صحافی درد سے نجات کے منتظر
انضمام العیش
صحافت کو ایک مقد س شعبہ یا فریضہ سمجھا جاتا ہے اور اس کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاحات میں بھی اس کی تقدیس کا رنگ واضح نظر آتا ہے ،اگر ہم مغرب کی بات کریں تو وہاں اس کے لیے جرنلزم کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جس کا مطلب روزنامچہ تحریر کرنا ہے ،جو ایک اکاﺅنٹنٹ یا سادہ الفاظ میں کہوں تو منشی اپنی فیکٹری ،کارخانے یا آرگنائزیشن کے لیے روزتحریر کرتا ہے جبکہ مشرق میں اس کے لیے صحافت کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جو صحیفہ سے نکلا ہے اورجس کا مطلب ہے ”آفاقی پیغام“۔اب اس سے ثابت ہوا کہ صحافت سچائی اور ایمانداری پر مبنی ایک شعبہ ہے اور اسے کسی بھی ریاست کا چوتھا ستون تصور کیا جاتا ہے ،اس شعبے کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ کو ئی بھی ملک ،ریاست یا سلطنت اس وقت تک مستحکم اور کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک اس میں صحافت آزاد اور مضبوط نہ ہو،ایک صحافی کی ذمہ داری صرف ریاست کے کاموں پر تنقید کرنا نہیں ہوتی بلکہ اس کے اچھے اقدامات کو بھی عام شہریوں تک پہنچانا صحافی کا اہم فریضہ ہے ،آج صحافت کا عالمی دن منایا جا رہا ہے ، ایک طرف ہر سال اس دن دنیا کے مختلف ممالک میں آزادی اظہار رائے اور صحافیوں کے حقوق پر سیمینارز کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں ان کی فلاح ،ترقی اور آزادی اظہار کے لیے بلندو بانگ دعوے کیے جاتے ہیں لیکن دوسری جانب آزادی صحافت کے دعوے کرنے والوں نے ہمیشہ صحافت کو قید کرنے کی کوشش کی ہے ،پاکستان صحافیوں کے لیے خطر ناک ترین ممالک میں ساتویں نمبر پر آگیا ہے ،صحافیوں کی عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ کی رپورٹ کے مطابق 1992سے 2015تک دنیا بھر میں 1123صحافی خبر دیتے ہوئے خود خبر بن گئے ،،اسی عرصہ میں پاکستان میں 75صحافیوں جبکہ 6میڈیا ورکر زکو قتل کیا گیا ،1992اور 1993میں پاکستان کے اندر کسی صحافی کا قتل نہیں ہوا ،1994میں 2صحافی محمد صلاح الدین اور محمد صمدانی وارثی سچائی کے دشمنوں کی گولیوں کا نشانہ بنے،1995اور 1996 پاکستان میں صحافیوں کے لیے امن کے سال ثابت ہوئے، ان دو سالوں میں کسی بھی صحافی کو ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے موت کے کھاٹ نہیں اتارا گیا ،1997میں رونامہ خبیریں سے تعلق رکھنے والے زیڈ اے شاہد بم دھماکے میں مارے گئے جبکہ 1998اور 1999کے سال بھی صحافیوں کے لئے پرامن رہے، 2000میں روزنامہ امت کے کرائم رپورٹر کو قتل کیا گیا ، اسی طرح بالترتیب 2001میں 1،2002میں 2،2003میں 1، 2004میں 1، 2005میں 2 ،اور2006میں 3صحافیوں کو سچ بولنے کے جرم میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش کرا دیا گیا ،2006کے بعد پاکستان میں صحافیوں پر ظلم و تشدد اور ان کے قتل میں اضافہ ہو گیا،،2007میں سچائی کے پانچ چراغ( محبوب خان ،روزنامہ پاکستان کے نور حاکم خان ، اے آر وائے کے محمد عارف،رونامہ جنگ کے زبیر احمد مجاہد اور ڈی ایم ڈیجیٹل کے جاوید خان) بجھا دیے گئے ،اسی طرح 2008 میں 6، 2009میں 8،2010میں11، 2011میںبھی 11، 2012میں 9 جبکہ 2013میں 8صحافیوں کو پیشہ ورانہ ذمہ داریا ں نبھاتے ہوئے قتل کیا گیا ،2014میں سات صحافیوں اور میڈیا ورکز ارشاد مستوئی ،غلام رسول ،شان داہر،وقاص عزیز خان ،محمد خالد، اشرف ارائیں اور اعجاز مینگل کو سچ بولنے اور لکھنے کی پاداش میں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا ،پاکستان میں آزادی صحافت کا تصور ایک خواب بنتا گیا کیونکہ ہر دور میں صحافیوں کو قتل کرکے آزادی صحافت پر قدغن لگا یا گیا ،صحافی جنہوں نے قیام پاکستان سے لیکر اب تک ہر صورتحال میں ملک کی بہتری کے لیے اپنا کرادر ادا کیا ہے آج بھی 1992سے شروع ہونے والے اس درد تسلسل سے نجات کے منتظر ہیں ،شرپسند گروہ ہوں یا مسلح ونگ رکھنے والی سیاسی جماعتیں ،ملکی ادارے ہو یا کرپٹ مافیا صحافیوں کو ہر طرف سے خطرات کا سامنا ہے،ان کے تحفظ کے لیے نہ تو حکومت کی طرف سے کوئی اقدامات کیے گئے اور نہ ہی میڈیا مالکان کی طرف سے کیونکہ ان سب کو تو آمدنی سے غرض ہے ،بعض اخبارات اور ٹی وی چینلز میں 6,6ماہ تک صحافیوں کو تنخواہیں نہیں ملتیں لیکن پھر بھی ملک میں جمہوریت کا قیام ہو یا عدلیہ کی بحالی ،اس کا سہرا صحافیوں کے سر جاتا ہے جنہوں نے ہردور میں حق اور سچ کی آواز کو بلند کیا،،پاکستان میں صحافیوں کا مستقبل زیادہ تابناک نظرنہیں آ رہاکیونکہ اب تک ملک میں صحیح معنوں میں جمہوریت نہیں آئی ،موجودہ جمہوریت آمریت کا دوسرا نام ہے اس لیے ہم صحافیوں کواپنے شہید بھائیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ صحیح معنوں میں جمہوریت کے نفاذ ،آزادی اظہار رائے اور اپنے حقوق کے لیے جدو جہد جاری رکھنا ہو گی