پابلو رودا کی شاعری

پابلو رودا کی شاعری
 پابلو رودا کی شاعری

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ایمرس کی طرح پابلو رودا ے بی ائی سے محروم چیزوں کو آ کھیں عطا کی ہیں اور قوت گویائی سے محروم چیزوں کو زبا ، گویا اس کی شاعری میں ابی ا دیکھ سکتے ہیں اور گو گے بول سکتے ہیں، جس طرح لاء کیاس ہمیں کاء ات میں وقوع پذیر ہو ے والے واقعات کا عکس ایک آئی ے میں دکھاتا ہے۔ اسی طرح رودا بھی ایسی شاعری پر یقی رکھتا ہے، جس میں خاموشی کے طلسم کو ج گل اور اس میں بکھری چیزیں توڑ رہی ہوتی ہیں۔ پتھراور سم در ایک ہی وقت میں گفتگو کرتے ظر آتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ محض فطرت کا شاعر ہی ہیں ہے، اس سے ماورا بھی بہت کچھ ہے۔ دا تے، مِلٹ ، وٹ می اور ہیوگو کی طرح اس کی شاعری بھی جزو پیغمبری کے مصداق ہے، جس طرح ہم دا تے اور ملٹ کو ا کے عقائد سے الگ ہیں کر سکتے یا جس طرح ہیوگو اور وٹ می کو ا کے ترقی پس دا ہ جمہوری خیالات سے علیحدہ ہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح رودا کو اس کے سیاسی ظریات سے الگ کر ا ممک ہیں۔ وہ اس کرۂ ارض پر مساوات اور ا صاف کا بول بالا چاہتا ہے۔ شاعری کو اس ے وسیلہ ء اظہار ب ایا ہے۔ اس ے کاء ات کو ئے مع ی بخشے ہیں۔ اس کی آواز ایک فرد کی آٖواز ہیں ہے، بلکہ پوری کاء ات کی آواز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے عوامی شاعر ہو ے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ دا تے اور ملٹ کی بصیرت کے پیچھے عیسائیت کی روح کار فرما ہے، جبکہ ہیوگو اور وِٹ می کی دا ائی کا م بع عوام کی طاقت ہے۔ بیسویں صدی عیسوی میں ایمی سیزر اور رودا کا ایک اہم مقام ہے۔
ہسپا وی امریک شاعری میں کاء ات کے اسرار و رموز پر گاہ رکھ ے کا رودا کا اپ ا ایک ڈھ گ ہے جو اسے اپ ے ہم عصروں میں ممتاز اور مایاں کرتا ہے۔ وہ ہ صرف عوام کا شاعر ہے، بلکہ خلاؤں اور فضاؤں کا بھی:
تمہارا چمکتا ہوا شفاف سی ہ
جس پر بادِ صبا ے ملمع کاری کی ہے
ایسے ہے جیسے تکو ی چٹا
لا محدود چمکیلے پتھر سے ب ی
یہ دھرتی جس ے ابھی سا س بھی ہیں لیا
ت ہا ت ہا گرد اور غربت سے کوسوں دور
ج وبی امریکہ کے سرحدی علاقے کے بچے کا یہ ادراک مشکل سے ملتا ہے۔ رودا 1904ء میں پارل میں پیدا ہوا اور بعد میں 1906ء میں ج وبی چلی کے گاؤں تی موکو میں والدی کے ہمراہ م تقل ہو گیا۔ اس کا باپ اس علاقے میں ریلوے لاء بچھا ے کے کام پر مامور تھا۔ اس ک واری سرزمی پر اس کے باپ اور سوتیلی ماں ے پہلا ریلوے ا ج دیکھا۔ پہلا جا ور دیکھا اور پہلی سبزی اُگائی۔1914ء کے لگ بھگ برسات کے موسم میں رودا ے پہلی ظم لکھی:
میری روح میں ہلچل مچی
حدتِ احساس یا کوئی بھولی ہوئی یاد
میں ے اپ ی الگ راہ ب ا لی
لفظوں کو ئے مع ی دیئے
اس آگ ے مجھے لکھ ا سکھایا
اور میں ے پہلی سطر لکھی
علم سے خالی
محض دا ائی پر مب ی
دفعتاً مجھ پر ج ت کے دروازے وا ہو گئے۔
رودا کے ا در چھپا شاعر مکمل طور پر بیدار ہو چکا تھا۔ اس کی تربیت فطرت کے خوبصورت لی ڈ سکیپ میں ہو رہی تھی۔ وہ معاشرتی اور مذہبی روایات سے کوسوں دور تھا۔ اس ے اپ ے اردگرد پودوں، حشرات الارض اور دوسری جا دار اور بے جا چیزوں کو پایا۔ وہ تجسس اور حیرا ی کی کیفیت سے دوچار ہوا۔ سولہ سال کی عمر میں وہ سا تیا گو پہ چ گیا۔ اس ے ایک چیک شاعر جا رودا سے متاثر ہو کر اپ ا ام پابلو رودا رکھ لیا۔ وہ اپ ے آپ کو محض تی موکو کا شاعر ہیں ب ا ا چاہتا تھا، بلکہ چلی اور امریکہ کا شاعر ب ے کا خواب دیکھ رہا تھا۔ بیس برس کی عمر میں جب اس کا مجموعہ کلام ’’محبت کی بیس ظمیں‘‘ 1924ء میں م صہ ء شہود پر آیا تو وہ قومی سطح پرمشہور ہو چکا تھا۔ لاطی ی امریکہ کے لوگوں میں یہ ظمیں مقبول ہوئیں۔ ا ظموں کے تراجم کئی زبا وں میں کئے گئے۔ یہ ظمیں درحقیقت ا کشافِ ذات کے متعلق ہیں۔ ا ظموں کی مخاطب دو عورتیں ہیں، ایک کا تعلق سا تیاگو سے اور دوسری کا تعلق تی موکو سے ہے۔ یہی عورتیں بعد میں فطرت کا روپ دھار کے ایک سوالیہ شا ب جاتی ہیں۔ ا ہی سوالوں کے جواب کی تلاش میں شاعر کاء ات کے اسرار رموز سے پردہ اٹھا ے کی کوشس کرتا ہے۔ دریافت کا یہ عمل اس کی شاعری میں جاری و ساری رہتا ہے:
ج وب کی جا ب ستاروں کے جھرمٹ میں
تمہارا ام دھوئیں سے کس ے لکھا ہے
جب تمہارے وجود کی مٹی ابھی گو دھی ہیں گئی تھی
ٹھہرو مجھے یاد کر ے دو
الفاظ کو ئے معا ی سے روش اس کرا ا اس کی تمام شاعری کا خاصا ہے۔ عورت اور فطرت اس کی ظموں میں متبادل استعاروں میں ظر آتی ہیں۔1924ء سے لے کر 1934ء تک کا عرصہ جب اسے بار سلو ا میں قو صل تعی ات کیا گیا، رودا کی کہا ی کا اہم زما ہ ہے۔ اس عرصہ میں اس کے تخیل کا درخت بارآور ہوتا ہے۔ اس دورا اس ے ایک سدا بہار اول ’’امید کا باسی‘‘ لکھا اور ساتھ ہی 1926ء میں اس کا یا مجموعہ کلام ’’لامحدود آدمی کی جدوجہد‘‘ شائع ہوا۔یہ وہ زما ہ تھا جب وہ ر گو ،کولمبو اور جاوا میں ڈپلومیٹ کی حیثیت سے اپ ے فرائض ا جام دیتا رہا۔ اس دورا وہ اپ ی مادری زبا ہسپا وی سے محروم رہا، جس کا اثر اس کی طبع ازک پر پڑا۔ اس بات کا اظہار اس ے اپ ے دوست کو خط لکھ کر کیا۔ ت ہائی کے روگ کے علاوہ اس کی عزتِ فس بھی مجروح ہوئی۔ اس کی ت خواہ کا دارومدار اس کی بطور قو صل کارکردگی پر تھا۔ اس کا ذکر اس ے اپ ی ظم میں یوں کیا ہے:
باوقار برہ ہ بدھا
خالی لافا یت کی کاک ٹیل پر
مسکرا رہا ہے
1967ء میں لکھی گئی ایک ظم ’’سم در کا گیت مرتا ہے‘‘ میں رودا ویت ام کے ساحل پر ایک ج گل کا ذکر کرتا ہے جہاں وہ بیس برس سے موت کا ا تظار کر رہا ہے۔ اس کی زبا پا ی کی ایک بو د کے لئے ترس گئی ہے۔ گو اس موقع پر وہ بھائی چارے اور محبت کی باتیں بھی کرتا ہے، لیک اس کی شاعری میں ت ہائی کا کرب اپ ی پوری شدت سے موجود ہے۔ چلی روا گی سے قبل مشرق میں قیام کے دورا اس کے زدیک اشیاء اور ا سا بے حس ب گئے ہیں۔ وہ اپ ے دوست ای ڈی کو لکھتا ہے کہ اس کے زدیک چیزیں اپ ا آپ مظہر ہیں۔ اس میں ات ی سکت ہیں کہ وہ ا کی پشت بدل دے۔اس عرصہ کی ظمیں 1933ء میں سپی میں ’’دھرتی کا ب باس‘‘ کے ام سے شائع ہوئیں۔ یہ ظمیں حز و یاس کی کیفیات میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ یہ ظمیں اس کی عام شاعرا ہ ڈگر سے ہٹ کر ہیں۔ حال ہی میں ارج ٹاء کے اول گار جولیو کورتازار ے ا کا دفاع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ ہمارے موجودہ عہد کے قریب تر ہیں۔ کاء ات میں ظہور پذیر تمام قوا ی فطرت کے تابع ہیں۔ ا سا کی اپ ی حیثیت د بد کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ ا میں ایک ایسی د یا کا قشہ پیش کیا گیا ہے، جس میں مقصد کاء ات کے علم کی فی کر ا مقصود ہو۔ اشیاء شاعر کے زدیک اج بی ہوتی دکھائی دیتی ہیں:
بے سمت گردشِ ایام
جب واقعات و حالات
ز جیروں میں جکڑے
ب فشی پھولوں کے ہار ب کر پیش آتے ہیں
’’ایک ہفتہ طلوعِ آفتاب کے ساتھ‘‘
اپ ی ذات کے دکھ بارش کی طرح لمحاتی ایسی شاعری کے پیچھے پیغمبرا ہ طاقت ہیں ہوتی اور ہ ہی ا کا مخاطب دا ا قاری ہوتا ہے۔ رودا جب اپ ے ماضی میں جھا کتا ہے تو یہ دور اسے ز دگی کا وہ زما ہ یاد دلاتا ہے۔ اس کو اس بامقصد د یا میں اپ ے سوالوں کے جواب ہیں ملتے۔ اس کے باوجود وہ قسمت کے کھیل کو رد کر دیتا ہے۔ ملاحظہ کیجئے،چ د سطریں:
میں ہیں چاہتا کہ بدبختی مجھے ورثے میں ملے
میں ہیں چاہتا کہ ماضی کے مزاروں کا حصہ ب وں
وہ مزار جو ت ہا غاروں کی ما د ہیں
ج میں لاشوں کے ا بار لگے ہیں
جہاں درد اور سردی سے جسم مر رہے ہیں
(جاری ہے)

مزید :

کالم -