بیس سال بعد پاکستان میں ایکو سربراہ کانفرنس کا انعقاد

بیس سال بعد پاکستان میں ایکو سربراہ کانفرنس کا انعقاد

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


اقتصادی تعاون تنظیم(ای سی او) کا تیرھواں سربراہی اجلاس بدھ کو اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں نو ممالک کے سربراہانِ مملکت و حکومت شرکت کر رہے ہیں۔ سربراہی اجلاس کا موضوع ’’علاقائی ترقی کے لئے رابطوں کا فروغ‘‘ ہے، پاکستان میں اِس تنظیم کا اجلاس تقریباً بیس سال بعد ہو رہا ہے، ای سی او وزراء خارجہ کونسل کے بائیسویں اجلاس میں ای سی او سربراہ اجلاس کے ایجنڈے اور ای سی او ویژن2025ء کی منظوری دی گئی، وزراء خارجہ کونسل کے اجلاس میں ترکی، ایران، آذربائیجان، تاجکستان، ترکمانستان، کرغزستان، قازقستان اور ازبکستان کے وزرائے خارجہ شریک ہوئے۔ افغانستان کی نمائندگی پاکستان میں افغان سفیر عمر زخیلوال نے کی۔ اس سے پہلے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کو وزراء خارجہ کونسل کا چیئرمین منتخب کیا گیا۔ وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ ای سی او سربراہی اجلاس میں اعلیٰ قیادت کی شرکت ایک سنگِ میل ہے، حقیقت پسندانہ اور ٹھوس تنظیمی اہداف کی شکل میں ہمارے آگے بڑھنے کے لئے ویژن 2025ء کی بنیاد رکھ دی گئی ہے، رابطوں اور تجارت میں اضافہ اور اقتصادی تعاون میں فروغ ہمارے خطے کو ترقی، خوشحالی اور امن کا مرکز بنا دے گا یقین ہے کہ ای سی او بہت جلد ایک اہم علاقائی اقتصادی بلاک بن جائے گا۔ پاکستان اپنی بندرگاہوں کے ذریعے ای سی او ممالک کو رابطہ فراہم کر کے خوشی محسوس کرے گا۔
بیس سال بعد ای سی او کے اجلاس کا پاکستان کے دارالحکومت میں انعقاد بڑی اہم بات ہے۔ یہ اجلاس ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب پاکستان، ترکی اور افغانستان کو دہشت گردی کا ایسا چیلنج درپیش ہے، جس کا مقابلہ مل کر ہی کیا جا سکتا ہے اور جب تک دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہو جاتا ، ترقی اور خوشحالی کا سفر ہموار طریقے سے جاری نہیں رکھا جا سکتا۔اِس وقت پاکستان کی ترقی کی رفتار پر دُنیا بھر کے ادارے اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں۔وزراء خارجہ کونسل کے اجلاس میں جس ویژن کا اعلان ہوا ہے اس سے لگتا ہے کہ رکن ممالک میں مستقبل میں رابطوں کو وسعت ملے گی اور وہ اپنے وسائل علاقائی ترقی کے لئے استعمال کر سکیں گے۔ افغانستان اگرچہ اِس کانفرنس میں سربراہی کی سطح پر شرکت نہیں کر رہا اور بظاہر اس کی وجہ وہ اختلاف ہیں جو اِس وقت پاک افغان سرحد کی بندش کے مسئلے پر دونوں ممالک میں موجود ہیں۔ پاکستان نے آپریشن ردّالفساد کو کامیاب بنانے کے لئے سرحد بند کر رکھی ہے تاکہ دہشت گرد فرار ہو کر افغانستان نہ جا سکیں اور نہ ہی افغانستان سے آنے والے دہشت گرد پاکستان میں کوئی واردات کر سکیں تاہم یہ عبوری انتظامات بھی جلد ختم ہو جائیں گے۔
ہونا تویہ چاہیے کہ افغانستان بھی ایکو کے دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر علاقائی تعاون اور امن کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔گزشتہ نومبر میں اسلام آباد میں سارک سربراہ کانفرنس بھی ہونے والی تھی جسے بھارت نے سازش کر کے سبوتاژ کر دیا اور ایک دو دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا اور یوں تمام تر تیاریوں کے باوجود اسلام آباد میں یہ کانفرنس نہ ہو سکی۔اس موقع پر بھارتی رہنماؤں نے اپنے ہاں بیٹھ کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ پاکستان کو سفارتی تنہائی کا سامنا ہے،لیکن خود بھارت کو امرتسر کانفرنس میں ترکی اور روس کے مندوبین کی جانب سے جس طرح کی صاف گوئی کا سامنا کرنا پڑا اس سے پاکستان کو تنہا کرنے کا خواب چکنا چور ہو گیا۔ روسی مندوب نے دہشت گردی کے خاتمے میں پاکستان کے کردار کی تحسین کی اور اِس پروپیگنڈے کو زائل کیا کہ پاکستان کسی دہشت گردی میں ملوث ہے۔ اب اسلام آباد کی ایکو کانفرنس اور اس میں رُکن ممالک کی اعلیٰ قیادت کی شرکت اِس بات کا ثبوت ہے کہ تمام مُلک علاقائی تعاون کے تصور کو مضبوط و مستحکم بنا رہے ہیں اور مل کر آگے بڑھنے پر یقین رکھتے ہیں۔ سارک بھی اگرچہ علاقائی تعاون کی تنظیم ہے اور اس میں افغانستان کو بھی اِسی مقصد کے لئے شامل کیا گیا تھا،لیکن بدقسمتی سے یہ تنظیم اب تک بھارت کی یرغمالی بن کر رہی ہے اور پاکستان اور بھارت کے باہمی اختلافات اس پر کچھ اس انداز سے سایہ فگن رہے ہیں کہ علاقائی تعاون کا تصور دُھندلا جاتا ہے،حالانکہ اس پلیٹ فارم پر باہمی اختلافات زیر بحث نہیں لائے جاسکے، تاہم کسی نہ کسی طرح اِن کا سرِ راہ تذکرہ ہی اِس کے اجلاسوں کی فضا کو مکدّر کر دیتا ہے۔
اِس وقت ضرورت اِس امر کی ہے کہ پاکستان، ترکی اور ایران ایکو کو مضبوط بنانے میں اپنا کردار ادا کریں یہ تینوں مُلک کسی زمانے میں آر سی ڈی کے رُکن تھے ۔اب ایکو اِسی آر سی ڈی کے توسیع شدہ تصور کو لے کر آگے بڑھ رہی ہے تو ان ممالک کی یہ بنیادی ذمے داری ہے کہ وہ علاقائی تعاون کے لئے اُن ملکوں کے باہمی سیاسی اختلافات ختم کرانے میں بھی کردار ادا کریں خصوصاً بعض بین الاقوامی امورمیں ترکی اور ایران کے اختلافات ختم ہونے ضروری ہیں۔وزیراعظم نواز شریف نے ایکو ممالک کو پاکستان کی بندرگاہیں استعمال کرنے اور پاک چین اقتصادی راہداری میں شمولیت کی جو دعوت دی ہے اس سے بھی تعاون کا ایک نیا رُخ سامنے آتا ہے چینی قیادت نے ون ویژن ون روٹ کا جو تصور پیش کیا ہے اگر تمام علاقائی مُلک اس کی روح کے مطابق اِس تصور کو لے کر چلیں تو خطے کے وسائل خوشحالی کا روپ دھار لیں گے اور اربوں کی آبادی پر مشتمل یہ اقتصادی بلاک علاقائی تعاون کی ایک درخشندہ مثال بن کر سامنے آئے گا۔
وسط ایشیائی ممالک کی اکثریت کے پاس وسیع وسائل ہیں۔ آذربائیجان کی معیشت وسعت پذیر ہے دوسرے ملک بھی معدنی دولت سے مالا مال ہیں، ایسے میں اگر ان ممالک کی سی پیک کے ذریعے گوادر تک رسائی ہو جاتی ہے تو اِن ملکوں میں تجارتی سامان کی آمدو رفت میں بہت آسانی پیدا ہو جائے گی اور خطے کے تمام مُلک زمینی راستے کے ذریعے باہم منسلک ہو جائیں گے۔ پاکستان نے روس کو بھی گوادر کی بندرگاہ سے مستفید ہونے کی پیشکش کی ہے۔ایرانی بندرگاہ چاہ بہار اور گوادر کا زمینی فاصلہ بھی زیادہ نہیں ہے۔اگر ان دونوں بندرگاہوں کو زمینی راستے سے منسلک کر دیا جائے تو دونوں کی افادیت بھی دو چند ہو جائے گی۔ایران کی قیادت کئی بار کہہ چکی ہے کہ چاہ بہار کو منفی پہلو سے دیکھنے کی ضرورت نہیں یہ بندرگاہ اگر گوادر سے منسلک ہو جاتی ہے تو گوادر پر اُترنے والا مال چاہ بہار تک اور چاہ بہار پر اُترنے والے تجارتی جہازوں کا مال گوادرتک زمینی راستوں سے پہنچا کر دونوں بندرگاہوں کی کارکردگی میں کئی گنا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔علاقائی اقتصادی تعاون کے ذریعے امن کی راہ بھی کشادہ کی جا سکتی ہے،کیونکہ اگر علاقے کے مُلک اقتصادی تعاون کے لئے باہم منسلک ہوں گے تو امن اُن کی بنیادی ضرورت بن جائے گا اور اُنہیں مل کر امن دشمنوں کو ناکام بنانے کے لئے اقدامات کرنا ہوں گے۔ افغان صدر اشرف غنی کو اپنے ہمسایہ مُلک میں ہونے والی ایکو کانفرنس میں زیادہ متحرک کردار ادا کرنا چاہئے تھااگر وہ اب ایسا نہیں کر سکے تو بھی مستقبل میں توقع ہے ، وہ علاقائی تعاون کے جذبے سے آگے بڑھیں گے اور اپنے مُلک کے مفاد کی خاطر اپنی سرزمین کو بھارتی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

مزید :

اداریہ -