’مولانا جعفر قاسمی
’ عدل کرنے والے سے بڑھ کر مستجاب الدعا اور کوئی نہیں ہوتا“۔ یہ جملہ مولانا جعفر قاسمی نے اس وقت کہا جب میں نے ان سے دعا کی درخواست کی۔خوش خصال و خوش جمال جعفر قاسمی کی شخصیت کی بہت سی جہتیں تھیں۔علم و دانش‘ متانت و سنجیدگی ‘ عجز و انکسار‘ خوش نوائی۔ اردو ‘ انگریزی ‘ عربی اور فارسی میں کمال دسترس ۔تفسیر و حدیث اور شعر وادب سے خصوصی شغف ۔
جعفر قاسمی 6 دسمبر 1927 کو چنیوٹ میں پیدا ہوئے۔ مولانا ابو الکلام آزاد اور سید ابولاعلیٰ مودودی کی تحریریںابتدائے طالب علمی میں ہی پڑھ ڈالیں۔ ابو الکلام آزاد‘ ابوالاعلیٰ مودودی۔ آج کے طالب علم کو شاید یہ نام بھی یاد نہ ہوں۔ ان تحریروں نے ان کی شخصیت پہ گہرے اثرات مرتب کیے اور وہ دینی رجحانات کے ساتھ ساتھ تحریر و تقریر کی لذت سے بھی آشنا ہوگئے۔سکول کے دنوں میں ہی ان کی نظمیں مقامی اخبار وں میں شائع ہونا شروع ہوگئیں۔ اس وقت تحریک ِ پاکستان ان کا خاص موضوع تھا۔ انقلابی گھن گھرج اور ولولہ۔لیکن یہ اوائل عمر کی بے فکری تھی اس کے بعد وقت کے جبر اور حالات کے تقاضوں نے ان کا رخ کسی اور طرف موڑ دیا
وہ قاسمی جو سرکش و بے باک تھا بہت
سنتے ہیں آج بندہ¿ پیرِ مغاں ہوا
قاسمی صاحب نے عمر کا ایک حصہ انگلستان میں بسر کیا۔ ان کا ارادہ وہاں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کا تھا لیکن وہ عاشق بٹالوی کے ہمراہ بی بی سی کی اردو سروس سے منسلک ہوگئے۔دیارِ غیر میں قیام نے قاسمی صاحب کے ذہنی اور فکری افق کو بے حد وسیع کیا۔ علمی حلقوں کی صحبت اور مطالعہ کے بے شمار مواقع میسر آئے۔ وہ خود لکھتے ہیں کہ” دیارِ افرنگ میں الغزالی کی کیمیائے سعادت اور شیخ عبدالقادر محی الدین جیلانی کی فتوح الغیب میری شب و روز کی مونس ثابت ہوئیں۔ ان سب نے کلامِ پاک اور سنت نبویہ سے میرا رشتہ مستحکم کیا“۔جس کا رشتہ کلام پاک اور سنتِ نبوی سے مستحکم ہوگیا اسے اور کیا درکار ہے۔ سترہ برس یورپ اور اسلامی دنیا کی سیرو سیاحت اور تحصیل علم میں صرف کرنے کے بعد بالآخر پاکستان واپس پلٹے اور اپنے آبائی شہر چنیوٹ آبسے۔
چنیوٹ میں ان کی رہائش قلعہ ریختی کے زیرِ سایہ اس شکستہ حال آبائی مکان میں تھی جو کبھی مغلیہ حکومت کے قاضی القضاة کی آماجگاہ تھی۔ اس فقیرانہ گھر کے ایک حجرہ کو ان سے خاص نسبت تھی۔ اس حجرہ مبارکہ میں ان کے مورث اعلیٰ قاضی غلام محی الدین کے مرشد رات بھر عبادت میں مصروف رہا کرتے تھے۔ سلسلہ قادریہ کے یہ بزرگ اپنی طویل زلفیں چھت سے لٹکی ایک رسی سے باندھ لیتے تاکہ غنودگی کی صورت میں لگنے والا جھٹکا انہیں پھر سے بیدار کردے۔قاسمی صاحب نے اپنے تاریخی گھر کے اس حجرے میں بڑی بڑی قابل ذکر شخصیات کی میزبانی کا شرف بھی حاصل کیا اور کئی ایک گم کردہ راہ مسافروں کو یہیں سے اپنی منزل کا سراغ ملا۔
قاسمی صاحب بڑے متنوع انسان تھے۔ وہ زاہد ِ خشک ہی نہیں بلکہ بڑی پر بہاراور دلآویز شخصیت کے مالک تھے۔ قلب و نظر کے توازن نے ان کی ذات کو بڑی جلا بخشی ۔ زبان و ادب کا شہسوار ہونے کی حیثیت سے انہیں گفت گو کا خوب ملکہ حاصل تھا۔ ان کی شیریں بیانی اور ابریشمی لہجے کے طلسم میں بڑے بڑے اہل ِ علم کھو جایا کرتے تھے۔ سول سروسز اکیڈیمی اور نیپا(NIPA) لاہور میں ان کے عالمانہ خطبات کی ایک عرصہ دھوم مچی رہی۔ موضوعات قرآنی پر گفت گو کرتے وقت ان کی آوازصوتیات کی ساری دلآویز اداﺅں سے منور ہوتی ۔یہ تخلیق کا ایک انوکھا رنگ تھا۔ جعفر قاسمی کے ایک دیرنیہ کرم فرما مسعود کھدر پوش ایک بار بے ساختہ کہہ اٹھے کہ قاسمی صاحب آپ کی انگریزی سن کر انسان حیرت کا مجسمہ بن جاتا ہے۔ آپ اس زبان کے ضمیر سے گفت گو کرنے کا سلیقہ رکھتے ہیں۔
مختلف ماہناموں ‘ ہفت روزوں اور روزناموں میں ان کے علمی و تحقیقی مضامین اور رپور تاژ باقاعدگی سے چھپتے رہے۔انہوں نے کالم اور شخصیت نگاری میں بھی اپنا سکہ جمایا۔بیوروکریسی کے بارے میں ان کا ایک فقرہ ناقابل ِ فراموش ہے۔ انہوں نے ایک بار کہا”افسر شاہی کا کیا پوچھتے ہو........ یہ لوگ کھدر پہنتے ہیں مگر ریشم کے ساتھ نکاح کرتے ہیں“۔
میری ان سے پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب میں چنیوٹ میں اسسٹنٹ کمشنر تھا ۔ کوئی چوبیس برس قبل۔ لیکن بہت جلد یہ ملاقات گہرے تعلق میں ڈھل گئی۔ زبان و ادب‘ شاعری ‘ تصوف‘ اخلاقیات۔کیسے کیسے موضوعات زیر ِ بحث رہتے۔ چنیوٹ میں برگدکے ایک قدیم درخت کے نیچے بیٹھ کر انھوں نے علم و دانش اور نیکی کی بہت سی باتیں سکھائیں۔یہ باتیں زندگی کے تپتے ہوئے صحرا میں ٹھنڈے میٹھے چشمے سے کم نہیں۔ اس درخت کی گھنی چھاﺅں تلے یہ نشستیں میری یاد داشت سے کبھی محو نہ ہوںگی۔ چنیوٹ کے متعلق مشہور ہے کہ یہاں کبھی بدھ مذہب کی ایک درس گاہ ہوا کرتی تھی جہاں بدھ بھکشو برگد کے سائے تلے بیٹھ کرعلم و حکمت کی موتی بکھیرتے ۔
وقت کے بے رحم ہاتھوں نے اس درس گاہ کا نشان تک مٹا دیا لیکن جعفر قاسمی اسی قدیم روایت کا تسلسل تھے۔میں نے ایک بار جب ان سے اپنے لیے دعا کی درخواست کی تو فرمانے لگے کہ عدل کرنے والے سے بڑھ کر مستجاب الدعا اور کوئی نہیں ہوتا۔ ان کا یہ جملہ خوشبو کی طرح میرے سینے میں محفوظ ہے۔یہ جملہ ایک امانت بھی ہے۔ آج جعفر قاسمی کی یاد میں ہونے والی اس تقریب کے موقع پر میں یہ جملہ تھوڑے سے اضافہ کے ساتھ پھر سے دہراتا ہوں....”انصاف پسند اور عدل کرنے والے حاکم سے بڑھ کر مستجاب الدعا اور کوئی نہیں ہوتا“۔ کوئی ہے جو اس جملے میں پوشیدہ سچ تک پہنچ سکے۔کوئی صاحبِ اقتدار‘ کوئی صاحبِ عدل‘ کوئی صاحب ِ انصاف۔