لکڑیوں کے گٹھے باندھنے کے بعد انھوں نے کلھاڑیاں سنبھالیں اور شیر سے مقابلے کے خیال سے اس طرف گئے جدھر ڈولا گیا تھا۔دور تک کانٹے دار جھاڑیوں میں اس کے کپڑوں کی دھجیاں لٹکی نظر آرہی تھیں۔شیر کے تازہ ماگھ بھی تھے۔سارا معاملہ واضح ہوگیا اور ان لوگوں نے فوراً ہی ڈولا کی یا اس کی لاش کی۔۔۔تلاش شروع کردی۔
اس کے برابر اطراف کے لوگ اس موذی کا شکار ہوتے گئے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی جولاں گاہ کا رقبہ بھی وسیع تر ہوتا گیا۔۔۔۔جھومری سے کلیا کھیڑی دس میل کے فاصلے پر ہے ۔وہاں کے بھی کچھ لوگ شکار ہوئے۔۔۔شمال میں جھومری سے آٹھ میل دور کرامت نگر ہے۔اس کے قریب کندورہ اور بستی ہے۔۔۔سارے گاؤں اس بلا کی زد میں آگئے۔
اس زمانے میں بھوپال کی ریاست نے ایک انگریز مشیر ملازم رکھا تھا۔۔۔اس کا سیکرٹیری جان فارل ایک اچھا شکاری اور خاصا باہمت آدمی تھا۔۔۔۔اس نے جھومری کو مستقر بنا کر دو ہفتے تک اس موذی کو ہلاک کرنے کی کوشش کی ،لیکن جھومری سے کلیا کھیڑی واپس آتے ہوئے ایک سیاہ ناگ کے کاٹنے سے ہلاک ہوگیا۔
شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ...قسط نمبر 46 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
نواب ٹونک کے ایک عزیز بھی کئی ہفتے جھومری میں رہ کر اس کی ہلاکت کی سعی کرتے رہے۔ایک دفعہ انھیں یہ آدم خور نظر بھی آیا ،لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔۔۔اٹارسی کے ایک شکاری بھی جھومری کے آدم خور کی شہرت سن کر آئے ۔ان کے باندھے ہوئے گدھے کو شیر نے ہلاک کیا اور نصف کے قریب کھا کر بقیہ لاش وہیں جھاڑیوں میں چھپاکر چلا گیا۔
شیر جب اپنے شکار کا بقیہ چھپا کر جاتا ہے تو اس کے عام طور سے یہی معنی ہوتے ہیں کہ اس نے یہ شکار دوسرے وقت کے لیے چھوڑا ہے۔۔۔۔چنانچہ یہ صاحب اسی مقام پرمچان بندھوا کر بیٹھے اور تمام رات شیر کے آنے کا انتظار کرتے رہے۔صبح کو انھوں نے اپنے ساتھیوں کی آمد کا انتظار کیے بغیر قدم نیچے اتاراہی تھا کہ آدم خور نے ان کو دبوچ لیا۔دراصل شیر اس درخت کے نیچے تمام رات بیٹھا رہا تھا۔۔۔۔وہ شیر کے منتظر رہے اور شیر ان کا ۔۔۔ان سے یہ غلطی ہوئی کہ پوپھٹتے ہی پوری طرح روشنی ہونے سے قبل تنہا اتر پڑے۔اس قسم کی لاپروائیاں اکثر ہلاکت پر منتج ہوتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آدم خور شیر کے شکار میں قدم قدم پر احتیاط اور عقل و ہوش سے کام لینا پڑتا ہے ۔ذرا سی چُوک موت کے منہ میں لے جاتی ہے۔۔۔۔
ایک سال،موسم سازگار ہوتے ہی میں بھی اس شیر کی ہلاکت کا ارادہ کرکے کلیاکھیڑی پہنچا اور وہاں کے رئیس قیام اللہ صاحب کا دو روز مہمان رہ کرجھومری آگیا۔۔۔۔شیر کو ہلاک کرنے کا آسان ترین نسخہ ہے کسی مناسب مقام پر گارا باندھنا اور مچان پر بیٹھ کرہلاک کردینا۔نہ زیادہ محنت اور نہ زیادہ آدمیوں کی ضرورت۔شیر کے شکار میں زیادہ ہجوم سے میں ویسے بھی گھبراتا ہوں۔خصوصاًآدم خور کے شکار میں زیادہ لوگوں کی شرکت سخت خطرات کی حامل ہوتی ہے۔میں اسے کبھی پسند نہیں کرتا۔
یوٹیوب چینل سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
جھومری سے میں نے دو بھینسے خریدے ۔ایک بھینسا اس جگہ بندھوایا،جہاں شیر نے کافی عرصہ پہلے ڈولا کو ہلاک کیا تھا۔یہاں جنگل گھنا تھا۔پہاڑ قریب تھے اور ماگھ بھی بکثرت تھے۔دوسرا بھینسا ندی کے کنارے اس جگہ بندھوایا،جہاں ایک نالہ آکر ندی میں ملتا ہے۔۔۔۔میں نے طے کیا تھا کہ اگر گارا ہوگیا تو باقی ماندہ گارے پر مچان بندھوا کر بیٹھوں گا۔شیر کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو،پورا بھینسا وقت واحد میں نہیں کھا سکتا۔عام طور سے نصف سے کچھ زیادہ یکبارگی کھالیتاہے اور دس بارہ گھنٹے کے وقفے سے باقی گوشت بھی اس طرح چٹ کرتا ہے کہ سر ،ہاتھ،پیر اور بڑی ہڈیوں کے علاوہ کچھ باقی نہیں بچتا۔
بھینسے باندھنے کا طریقہ صرف اس صورت میں کارگر ہو سکتا ہے،جب آدم خور کبھی گاؤں کے مویشی بھی ہلاک کرتا ہو۔جو آدم خور ،مویشی ہلاک نہیں کرتے،ان پر یہ ترکیب آزمانابے کار ہے۔جھومری کے آدم خور کے بارے میں مجھے معلوم تھا کہ وہ مویشی بھی مار دیتا ہے اور ابھی اس کے قوٰی میں اضمحلال کے آثاربھی پیدا نہیں ہوئے تھے۔(جاری ہے)