اب کھاد کا بحران؟
اگر حالات ایسے ہی رہے، جیسے اس وقت موجود ہیں تو اگلے چند ہفتوں میں کھاد کا بحران نہ صرف پیدا ہو گا بلکہ بہت زور سے کسانوں کی کمر توڑے گا، کیونکہ اعداد و شمار چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ملک میں یوریا کھاد کے کم ہوتے ہوئے ذخائر ضروریات پوری کرنے کے لئے ناکافی ہوں گے۔حکومت کے اپنے اداروں کے اعداد وشمار کے مطابق اپریل کے بعد سے ملک میں یوریا کھاد کی قلت شروع ہو جائے گی۔ اس خدشے کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ ذخیرہ اندوزوں نے یوریا کھاد کے سٹاک کرنے شروع کر دئیے ہیں تاکہ اگلے ماہ جب قلت کی وجہ سے ”ڈیمانڈ“ اور”سپلائی“ متاثر ہو گی تو لازمی طور پر وہ ذخیرہ کی گئی کھاد بلیک میں فروخت کرکے ناجائز منافع خوری کریں گے۔ ان حالات میں مافیاز اور ذخیرہ اندوز اربوں روپے کمائیں گے اور کسان، جو پہلے ہی بد حال ہیں، ان کی کمر مزید ٹوٹ جائے گی اور اس کا سارا بوجھ غریب عوام کو اٹھانا پڑے گا۔ پاکستان کے نئے ”قائد قلت“ کی حکومت عوامی مسائل سے خود کو مکمل طور پر لا تعلق سمجھتی ہے۔ درست منصوبہ بندی، بروقت اقدامات اور عوام کے لئے کچھ کرنے کے جذبے سے عاری حکومت کے وزیر اعظم صرف یہ بیان دے کر کہ ”وہ مافیاز کو نہیں چھوڑیں گے“ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنا فرض پورا کر دیا ہے۔ اشیائے ضرورت کے جتنے بھی بحران پچھلے چند مہینوں میں آئے ہیں، بات وزیر اعظم کے بیانات سے آگے نہیں بڑھی اور ان ”مافیاز“ کا، جن کی وجہ سے یہ بحران آتے ہیں، ابھی تک نہ تعین کیا جا سکا ہے اور نہ ہی بتایا گیا ہے کہ حکومت ان کے خلاف کیا اقدامات کر رہی ہے؟ گندم، آٹے اور چینی کے بعد اب کھاد کے بحران کی آمد صرف چند ہفتوں کی بات رہ گئی ہے، لیکن وزیر اعظم عمران خان، مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدا لحفیظ شیخ، وزیر فوڈ سیکیورٹی خسرو بختیار، وزیر منصوبہ بندی اسد عمر اور مشیر پیداوار رزاق داؤد ان تمام خدشات سے لاتعلق نظر آتے ہیں۔ لگتا ہے کہ یا تو انہیں ادارک ہی نہیں ہے (اور اگر ادراک ہے تو احساس بالکل بھی نہیں ہے)کہ کھاد کا بحران موجودہ حکومت کو سیاسی طور پر ڈبونے کا کام کرے گا، کیونکہ اس سے نہ صرف ہماری دیہی آبادی (70 فیصد) شدید متاثر ہوگی بلکہ پورا ملک اس کی وجہ سے نئی مشکلات کا شکار ہوجائے گا۔
روم کے بادشاہ نیرو کی طرح ہمارے حکمران بھی چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔ خواجہ ناظم الدین پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل اور دوسرے وزیر اعظم بھی تھے۔پہلے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح کی ستمبر 1948ء میں وفات کے بعد خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل مقرر کئے گئے اور تین سال بعد اکتوبر 1951ء میں پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد دوسرے وزیر اعظم بنائے گئے۔ ان کا دور پاکستان کے ابتدائی سالوں پر مشتمل تھا۔ ایک نیا ملک وجود میں آیا تھا، جس کے وسائل نہ ہونے کے برابر تھے اور ملک کے دونوں حصوں میں ایک ہزار میل سے زیادہ کا فاصلہ ہونے کی وجہ سے ان پر قابو پانا انتہائی مشکل کام بھی تھا۔ بھارت روز اول سے پاکستان دشمنی پر اترا ہواتھا اور پاکستان کے جائز علاقوں کشمیر، حیدر آباد دکن اور جونا گڑھ پر قبضہ کر چکا تھا۔ مسئلہ کشمیر پر پہلی پاک بھارت جنگ بھی اسی دور میں ہوئی، جس میں پاکستان نے کشمیر کا کچھ علاقہ واگذار کرا لیا تھا، لیکن زیادہ حصہ آج تک بھارت کے غاصبانہ قبضے میں ہے۔ پاکستان کے ابتدائی سالوں میں خوراک کا بحران شدید ہوا تو خواجہ ناظم الدین کو دل جلوں نے ”قائد قلت“ کا خطاب دے ڈالا۔ گوناگوں مسائل، اس پر خوراک کی قلت، خواجہ ناظم الدین کو لوگ”قائد قلت“ کہنے لگے۔
پچھلے کچھ مہینوں سے پاکستان میں خوراک و اشیائے ضرورت کی مہنگائی اور قلت کی صورت حال رہی ہے۔ مہنگائی کی شرح نے اس سال پچھلے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں اور لوگ پریشان ہیں کہ وہ کیا کھائیں اور کہاں سے کھائیں؟ بار بار ایسا وقت آجاتا ہے کہ اشیائے خوردنی لوگوں کی قوت خرید سے باہر ہو جاتی ہیں۔ ٹماٹر مہنگے ہوئے تو 400 روپے کلو سے بھی اوپر جا پہنچے۔ مشیر خزانہ کو عوام کی تکالیف کا کتنا احساس ہے اس کا اندازہ لوگوں کو اس دن ہی ہو گیا تھا، جب عین ان دنوں میں جب ٹماٹر 400 روپے فی کلو سے زیادہ مہنگے تھے‘ مشیر خزانہ ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ ٹماٹروں کا ریٹ 17 روپے فی کلو بتا رہے تھے۔ اسی طرح جب سبزی فروشوں کی دکانوں میں مٹر 200 روپے فی کلو سے زیادہ مہنگے بک رہے تھے تو ایک وفاقی وزیر غلام سرور خان اس کا بھاؤ 5 روپے فی کلو بتا رہے تھے، ایک تو لوگ پہلے ہی مہنگائی اور اشیاء کی نایابی سے تنگ تھے، اوپر سے وفاقی اور صوبائی وزیروں کے بیانات لوگوں کا مزید منہ چڑھا رہے تھے۔ ایک وفاقی وزیر علی امین گنڈا پور ٹیلی ویژن پر ارشاد فرما رہے تھے کہ خوراک کی مہنگائی دراصل ایک اچھی علامت ہے، کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ ہمارے کاشتکار امیر ہو رہے ہیں اور ہمیں تو خوش ہونا چاہئے کہ ہماری آبادی کا 70 فیصد (دیہی آبادی) خوش حال ہو رہا ہے۔ اسی طرح معاونِ خصوصی اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور خیبر پختون خوا کے وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی بھی اپنے بیانات سے لوگوں کے زخموں پر نمک پاشی کرتے رہے۔ شوکت یوسفزئی کبھی نانبائیوں کو مشورہ دیتے کہ روٹی کا ریٹ نہ بڑھائیں،بلکہ پیڑے کا وزن آدھا کر لیں۔ اسی طرح ایک دفعہ انہوں نے کہا کہ لوگ ہانڈی میں ٹماٹر نہ ڈالیں، بلکہ بغیر ٹماٹروں کے ہانڈی بھی پکائی جا سکتی ہے۔ خیبر پختون خوا اسمبلی کے سپیکر مشتاق غنی نے عوام کو انتہائی قیمتی مشورہ سے نوازا کہ جو لوگ دو روٹیاں کھاتے ہیں وہ ایک روٹی کھایا کریں۔ دسمبر اور جنوری میں جب گندم اور آٹے کا بحران عروج پر تھا تو وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید بھلا کیوں پیچھے رہتے، کیونکہ شیخ رشیداپنی وزارت کے علاوہ باقی تمام وزارتوں کے نہ صرف ماہر ہیں، بلکہ ترجمانی کے فرائض بھی سر انجام دیتے ہیں۔ شیخ رشید نے کہا کہ در اصل سردیوں میں لوگ روٹیاں دوگنی کھاتے ہیں اس لئے آٹا نایاب ہوا ہے، گویا 72 سالوں میں ہمارے ملک میں موسم سرما غالباً پہلی بار آیا تھا۔سبزیاں، گندم، آٹا، چینی اور اس طرح کی اشیائے خوردنی کی قلت اور مہنگائی موجودہ حکومت میں چونکہ بار بار ہو رہی ہے، اس لئے دھیان پاکستان کے ابتدائی سالوں میں دئیے جانے والے لقب ”قائد قلت“ کی طرف چلا جانا ایک قدرتی بات ہے۔ وزیر اعظم عمران خان تقریباً 70 سال بعد ایک نئے ”قائد قلت“ کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔
پاکستان میں اس وقت یوریا کھاد کی قلت پیدا ہو چکی ہے اور حکومت کو بالکل اندازہ نہیں ہو رہا کہ ایک آتش فشاں پھٹنے کے قریب ہے۔ گذشتہ برس فروری میں حکومت نے ایک لاکھ ٹن کھاد امپورٹ کی تھی کہ کھاد کی قلت نہ ہو۔ گذشتہ سال پاکستان میں یوریا کھاد کی پیداوار 61 لاکھ ٹن ہوئی تھی، جبکہ کھپت 62 لاکھ ٹن رہی تھی۔ اس ایک لاکھ ٹن کی کمی یوریا درآمد کرکے پوری کی گئی تھی۔ اس سال یوریا کھاد کی کھپت بڑھنے کی توقع ہے، کیونکہ جی آئی ڈی سی میں حکومت نے 400 روپے کی کمی اس لئے کی ہے کہ کسانوں کو اس کا فائدہ پہنچایا جائے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کھادساز ادارے فوری طور پر یوریا کھاد کی بوری میں 400 روپے کی کمی کرتے جو حکومت نے انہیں کسانوں تک پہنچانے کے لئے جی آئی ڈی سی میں کمی کی ہے، لیکن اداروں نے 400 کی بجائے قیمت میں کمی صرف 150 سے 300 ارب تک کی ہے۔ اس طرح حکومت کی ٹیکس میں کمی کا ناجائز فائدہ اٹھایا گیا۔ کھاد کی قیمت میں کمی ہونے کی وجہ سے اس سال کھپت کا اندازہ 65 لاکھ ٹن تک لگایا جا رہا ہے، جبکہ پیداوار اس سال بھی 61 لاکھ ٹن یا اس سے کم رہے گی۔ اس طرح ”ڈیمانڈ“ کے مقابلے میں ”سپلائی“کم رہے گی، جس کا فائدہ ذخیرہ اندوز اور ناجائز منافع خور مافیاز اٹھائیں گے۔ کسانوں اور عوام کے نصیب میں مشکلات آئیں گی، جس کی وجہ سے حکومت کی مقبولیت میں بہت کمی آجائے گی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کون سے ”مافیاز“ ہیں جن کے سامنے حکومت نہ صرف بے بس نظر آتی ہے بلکہ گھٹنے بھی ٹیک چکی ہے۔ یوریا کھاد کی قلت لازمی طور پر پیدا ہو گی، اس سے بچنے کے لئے حکومت کے پاس دو ہی راستے ہیں …… پہلا راستہ یہ ہے کہ تقریباً دس لاکھ ٹن سالانہ یوریا بنانے والے ان اداروں کو گیس دی جائے، جنہیں اس وقت گیس نہیں مل رہی …… دوسرا راستہ یہ ہے کہ حکومت 4 لاکھ ٹن یوریا درآمد کرے۔ دوسرے آپشن میں حکومت کا زرمبادلہ باہر جائے گا اور درآمد شدہ کھاد پر سبسڈی بھی دینا پڑے گی، اس لئے پہلا راستہ حکومت کے لئے زیادہ آسان بھی ہے اور اس میں اضافی وسائل بھی درکار نہیں ہوں گے۔ اب یہ عمران خان کی حکومت پر منحصر ہے کہ وہ گندم، آٹے اور چینی کی طرح ایک نیا بحران پیدا ہونے سے اپنے آپ کو بچالیتی ہے یا پانی کو سر کے اوپر سے گذار کر غیر مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کرواتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے لئے بہتری تو اسی بات میں ہے کہ وہ خواجہ ناظم الدین کی طرح ایک نئے ”قائد قلت“ کا لقب اپنے نام نہ کروائیں۔