حکیم عبدالوحید سلیمانی بھی چل بسے
برادر عزیزنجم الحسن عارف بیوروچیف روزنامہ ’’امت‘‘ نے میسج کیا۔ افتتاحیہ جملہ تھا:’’اِناّ لِلہ و اِناّ الیہ راجعون‘‘۔۔۔ میں پریشان ہوگیا۔ اپنے معالج، اپنے محسن، اپنے بھائی حکیم عبدالوحید سلیمانی کی وفات کی اطلاع پاکر دل غم میں ڈوب گیا۔۔۔ہندوستان کے ضلع حصار کے شہر سرسہ سے چند میل دور ایک قصبہ روڑی تھا۔ اس کی نسبت سے حکیم محمد عبداللہ روڑی والے کہلائے۔
بانی جماعت اسلامی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے پٹھان کوٹ میں دارالسلام نامی بستی بسائی تو تقسیم ہند سے قریباً ایک سال بیشتر حکیم عبداللہ اور ان کے ہم سفر چودھری نذیر احمد نے سرسہ سے چند میل دور ’’دارالسلام‘‘ ہی کے نام سے بستی قائم کی۔
تقسیم ہند کے بعد مولانا مودودی ہجرت کرکے لاہور آئے اور اچھرہ میں جماعت اسلامی کا مرکز قائم کیا، جبکہ حکیم عبداللہ جہانیاں آکر آباد ہوگئے۔
مولانا مودودیؒ سے حکیم عبداللہ کی پہلی ملاقات قیام پاکستان سے قبل 1934ء میں ہوئی۔ 26اگست 1941ء کو جب جماعت اسلامی کا قیام عمل میں لایا گیا تو حکیم صاحب ان 75افراد میں شامل تھے، جنہوں نے جماعت کے بنیادی ارکان کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔
شروع شروع میں جماعت کے ہر رکن کو ہر میدان میں کام کرنے کی اجازت نہیں تھی، بلکہ صلاحیتیں دیکھ کر دائرہ کار مقرر کردیا جاتا تھا، لیکن کچھ لوگ ایسے تھے، جنہیں ہر میدان میں کام کرنے کی اجازت نہیں تھی،حکیم صاحب مرحوم انہی لوگوں میں تھے۔
انبالہ ڈویژن کے قیم تھے۔ فتح پور دورے پر گئے تو تحصیل دار چودھری نذیر احمد آپ کی تقریر سے بے حد متاثر ہوئے اور چند ملاقاتوں کے بعد انگریز کی نوکری چھوڑ کر جماعت اسلامی میں شامل ہوگئے۔
مولانا حکیم محمد عبداللہ قیام پاکستان کے بعد جماعت اسلامی ملتان ڈویژن کے امیر منتخب ہوئے۔ 1951ء تک اسی منصب پر ذمہ داریاں نبھاتے رہے، بعد میں علالت کے باعث مستعفی ہوگئے۔ برادرم عبدالوحید سلیمانی نے بتایا تھا: ’’بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہوگی کہ حکیم صاحب جماعت اسلامی اور تبلیغی جماعت کے درمیان ایک رابطہ تھے۔
آپ نے مولانا مودودی اور مولانا الیاس کی ملاقاتیں بھی کرائیں اور ایک مشترکہ جلسے کا بھی انتظام کیا۔ جمعیت اہل حدیث، جمعیت العلمائے اسلام اور تبلیغی جماعت کے احباب کو جماعت اسلامی کے بارے میں جو غلط فہمیاں ہوئیں، انہیں دور کرنے میں خاموش کردار ادا کیا کرتے تھے‘‘۔۔۔ایک دن فرمانے لگے:’’جہاں تک یاد پڑتا ہے، میں نے زندگی بھر کبھی جھوٹ نہیں بولا، صرف سچ کی بدولت بے پناہ مالی نقصان اٹھانا پڑا، لیکن خود جھوٹ بولنا تو درکنار، آپ کے لئے اگر کوئی دوسرا بھی جھوٹ بولنا چاہتا تو اسے منع کردیتے۔
مہاجرین کی الاٹمنٹ کے موقع پر بڑے بڑے علماء اور جُبے قبے والے جعلی کلیم بھر کر لاکھوں کروڑوں کے مالک بن بیٹھے۔ آپ چاہتے تو بہت کچھ کرسکتے تھے، کیونکہ الاٹمنٹ کرنے والا افسر آپ کا عقیدت مند تھا، لیکن صرف سچ بولنے کی بدولت آپ اپنا جائز حصہ بھی وصول نہ کرسکے‘‘۔۔۔’’1970ء میں اسلامی جمعیت طلبا کے بے شمار کارکنوں کے ساتھ مجھے بھی گرفتار کرلیا گیا۔
الزام تھا کہ ہم نے وائس چانسلر کی رہائش گاہ پر توڑ پھوڑ کی ہے۔ فوجی عدالت کے سامنے پیشی کے لئے ہم پیپلز ہاؤس میں پولیس کے پہرے میں ہتھکڑیاں پہنے بیٹھے تھے اور باہر بے شمار لوگ ہمیں ملنے کے لئے کھڑے تھے، لیکن گیٹ سے گزر کر اندر آنے کی اجازت کسی کو مشکل ہی سے مل رہی تھی، جب میری گرفتاری کا علم ہوا تو فوراً جہانیاں سے لاہور پہنچے اور بصد مشکل ہم سے ملنے کی اجازت حاصل کی۔
مجھے ہتھکڑیوں میں دیکھ کر پریشان ہوئے، مگر پھر فوراً کہنے لگے:’’بیٹا خواہ کتنی ہی سخت سزا کیوں نہ ملے تم جھوٹ نہ بولنا۔ پہرے پر موجود فوج کے سپاہی حیرت سے دیکھنے لگے کہ ایک بوڑھا باپ اپنے بیٹے کو اس وقت بھی جھوٹ بول کر جان بخشی کرانے کے بجائے سچ کی تلقین کررہا ہے۔ اگلے روز جب پھر ملنے آئے تو سپاہی آگے بڑھے اور کہنے لگے: آپ کے ملنے پر کوئی پابندی نہیں، کیونکہ جو کچھ کل آپ فرما گئے تھے، اس سے ہم بے حد متاثر ہیں‘‘۔
راستی، صلاح، فلاح، دعوت سمیت عبدالوحید سلیمانی نے اوصاف حمیدہ اپنے والد سے ورثے میں پائے تھے۔ جہانیاں سے حصولِ تعلیم کے لئے لاہور آئے۔
اسلامی جمعیت طلباسے وابستہ ہوگئے۔ حکیم محمد عبداللہ کی حکمت پر لکھی کتابیں جدید اورپرکشش انداز میں شائع کرنے کے لئے اشاعت گھر کے قیام کے بعد سلیمانی دواخانے کی شاخ لاہور میں قائم کی۔
اسلامی تحریک سے وابستگی ان کا طرہ امتیاز رہا۔ جماعت اسلامی سے اختلاف رائے کے باعث جناب نعیم صدیقی کی معیت میں جماعت اسلامی سے الگ ہوگئے۔
بعد کو حکیم سروسہارنپوری کی قیادت میں ’’تحریک اسلامی‘‘ سے وابستہ ہوئے اور اہم ذمہ داریاں انجام دیتے رہے۔ چند سال پیشتر عارضہ قلب کے باعث پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) لاہور میں زیر علاج رہے۔
میں نے جس طرح جہانیاں سے لاہور ’’ہجرت‘‘ کرنے میں اپنے بھائی کی پیروی کی تھی، اسی طرح ’’بیماری دل‘‘ میں بھی ان کی تقلید میں پی آئی سی جاپہنچا۔ یہ 2002ء کی بات ہے۔
مجھے شدید ہارٹ اٹیک ہوا، ایمرجنسی میں ڈاکٹر حضرات قابو پانے میں کوشاں تھے کہ اس دوران ہی ایک اور اٹیک ہوگیا۔ صورت حال ابتر ہوگئی، سولہ منٹ تک دگرگوں رہی، مگر قابو پالیا گیا۔ چند روز ہسپتال میں قیام کے بعد گھر پہنچا۔ برادرم عبدالوحید سلیمانی بیمار پرسی کے لئے گھر تشریف لائے۔
اپنا تجربہ دل بیان کرتے ہوئے طبی مشورہ یہ دیا کہ آپ ایلوپیتھی علاج مرضی کے مطابق کرواتے رہیں، مگر ساتھ ہی ساتھ والد محترم موانا حکیم محمد عبداللہ کے عطاکردہ ایک نسخے سے بھی استفادہ کریں۔
ایک کیپسول اور ایک عرق مطب سے میرے گھر منتقل ہوگیا۔ میں ایلو پیتھی اور طب یونانی کی ادویہ سے اپنے علاج میں مصروف رہا۔ حکیم ابن حکیم( جنہیں ولی ابن ولی کہنا بھی کسی طور بے جا نہ ہوگا) کے نسخے نے جو کام کر دکھایا اسے اگر معجزہ نہیں تو ایک ’’خرق عادت‘‘ خوش آئند واقعہ ضرور قرار دیا جاسکتا ہے، جس کا بیان بھی لازمی ہے، مگر پہلے کچھ ذکر خانوادۂ عبداللہ سے اپنے قلبی تعلق کا۔
میرے ماموں مصطفی صادق بھی جماعت اسلامی سے وابستہ رہے ہیں۔ مگر ماچھی گوٹھ کے اجتماع میں مولانا امین احسن اصلاحی، ڈاکٹر اسرار احمد ودیگر سمیت جماعت سے علیحدگی اختیارکرلی۔ انہوں نے اپنے دور جماعت میں حکیم محمد عبدالوحید صاحب سے کہا:قربان علی(میں اخبار نویس بناتو قربان انجم بن گیا) میرا بھانجا ہے۔
ہونہار ہے اس پر نظر رکھیں اور حکیم صاحب مرحوم ومغفور نے چودھری نذیر احمد کے بیٹے (عبدالوحید سلمانی کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر محمد سعید نے، جو میرے جہانیاں سکول کے کلاس فیلو ہیں، پرانی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ چودھری نذیر کے اس بیٹے کا نام اخلباً نثار احمد زاہدتھا) کو مجھ پر مستقلاً ’’نظر رکھنے‘‘ پر مامور کردیا تھا۔ذاتی تعلق خاطر کی یادیں، ان شاء اللہ، کسی دوسری نشست میں عرض کردی جائیں گی۔ فی الوقت کچھ تذکرہ مرحوم کے دم واپسیں کا۔
نومبر کی ایک دوپہر انہوں نے معمول کے مطابق مطب میں مریض دیکھے۔ اس روز مریض معمول سے قدرے زیادہ تعداد میں آئے۔ عزیزم عروہ وحید سلیمانی بتاتے ہیں، میں کاؤنٹر پر ایک ساتھی کی چھٹی کے باعث مصروف ہوگیا تو والد محترم کو معمول کے مطابق نسخے لکھنے میں معاونت نہ دے سکا، انہوں نے رعشہ کے باوجود نسخے لکھنے کی میری ذمہ داری بھی خود ہی نبھائی۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ مطب میں مریضوں سے جب بھی کبھی فرصت ملتی تو وہ یہ لمحات قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہتے اس روز بھی مریض زیادہ ہونے کے باوجود قرآن کی تلاوت بھی فرماتے رہے۔
بارہ بجے کے بعد معمول کے مطابق وضو کرنے کے لئے اٹھے۔ وضو کے دوران ہی طبیعت اچانک خراب ہوگئی۔ صوفے پر لٹادئے گئے، مگر جلد ہی خالق حقیقی سے جاملے۔ امجد اسلام امجد یاد آگئے ہیں:
دل کے دریا کو کسی روز اتر جانا ہے
اتنا بے سمت نہ چل لوٹ کے گھر جانا ہے
مرحوم کی حِس مزاح بھی ہمیشہ یاد رہے گی۔ ایک روز بچوں سے پتہ چلا حکیم عبدالوحید سلیمانی علیل ہیں فون پر خیریت دریافت کرتے ہوئے میں نے کہا:بھائی! کیا حکیم بھی بیمار ہو جاتے ہیں۔ برجستہ کہا:آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ حکیم بیمار ہی نہیں ہوتے، مربھی جاتے ہیں اور مزاح میں کہی گئی یہ بات انہوں نے سچ ثابت کردکھائی۔
میراغم، میرا الم مرحوم کے تمام احباب، تمام لواحقین سے بڑھ کر ہے،مگر طلحہ، عروہ اور عمار سے زیادہ بہر حال نہیں، جنہیں میں چشم تصور میں دیکھ رہا ہوں کہ اس شعر کی تفسیر بنے ہوئے ہیں:
سارے جہاں کی دھوپ میرے گھر میں آگئی
سایہ تھا جس درخت کا مجھ پہ وہ گر پڑا