انتیسویں قسط۔۔۔ سلسلہ نوشاہیہ کی تحقیقی داستان
سامعین و زائرین کے دلوں پر شیخ کامل کی درگاہ کا روحانی فیض گویا برسنے لگا تھا۔ مجھ پر یہ کلام کے ترنم کا اثر ہورہا تھا یا پھر یہ کیا تھا کہ میری پور پور میں کوئی چیز سرسرانے لگی، کپکپاہٹ ہونے لگی۔۔۔ بدن میں کیف وسرور گھل رہاتھا اور کوئی ایسا احساس پورے بدن کو اپنے کُہر میں لپیٹ کر اندر اندر ہی ٹھنڈ پیدا کرتا جارہا تھا۔گنبد میں سُریلے کلام کی اُٹھان میری کیفیات و محویت کو دو آتشہ کرتی جارہی تھی۔مجھے اس لمحے اپنا آپ بہت ہلکا محسوس ہونے لگا تھا۔ میری آنکھیں بند تھیں اور نظروں کے سامنے دبیز سی دھند لہرا رہی تھی۔ اس ثانیے مجھے خوشگوار سی مہک کا احساس ہوا،یہ اگربتی کی خوشبو ہر گز نہیں تھی اور نہ ہی میں بتا سکتا ہوں اس مہک میں کن جہانوں کی لطافت بسی ہوئی تھی۔پھر یوں لگا جیسے سامنے سے کوئی مجھ سے ہمکلام ہوا چاہتا ہے ، مگر کون؟۔۔۔ کوئی سوال کرتا تو شاید معلوم ہوتا کہ یہ کس کی آواز ہے جس میں شفقت اورگھمبیرتا پائی جاتی تھی۔معاً مجھے احساس ہوا مجھ پر جیسے منوں بوجھ لاد دیا گیا ہے ۔میری ٹانگوں میں جسے سکت ہی نہ رہی ہو میرا بوجھ اٹھانے کی۔اور پھر خلافِ توقع میں کھڑے کھڑے یوں ڈھ گیا کہ میرا سر حضرت برقؒ کی تربت پرجا ٹکااور میں اپنے پیروں کے انگوٹھوں کی مدد سے جھک کر بیٹھ گیا۔قاری شفیع اپنا کلام پڑھتے رہے۔ اس وقت مجھے یہی گماں ہورہا تھا کہ میں صاحبِ مزار کے پہلو میں بیٹھا ہوں اور وہ مسکرا کر میری جانب دیکھ رہے ہیں۔میں کافی دیر تک اسی حالت میں ایک ایسی لذّت آفریں کیفیت میں مبتلا رہا جس کی تفصیل بیان کرنا اسرار باطن کو منکشف کرنے کے مترادف ہوگا ۔یونہی بیس منٹ گزرگئے تھے۔میں قدرے ہوش میں آیا تو مجھے اپنے اندر اطمینان کی بے پایاں قوت محسوس ہونے لگی۔میں اس بات پر خود کو خوش قسمت سمجھنے لگا تھا کہ آج مجھے برسوں بعد پھر کسی صاحبِ مزار کے پاس جا کر قلبی واردات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔تمام ساتھی میری اس کیفیت پر مجھ سے بات کرنا چاہتے تھے خاص طور پر صاحبزادہ ندیم نوشاہی بہت بے تاب تھے۔لیکن میں اس سمے کسی اور ہی دنیا میں تھا ۔میری اندر ابھی تک محویت کا رنگ طاری تھا اور قوت گویائی جیسے سلب ہوگئی تھی۔میں نے بس انہیں ایک نظر دیکھا ،سر ہلایا اورانگلی سے گویا اشارہ دیا’’ابھی کچھ مت پوچھو‘‘۔۔۔یہی حال رنمل شریف میں بھی ہوا تھا میرا۔۔۔ ڈوگہ شریف سے جب رنمل شریف جانا ہوا تو اس وقت رات ڈھل چکی تھی۔پروگرام کے مطابق پہلے حضرت سیّد نوشہ گنج بخشؒ کی والدہ محترمہ کے مزار کی زیارت کے لئے تحصیل پھالیہ کے گاؤں گھوگھیانوالی چلے گئے تھے۔ مزار پر اُداسی اور ویرانی کا سا سماں تھا۔ اندر کسی نے منت کے طور پرکپڑوں سے بنی گڑیائیں رکھی تھیں۔ ہم نے دعا کی اور وہاں سے بھیکے وال گاؤں کی جانب چل دئیے ۔ یہاں حضرت سیّد نوشہ گنج بخش ؒ کے والد گرامی سیدّ علاو الدین حاجی غازی کا مزار ہے۔پوچھتے پاچھتے ہم ایک ذیلی سڑک سے دورکھیتوں کے اندر حضرت حاجی غازی ؒ کے مزار پر پہنچ گئے ۔یہ فصل کی وجہ سے سڑک سے نظر نہیں آرہا تھا لیکن کھیت میں بنے ٹوٹے پھوٹے نالے پر چلتے ہوئے ہم مزار تک جا ہی پہنچے تھے۔ مزار کے پاس ہی احاطے میں قدیم برگد کا درخت تھا۔ اسکی لمبی لمبی گندھی ہوئی لٹیں زمین تک آرہی تھیں۔میں نے برگد کے درخت کو غور سے دیکھا اور نہ جانے مجھے کیوں لگا کہ اس درخت کے نیچے آکر چلّے کاٹنے والوں نے اپنا بڑا محفوظ ٹھکانہ بنایا ہوگا۔ میں نے وہاں ایک کاشت کار مزدور سے پوچھا تو اس نے تصدیق کر دی کہ کچھ لوگ یہاں آتے اور اپنی عبادت کرتے ہیں۔ہم نے حضرت حاجی غازی کے مزار کے پہلو میں بنی نئی مسجد میں نماز عصر ادا کی ۔حضرت حاجی غازی کا مزار ایک چھوٹے سے تنگ اور زیریں چھت والے کمرہ پر مشتمل ہے۔ مزار کی حالت دیکھ کر اندازہ ہو اکہ مجدد اعظم حضرت سیّد نوشہ گنج بخش ؒ کے پیروکار یہاں گاہے گاہے ہی آتے ہوں گے ،بالخصوص سلسلہ نوشاہی کے سجادہ نشینوں کی اس جانب توجہ کم ہی ہے۔گماں ہے کہ ان میں سے بہت سوں کو جائے مزار کا علم بھی ہوگا۔ بتایا گیا کہ اس مزار پر پہلے قبضہ کرلیا گیا تھاجو بعد ازاں چھڑوالیا گیا لیکن اسکے باوجود مزار کی دیکھ بھال کا کوئی مناسب انتظام نہیں کیا گیا۔ دوردراز سے زیارت کے لئے آنے والوں کی رہ نمائی کا کوئی انتظام بھی نہیں ہے بلکہ اصل بات تو یہ ہے کہ ہم جس طرح اس مزار کو تلاش کرتے ہوئے یہاں تک پہنچے تھے اسکا گردونواح میں بھی کسی کو کم ہی پتہ ہوگا۔
سلسلہ نوشاہیہ کی تحقیقی داستان ۔۔۔اٹھائیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
حیرت کی بات یہ ہے حضرت سیّد نوشہ گنج بخشؒ کا مزار شریف جو رنمل شریف میں واقع ہے انکے والدہ اور والد کے مزارات زیادہ سے زیادہ چالیس کلومیٹر دور واقع ہیں۔جن عظیم ہستیوں نے مجدد اعظمؒ کو جنم دیا انکی زیارت گاہوں سے بے رغبتی کسی نوحہ سے کم نہیں ہے۔حیرت ہے محکمہ اوقاف بھی ان عظیم ہستیوں کے مزارات کی دیکھ بھال نہیں کرتا بلکہ ان مزارات کے وجود اور تاریخ سے ہی غافل ہے۔
وہاں سے ہم رنمل شریف کے لئے عازمِ سفر ہوئے۔ پہلے قصر نمازیں ادا کرکے حضرت سیّد نوشہ گنج بخش ؒ کے پہلو میں بیٹھ کر قرآن پڑھتے رہے۔ اس دوران معلوم ہوا کہ عشاء کے بعد محکہ اوقاف والے مزار شریف کا دروازہ بند کردیتے ہیں لیکن میں نے یہ بات سن کر کہا’’ اوکے۔لیکن بابا میں تو اوقاف والوں کی نہ مرضی سے آیا ہوں نہ انکی مرضی سے مراد لئے بغیر باہر نکلوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر میں نے سرکار نوشہؒ کے سرہانے بیٹھ کر تلاوت شروع کردی اور بعد از اذکار و دعا یہاں بھی میری کیفیت و محویت کا انداز بدل گیا ۔اور اسی حالت میں کوئی آدھ پون گھنٹہ گزر گیا ہوگا،مجھے یاد ہے جب میں ’’صاحب مزار‘‘ سے اجازت لیکر باہر نکلا تھا توندیم نوشاہی اور دوسرے ساتھی پوچھتے رہے کہ آپ کو کیا ہوگیا تھا۔میں نے جواباًاستفسارکیا’’کیا ہوگیا تھا مجھے‘‘ بتایا گیاکہ ندیم صاحب اوراوقاف والے تین بار مجھے باہر نکالنے کے لئے آئے لیکن انکے خیال میں میں محویت کے عالم میں گم تھا اور یوں لگتا تھا جیسے میں انکی آمد اور آوازوں سے غافل ہو چکا ہوں۔
جاری ہے۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں