نشیمن کو تہہ و بالا کر دے۔اس تن آسان لیکن سختیوںمیںگھری ہوئی قوم کو کسی تازیانے کی ضرورت ہے اور یہ اعجاز شاعر کی صدا اور موسیقار کی لے میں ہی ہوتا ہے جو دل کی دنیا میں تاج محل بسا کر سنگریزوںپر چلنے کی ہمت پیدا کرتا ہے۔ ہمارے الفاظ اور صدا کے ساحر کہاں ہیں؟ضرورت تو ہمیں ملکوتی طعام و مشرب کی ہے لیکن ہمارے ہاں وہ باسی اور بد ذائقہ کھانا ہے ،جسے کھا کھا کربد ذوقی غالب آچکی ہے۔ کسی کا نغمہ ¿ مستانہ ہمارے دل میںامید کی شمع روشن کرکے نا امیدی کا اندھیرا ختم کر سکتا ہے، لیکن کیا ہمارے ہاں جو بساند آمیز کھانا ہے ، وہی انقلابی دستر خوان کی زینت ہے؟کیا اسی کے ذائقے نے قوم کوسرشاری عطا کرنی ہے؟رجائیت میں کوئی حرج نہیں، لیکن یہ حماقت کا مترادف نہیںہونا چاہیے۔ اب یہ وہ لمحہ ہے جب ہمیں سوچ سمجھ سے کام لینا ہے۔ مشہور سائنسدان آئن سٹائن نے دیوانگی کی تعریف کی ہے”ایک ہی عمل بار بار دہرانا اور ہر بار نئے اور مختلف نتائج کی امید رکھنا“....اگر اپنے سیاسی عمل پر غور کریں تو علم ہو گا کہ ہم بھی گزشتہ تیس برسوںسے یہی غلطی کرتے ہوئے اچھے کی امید لگائے ہوئے ہیں۔ اب ایسا لگتا ہے کہ عقل کے تمام تر تقاضو ں کو لات مارتے ہوئے اگلے انتخابات میںہم یہی حماقت دوہرانے جارہے ہیں۔ اس مرض کا حکیم لقمان کے پاس بھی کوئی علاج نہیںہوگا۔
اب ہمارے ہاں امید کا ایک پہلو ہی باقی ہے اور یہ بھی زیادہ روشن نہیںہے۔ 1970ءکی انتخابی دوڑ میں کسی بھی سیاسی پنڈت کو مغربی پاکستان میں بھٹو کی کامیابی کا یقین نہیںتھا۔ اُن کو توقع تھی کہ پنجاب، جہاں سے بھٹو صاحب نے سب سے بڑی انتخابی کامیابی حاصل کی، میں میاں ممتاز دولتانہ کی مسلم لیگ کامیاب ہو گی۔ جنرل یحییٰ خان کے خفیہ ادارے معلق پارلیمنٹ چاہتے تھے، چنانچہ اُنہوںنے قیوم کی مسلم لیگ ، اور شاید جماعت ِ اسلامی ، کو مالی وسائل فراہم کئے۔ تاہم انتخابی نتائج نے سب کی امیدوںپر پانی پھیر دیا۔ جب سات دسمبر 1970 ءکی اُس سرد شام ٹی وی پر گرما گرم نتائج کا اعلان ہونا شروع ہوا تو بہت سوںکی نبضیں برہم ہوگئیں اور پاﺅں تلے سے زمین سرکنے لگی کیو نکہ کوئی بھی ان نتائج کے لئے ذہنی طور پر تیار نہ تھا۔ سیاسی پنڈتوں کی توقعات کے برعکس، پنجاب اور اندرون ِ سندھ میں ذوالفقار علی بھٹونے کلین سویپ کر دیا تھا۔ کیا اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہو سکتا ہے؟کیا کوئی اور جوالہ مکھی دور تہوں میں سلگ رہا ہے؟ کیا ہماری خاکستر سے کوئی اور ہما جنم لینے والا ہے ؟آج ، جبکہ ہم انتخابی عمل کی طرف جارہے ہیں، میرے پیش ِ نظر سب سے اہم سوال یہی ہے کہ کیا ہم کسی انقلابی تبدیلی کی طرف جا سکتے ہیں ؟کیا ہوا کا کوئی غیر متوقع جھونکا ریت کے گھروندوں کو مسمار کر سکتا ہے؟ یہ کوئی انہونی بات نہیںہے لیکن کیا ہماری پُرسکوت فضا میں ایسا کوئی جھونکا مرتعش ہے بھی کہ نہیں ؟کیا امید کا کوئی دیا روشن ہے ؟سچی بات پوچھیں تو مایوسی کا اندھیرا اس قدر ہے کہ اجالے کی کوئی رمق دکھائی نہیں دیتی۔
اگر ملکی سیاست کے روایتی پیمانوں پر نظر ڈالیں تو صورت ِ حال بہت واضح ہے کہ دو بڑی جماعتیں اپنے اپنے متوقع و غیر متوقع انتخابی حلیفوںکے ساتھ میدان میں اترنے کے لئے کمر بستہ ہیں۔ یہ سب ٹھیک ہے، لیکن جس لگن اور تڑپ کی مَیں بات کررہا ہوں، اُس سے ہماری نبض ِ ہستی نا آشنا ہے۔ اب سب لگے بندھے چکر میں کام تو کر رہے ہیں، لیکن شدت ِ جذبات کے سوتے خشک ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ آنے والے انتخابات معمولی نوعیت کے نہیں ہیں، ان میں سربکف ہو کر ہم نے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے ، اور یہاں دنوں کی گنتی کے ساتھ پُرسکون سانسوں کی آمدوفت بھی جاری ہے۔ کسی کا دل بے قرار نہیںہے، کسی کی سانس بے ترتیب نہیںہے، سب حال مست ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ملک کے سیاسی سٹیج پر یہ کیفیت ہو کہ ”نیا راگ ہے ساز بدلے گئے“ ....لیکن یہاں وہی سنی سنائی باتیں ہیں جو کسی ریکارڈنگ مشین کی آواز لگتی ہیں۔
اس وقت پاکستان غیر معمولی خطرات میں گھرا ہوا ہے۔ اس کی معیشت گراوٹ کا شکار ہے اور انتہا پسند قوتیں اس کی رگ ِ جان کاٹ دینے کے درپے ہیں اور وہ اپنے مقصد میں بہت واضح ہیں۔ یہ وہ حالات ہیں، جب کسی نعرئہ مستانہ کی ضرورت ہے، روایتی حربے، یا وقت گزارنے کے لئے حیلے، کام نہیںدیںگے۔یہ وہ دن ہے جس کا وعدہ تھا، لیکن ہم آنکھیں بند کئے التباسات کا شکار ہیں۔ اس اسمبلی کی آئینی مدت ختم ہونے والی ہے، پھر نگران سیٹ اپ بنے گا اور پھر انتخابات کا معرکہ ہو گا۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ ہمارے مقدر میںکیا ہے ؟ہو سکتا ہے کہ یہی حکومت دوبارہ آجائے، ہو سکتا ہے کہ ستارے کسی اورپر مہربان ہو جائیں۔ اس دوران عام آدمی ، بندہءمزدور ،کے اوقات ( یا بقول یوسفی صاحب، کی اوقات ؟)بہت تلخ ہیں۔وہ جس کے خون پسینے سے شمع ِ زیست روشن ہوتی ہے، کی زندگی اندھیروں کا شکار ہے ۔ وہ بہت گہری سیاسی سوچ بھی نہیں رکھتا، اس لئے گھاگ شکاریوںکی تاویلات کے پھندے میں آسانی سے آجاتا ہے۔
آج ہم جس نازک موڑ پر کھڑے ہیںاس کی ذمہ دار ہماری موجودہ طرز ِ سیاست ہے۔کیا کوئی اور تحریک ہے جو اس لگے بندھے نظام کی چولیں ہلا دے؟ کیا اس انتخابی عمل کے ہاتھ میںکوئی تازیانہ ہے جو اس شیش محل میں رہنے والوں پر برستا محسوس ہو؟پاکستان اور اس کے مستقبل کے لئے اس رست خیز کی ضرورت ہے، ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔ پاکستان مزید پانچ سال یہی باسی کھانا کھانے کا متحمل نہیںہو سکتا۔ پیاس کی شدت میں اب یہ گدلا پانی جان لیوا ہو گا۔ ہمیںکوئی اور چشمہ تلاش کرنا ہے، کسی اور جھرنے کو کھودنا ہے، کسی اور دجلہ کے کنارے خیمے لگانے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ آسمانی طاقتیں ہم سے روٹھ چکی ہیں۔ ہمارے لئے اب کوئی جائے مفر نہیںہے۔ ہم ایک حمام ِ گرد باد کے اسیر ہیں جہاں ایک ہی منظر بار بار دکھائی دینے کا نام تبدیلی ہے۔یہ مملکت ِ خداد داد، ہم یہ بات کہتے نہیں تھکتے، کسی اور مسیحا کی تلاش میں جاں کنی کی حالت میں ہے۔ ہے کسی کے پاس اس کی مسیحائی کا کوئی ساماں ؟
مصنف، معروف کالم نگار اور سیاسی تجزیہ کار ہیں۔
نوٹ ! اس کالم کے جملہ حقوق بحق رائٹ ویژن میڈیا سنڈیکیٹ پاکستان محفوظ ہیں۔ اس کی کسی بھی صورت میں ری پروڈکشن کی اجازت نہیں ہے۔ ٭