بانو قدسیہ اور دائیں بائیں کے لوگ

بانو قدسیہ اور دائیں بائیں کے لوگ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ایسا لگتا ہے کہ زندگی کے سرمئی رنگ کو نظر انداز کرتے ہوئے، سیاہ اور سفید کے بیچ ایک انمٹ اور مستقل لکیر کھینچنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ رنگ بھی ایسے ہیں جن کی اپنے اندر یا intrinsically کوئی مستقل حیثیت نہیں، بلکہ جب بائیں طرف سے دیکھا جائے تو دائیں طرف سب سیاہی ہو، اور یہی حال دائیں طرف سے دیکھے جانے کا بھی ہو، دور تک سیاہی! اب ایسا نہیں ہو سکے گا کہ کوئی شخص ایک ہی سانس میں لکیر کے پار موجود دوسرے شخص کی اچھائی بھی گنوا دے اور برائی بھی۔ اگر کوئی لکیر کی دوسری طرف ہے تو اسے خراب ہی ہونا ہو گا، سیاہ ہی ہونا ہو گا۔ اگر آپ بانو قدسیہ کو لکھاری کے طور پر پسند کرتے ہیں، تو یقیناًآپ کو ان کے پتی ورتا قسم کے نظریات سے بھی مکمل اتفاق ہوگا، آپ قدامت پسند ہوں گے، بابوں کے ماننے والے ہوں گے، مفتی کے ناول بھی پسند کرتے ہوں گے، شہاب نامہ آپ کی میز پر پڑا رہتا ہو گا، ضیاء الحق کو پسند کرتے ہوں گے، اگر ایسا ہے تو پھر آپ امریکہ کے ساتھی بھی ہوئے، اور اس طرح طالبانی بھی! وغیرہ وغیرہ!


بانو قدسیہ ایک بڑی لکھاری تھیں۔ ان کے افسانوں کی تخلیقی نثر جیسا ایک پیرا بھی ان کی وفات پر اچھلنے والے لوگ نہیں لکھ سکتے۔ راجہ گدھ اور اس کی مایوسی کی فضا مجھے پسند نہیں، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں ان کو لکھاری نہیں مانوں۔ مجھے ان کے عورت کے انتہائی submissive ہونے کے نظریے سے بھی اختلاف ہے، مگر اس بات کا ان کے اعلی پائے کی افسانہ نگار ہونے سے کوئی تعلق نہیں۔ مجھے ممتاز مفتی اور شہاب نے متاثر نہیں کیا، اور نہ مجھے ان کا تصوف بھاتا ہے، تو کیا ضروری ہے کہ ان باتوں کو پسند کرنے والوں میں مجھے شمار کیا جائے کیونکہ میں بانو قدسیہ کے افسانے پسند کرتی ہوں اور انہیں ایک نہایت عمدہ افسانہ نگار سمجھتی ہوں۔۔۔ اس ہجوم اور شور میں وہ الگ اور ممتاز نظر آتی ہیں، کیونکہ وہ الگ اور ممتاز ہیں۔۔۔ ان کی تحریر میں تاثیر بھی ہے اور زبان و بیان پر گرفت بھی، کہانی کو افسانہ بنانے کا ہنر بھی ہے اور مضبوط کرداروں کی تشکیل بھی جانتی ہیں، اپنا اسلوب بھی ہے اور نظریہ بھی۔۔۔ میں تو ایسی لکیر نہیں چاہتی جہاں مجھے ایک ایسے فریم میں فِٹ کیا جائے جو مجھے مکمل طور پر ڈِفائن نہیں کرتا۔ آخر میری اپنی انفرادی حیثیت بھی تو ہے۔ اگر آپ کو ایسی لکیر بھاتی ہے، تو پوچھنا پڑے گا، آخر آپ کا معاملہ کیا ہے؟ آپ کے ہاں موجود تضادات کو کیا کہا جائے؟


آپ اپنے آدرشوں اور نظریات کو ماننے اور ان کا احترام کرنے کا تقاضا کرتے ہیں، مگر دوسروں کے آدرشوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔۔ آپ کی بات سے کوئی اختلاف نہیں کر سکتا کیوں کہ وہ آزادی، اظہار کا تقاضا ہے مگر دوسرا اپنے آدرش لکھے تو اسے آپکے دوستوں کے دائرے میں نہیں ہونا چاہئے۔ آپ دوستوں کو دیوالی، کرسمس اور نئے سال کی مبارک باد تو دیتے ہیں، مگر رمضان یا عید کی مبارک باد کا وقت آتے ہی آپ کو خراب ملکی حالات یاد آجاتے ہیں۔۔۔ سطحی اور عامیانہ تحریروں کی تعریف کرتے ہیں، چاہے شاعری کو شعریت سے عاری، افسانے کو تاثیر سے جدا رکھا گیا ہو۔۔مگر ایک بڑی لکھاری کی وفات پر، زندگی میں کھلے عام نہیں، آپ کا ’سسٹر ہُڈ‘ کا نظریہ بھی کہیں گم ہو گیا۔ (افسوس تو اس بات کا ہے کہ میں نے ’عورت عورت‘ کا سب سے زیادہ شور مچانے والی عورتوں کو، عورتوں کے ساتھ عجیب سلوک کرتے دیکھا ہے، جس کی بنیاد صرف قدامت پسندی کا لیبل ہے۔ ایک لبرل استاد، ایک طالبہ کی بات سننے سے اس لئے انکاری تھیں کہ وہ طالبہ چہرے پر نقاب کئے تھی اور آفس بوائے کی موجودگی میں نقاب نہیں اتارنا چاہتی تھی۔ حقوقِ نسواں کی ایک چیمپئن نہایت تکلیف میں مبتلا یہ شکوہ فرما رہی تھیں کہ اسلام آباد میں اتنی بڑی بڑی پوسٹس پر یہ عورتیں آبیٹھی ہیں جو حجاب کرتی ہیں)۔۔۔ آزادیء اظہار، عورت کی آزادی، عورت کو لکھنے کی آزادی، سب کو اپنے نظریات بیان کرنے کی آزادی۔۔۔ آپ آخر اپنی بنائی گئی لکیر کے دوسری طرف موجود لوگوں کو یہ حق کیوں نہیں دیتے۔۔۔ آپ یہ سب کرنے پر کچھ مجبور بھی ہیں۔۔۔ کیونکہ آپ ایسا نہیں کریں گے تو کوئی آپ کو قدامت پسند کہہ دے گا۔ فنڈامینٹلسٹ کہہ دے گا۔ اور مسلمان کہہ دے گا!

مزید :

کالم -