ایف بی آر کو بے نامی جائیداد رکھنے والے معروف سیاست دانوں کے خلاف شواہد مل گئے، مزید 12 ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ
اسلام آباد (ویب ڈیسک) ایف بی آر نے 16 ارب روپے مالیت کی بے نامی جائیدادیں رکھنے والوں کے خلاف آئندہ ہفتے مزید 12 ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے ساتھ ہی بے نامی جائیداد کے حامل متعدد بڑے سیاست دانوں کے خلاف شواہد جمع کرلیے۔
ایکسپریس کے مطابق ایف بی آر کے سینئر افسر نے بتایا کہ ایف بی آر کے ماتحت ادارے ڈائریکٹوریٹ جنرل انسداد بے نامی ڈاکٹر بشیر اللہ خان مروت کی جانب سے ایف بی آر ہیڈ کوارٹر کو رپورٹ بھجوائی گئی ہے جس میں بے نامی اداروں کے خلاف کارروائی کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کیا گیا ہے۔ رپورٹ مطابق ایف بی آر کے ڈائریکٹوریٹ جنرل انسداد بے نامی کے تحت کام کرنے والے تین بے نامی زونز نے بے نامی جائیدادیں رکھنے والوں کے خلاف کارروائی تیز کردی ہے اور ملک میں مزید 12 بے نامی جائیدادوں کا سراغ لگالیا ہے اور ان بے نامی جائیدادیں رکھنے والوں کے خلاف ریفرنس تیار کرلیے ہیں جوکہ آئندہ ہفتے ایڈجوڈیکیٹنگ اتھارٹی کے پاس دائر کردیئے جائیں گے اور ایڈجوڈیکیٹنگ اتھارٹی بے نامی جائیدادیں رکھنے والے اصل مالکان کے خلاف کیس سماعت کرکے فیصلہ دے گی۔
اخبار نے لکھا کہ ڈائریکٹوریٹ جنرل انسداد بے نامی اقدامات کی جانب سے دائر کیے جانے والے ریفرنس کی تعداد 34 ہوجائے گی۔رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ صوبہ پنجاب میں بہاولنگر، بہاولپور، چنیوٹ، خوشاب، ملتان، فیصل آباد، ننکانہ صاحب، ساہیوال، ٹوبہ ٹیک سنگھ، پاکپتن، گجرات، حافظ آباد اور لاہور پر مشتمل 13 شہروں میں مجموعی طور ہر 28 ہزار 600 کینال بے نامی زمین کا سراغ لگایا گیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ متعلقہ ڈسٹرکٹ ریونیو اتھارٹیز کی جانب سے مذکورہ شہروں میں سراغ لگائی جانے والی 28 ہزار 600 کینال بے نامی زمین کی مالیت کا اندازہ 72 ارب 70 کروڑ روپے لگایا گیا ہے، بدقسمتی سے صوبہ خیبرپختونخوا میں بے نامی جائیدادوں کی نشاندہی اور سراغ لگانے کا معاملے میں نرم رویہ اختیار جارہا ہے رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ وزیراعظم آفس اس معاملے میں مداخلت کرسکتا ہے اور وزیراعظم آفس کے جاری کردہ ڈائریکٹوز پر عمل درآمد نہ ہونے کا سختی سے نوٹس لیا جاسکتا ہے۔
بتایا گیا ہے کہ اس حوالے سے ڈی جی انسداد بے نامی اقدامات جلد چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا سے ملاقات کریں گے اور انہیں بے نامی کے اہم قانون اور اس کے پاکستان کے مستقبل پر اثرات بارے بریفنگ دیں گے۔ جہاں تک صوبہ سندھ کا تعلق ہے تو سندھ میں ضلعی ریونیو اتھارٹیز کی جانب سے زیادہ بے نامی جائیدادوں کی نشاندہی نہیں کی گئی ہے اور سندھ میں زیادہ تر انکوائریاں سیٹیزن پورٹل ایپ پر موصول ہونے والی انفرادی شکایات کی بنیاد پر ہورہی ہیں یا کراچی زون کو موصول ہونے والی کارڈ کاپی کی صورت میں شکایات پر ہورہی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق بے نامی زون کراچی سندھ میں ضلعی انتظامیہ سے جتنا ممکن ہوسکے ڈیٹا حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کررہا ہے، بے نامی جائیدادوں کا سراغ لگانے کے لیے تمام مطلوبہ ڈیٹا کا حصول ضروری ہے کیونکہ ٹرانسفر ڈیڈ (Mutation Deeds)، فرد، سیل ڈیڈز، جمع بندی سمیت دیگر متعلقہ ڈیٹا کے بغیر یہ ثابت کرنا مشکل ہے کہ کونسی جائیداد بے نامی ہے اور کونسی اصل مالکان کے نام ہے۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ڈائریکٹوریٹ جنرل انسداد بے نامی اقدامات اور بے نامی زونز کے پاس افرادی قوت کی کمی اور وسائل کی کمی کی وجہ سے بھی بے نامی داروں کے خلاف معلومات اکٹھی کرنے اور شواہد اکٹھے کرنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں لیکن محدود وسائل اور افرادی قوت کی کمی کے باوجود ڈائریکتریٹ جنرل انسداد بے نامی نے اب تک اربوں روپے کی بے نامی جائیدادوں کا سراغ لگاکر 22 ریفرنس ایڈجوڈیکیٹنگ اتھارٹی کے پاس دائر کردیئے ہیں اور مزید 12 ریفنرنس تیار ہیں جو کہ آئندہ ہفتے دائر کردیئے جائیں گے۔
اخبار کے مطابق علاوہ ازیں نصف درج سے زائد بڑے سیاست دانوں کے خلاف بے نامی جائیدادوں کی تحقیقات جاری ہیں اور معروف سیاست دانوں کے خلاف بے نامی جائیدادوں کے شواہد جمع کرلیے گئے ہیں۔ توقع ہے کہ اگلے 10 سے 15 دنوں میں ان سیاستدانوں کے خلاف بھی ریفرنس دائر کردیئے جائیں گے۔رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک بھر میں بے نامی زونز کی جانب سے30 ارب 50 کروڑ روپے سے زائد مالیت کی مجموعی طور پر 140 بے نامی جائیدادیں اور اثاثہ جات عبوری طور پر منجمد کیے جاچکے ہیں۔