عدالت عظمیٰ کے اکثریتی فیصلے کے بعد؟

 عدالت عظمیٰ کے اکثریتی فیصلے کے بعد؟
 عدالت عظمیٰ کے اکثریتی فیصلے کے بعد؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


عدالت عظمیٰ کے لارجر بینچ کے اکثریتی فیصلے پر کوئی تعجب نہیں ہوا۔ یہ ایک ایسا شفاف معاملہ تھا اور ہے کہ فاضل چیف جسٹس کسی ابہام کے بغیر کھل کر رائے دے چکے تھے۔ یوں دو فاضل جج حضرات نے ان کا ساتھ دے دیا، اب تفصیلی فیصلے کے بعد یہ دیکھنا ہوگا کہ جن دو فاضل جج حضرات نے اختلافی نوٹ لکھا، اس کے بارے میں بنچ کے سربراہ اور ان سے اتفاق کرنے والوں نے کیا موقف اختیار کیا ہے  کیونکہ 90 اور 60 روز کا معاملہ تو آئین میں واضح ہے اور اس پر کوئی ابہام نہیں، سوال در حقیقت یہ تھا کہ از خود نوٹس کے بارے میں جن دو فاضل جج حضرات نے اختلاف کیا، مسٹر جسٹس نصرمن اللہ نے تو کئی واجب سوال اٹھائے تھے اور از خود نوٹس پر اعتراض کیا تھا۔ اکثریتی فیصلے میں صدر مملکت کے اختیار کی بھی بات کی گئی حالانکہ آئین میں اس کی بھی وضاحت موجود ہے۔ یوں  بھی صدر مملکت کے وکیل نے بیان دیا کہ صدر مملکت نے کے پی اسمبلی کی حد تک تاریخ کے تعین کا اپنا حکم واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے، اس حکم کے جاری ہونے سے قبل ہی حتمی فیصلہ آ گیا ہے اس  کا ذکر بھی تفصیلی فیصلے ہی میں ملے گا۔


فاضل عدالت عظمیٰ کی تاریخ اس نوعیت کے فیصلوں سے بھری پڑی ہے، خصوصاًذوالفقار علی بھٹو کی درخواست خارج کرکے سزائے موت برقرار رکھنے کا فیصلہ مثال ہے، یہ بھی ایک فاضل رکن کی اکثریت سے ہوا اور مقبول عوامی رہنما کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ پیپلزپارٹی کے آصف علی زرداری کی صدارت کے دور میں بابر اعوان نے اس مقدمہ کی دوبارہ سماعت کے لئے ریفرنس دائر کیا تھا، کئی سال گزر جانے کے بعد اس کی سماعت کی نوبت نہیں آئی حتیٰ کہ اب بابر اعوان پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی وکالت کررہے ہیں۔
عدالتی حوالے سے کہاجاتا ہے کہ جج خود نہیں بولتے ان کے فیصلے بولتے ہیں، یہاں تو دونوں طرح کی باتیں ہوتی ہیں، بہرحال نیک نیتی سے اس اکثریتی فیصلے پر بات ہو سکتی ہے اور ہوتی رہے گی اگر فاضل چیف جسٹس ہائی کورٹوں کے فیصلوں کا انتظار کر لیتے یا کسی درخواست کی بنیاد پر کیس سنتے تو نوعیت مختلف ہوتی۔ چہ جائیکہ اس از خود نوٹس کی وجہ سے عدالت عظمیٰ کے فاضل اراکین کے درمیان اختلاف کا تاثر ابھرتا، میں نے طویل عرصہ کورٹ رپورٹنگ کی اور مولوی تمیز الدین کیس کو بھی پڑھا ہے اور مانتا ہوں کہ آج تک اس نظریہ ضرورت کے فیصلے پر بات ہوتی رہتی ہے اور اس درخواست میں مولوی تمیز الدین ہی کو ہرایا گیا تھا جبکہ فاضل چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس کے دوران یہ بھی کہا کہ آج مولوی تمیز الدین ہمارے سامنے کھڑے ہیں اور آئین نے ہمیں پکارا ہے۔ صدر کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے ایک ٹاک شو میں کہا کہ کسی فریق نے آئین میں متعین 90روز کی مدت سے اختلاف نہیں کیا تو یہ واضح ہے کہ انتخابی مدت کا تنازعہ نہیں۔ اصل معاملہ ان وجوہات کے حوالے سے پیدا ہوا جو الیکشن کمیشن کی طرف سے بیان کی گئیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس پر بھی فیصلے  میں تفصیلی بات کی گئی ہو گی تاہم یہ نکتہ کسی طرف سے نہیں اٹھایا گیا کہ اگر مقررہ مدت میں الیکشن نہیں کرائے جاتے تو پھر کیا ہو گا کہ ماضی میں مخصوص حالات میں متعینہ انتخابات بھی آگے بڑھائے جا چکے ہوئے  ہیں۔


میں نے آج سیاست اور معیشت کو ایک طرف رکھ کر بات کی ہے کہ یہ بہت اہم امور ہیں اور لوگ پوچھ رہے ہیں کہ ہمارے ملک میں استحکام کیسے آئے گا اور یہاں نظریہ ضرورت دفن کیسے ہو گا؟ خواہ وہ عدالتی فیصلوں کے حوالے سے بروئے کار لایا گیا یا انتظامی فیصلوں کے باعث عمل پذیر ہوا ہو؟ اس پر بات کیوں نہیں ہوتی اور اب تو کچھ فاضل جج حضرات نے طریق کار پر بھی اختلاف کیا ہے تو کیا اپنی میز صاف کرنا بھی لازم نہیں ہو گیا اور کیا عدالت کے باہر کھڑے ہو کر جو سیاستدان حضرات  بزور کہہ رہے تھے کہ فیصلہ ان کے مطابق ہونا چاہیے کہ آئین کہتا ہے، ان حضرات نے اپنے دور کو بھول کر آئین کی بات کرنا شروع کی ہے، ورنہ صورت حال مختلف ہے۔


اس فیصلے پر تو تادیر بات ہوتی رہے گی، بات کو مکمل کرنے سے پہلے منگل کو اسلام آباد کی عدالتوں میں ہونے والی کارروائی پر بھی ایک نظر ڈال لینا ضروری ہے، اس روز تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی اسلام آباد میں چار مختلف عدالتوں میں پیشیاں تھیں، ان میں سے ایک عدالت میں ”توشہ خانہ“کیس میں فرد جرم کا سوال تھا اور عدالت نے عمران خان کو طلب کر رکھا تھا۔صبح عدالت لگی اور کیس کی آواز پڑی تو فاضل عدالت نے پوچھا عمران خان کہاں ہیں جونیئر وکیل نے بتایا کہ وہ لاہور سے چل پڑے ہیں اور عدالت میں پیش ہوں گے، اس کیس میں خواجہ حارث عمران خان کے وکیل ہیں وہ خود موجود ہی نہیں تھے۔ فاضل عدالت نے ساڑھے بارہ بجے تک سماعت ملتوی کی اور سماعت انتظار میں رکھ لی۔ عمران خان دوسری عدالتوں میں جاتے رہے لیکن اس عدالت میں نہ آئے اور بالآخر ان کی طرف سے ایک روزہ حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی۔ فاضل عدالت نے یہ درخواست مسترد کر دی اور قرار دیا کہ عمران خان اس عدالت اور کیس میں پیش ہونے سے گریز کرتے ہیں اور کئی بار تاریخ پیشی پر نہیں آئے۔ آج وہ سٹی کورٹ سے پانچ منٹ کے فاصلہ پر تھے پھر بھی نہیں آئے لہٰذا ان کی درخواست اور ضمانت مسترد کی جاتی ہے، ان کے بلاضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کئے جائیں اور ان کو گرفتار کرکے 7 مارچ کو عدالت کے روبرو پیش کیا جائے۔  خان صاحب نے اس حکم اور اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ سمیت دوسری عدالتوں میں پیش ہو کر ضمانتیں حاصل کیں اور وہ بنی گالا جانے کی بجائے لاہور واپس آ گئے اور وارنٹ گرفتاری جاری ہو جانے کے حکم کی پیروی کے لئے بھی نہیں رکے، بدھ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان کے خلاف ایک اور درخواست کی لارجر بنچ میں سماعت ہونا تھی، حاضری لازم نہ ہونے کی وجہ سے اس سلسلے میں ان کو رکنے کی ضرورت نہیں تھی۔


اب صورت حال یہ ہے کہ عمران خان واپس لاہور آکر زمان پارک میں مقیم ہیں اور سیشن  عدالت اسلام آباد نے ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کئے ہیں،ا س کی ان کو پروا نہیں، اس سلسلے میں اب ان وارنٹوں کی تعمیل کا کیا بننا ہے یہ تو وکلاء ہی جانیں یا عدالتوں کو علم ہو گا تاہم عدالتوں کے احترام والا بیانیہ تو سامنے ہے کہ جہاں سے ریلیف کی توقع تھی وہاں گئے اور جہاں فرد جرم عائد ہو کر ٹرائل شروع ہونا تھا وہاں کی پرواہ نہیں کی، یوں محاذ آرائی اور عدم استحکام کا سلسلہ تو چلا ہی جا  رہا ہے اور عدالتی احترام بھی اپنی سہولت کے پیش نظر ہی کیا جاتا ہے۔
دکھ یہ ہے کہ آئی ایم ایف مسلسل دباؤ بڑھاتا جا رہا ہے، ہم معاشی عدم استحکام کے باعث مجبور ہیں، عوام پر بوجھ بڑھ رہا ہے لیکن ہمارے سیاسی زعماء اپنے مفادات کے تحفظ کی جنگ لڑتے چلے جا رہے ہیں، میں آج اس تحریر کے ذریعے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آئی ایم ایف نیک نیتی سے ہمیں راہ راست پر لانے کے لئے یہ سب کچھ نہیں کر رہا، وہ امریکی دباؤ یا اشارے پر دباؤ بڑھا رہا ہے۔ نشانہ ہمارا دفاعی نظام (ایٹمی) پروگرام ہے اس لئے لازم ہے کہ پوری قوم متحد ہو کر حالات کا مقابلہ کرے اور پہل خود سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کو کرنا ہوگی۔ہمارے اس موقف میں تسلسل ہے کہ قومی مفادات کے لئے قومی مفاہمت ضروری ہے اور اس کے لئے ہر سیاسی جماعت کو اپنی انا ترک کرکے مل بیٹھنا ہوگا کہ متفقہ فیصلے ہوں اور قوم بھی ساتھ دے۔

مزید :

رائے -کالم -