حقائق سے نظریں چرانے کی غلطی نہ کریں
خدا کا شکر ہے کہ اب انہیں کچھ افاقہ ہے۔ انہوں نے عورتوں کی طرح شورمچانے اور شکوے شکایات کرنے کا جو سلسلہ شروع کر رکھا تھا وہ اب رُکا ہوا ہے۔
یہی دعا ہے کہ ’’وقفہ ‘‘ مختصر نہ ہو، بلکہ طویل ہو۔ ویسے اس کا انحصار تو اس بات پر ہے کہ جس حکیم یا ڈاکٹر نے انہیں جو دَوا دی ہے، وہ کس حد تک موثر اور مفید ہے۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ وہ دَوا دوبارہ مل بھی سکتی ہے یا نہیں۔ بہر حال، جتنا وقت موصوف عورتوں کی طرح شور مچانے اور شکوئے شکائیتیں کرنے سے باز رہ سکیں، اُن کے لئے ہی نہیں،ان کے بہی خواہوں لئے بھی بہتر ہوگا۔ یہ ’’ ریلیف‘‘ اس لئے ضروری ہے کہ انہیں ہذیانی کیفیت میں دیکھ کر اور پھر نسوانی انداز میں گلے شکوے سن کر ہمیں سخت کوفت ہی نہیں پریشانی بھی ہوتی ہے۔ کیا یہ پریشانی والی بات نہیں کہ اللہ کا کوئی بندہ، ٹھیک ٹھاک حالت میں اچانک عورتوں کی طرح شور مچانا شروع کر دے اور اٹھتے بیٹھتے شکوئے شکائیتیں کرنے لگے۔ عورتیں جس طرح ایک دوسری کو طعنے دے کر اپنا غصہ نکالا کرتی ہیں، وہی انداز وہ مرد ہوتے ہوئے اپنالیں تو ایسے شخص کی حالت پر دکھ اور افسوس تو ہوتا ہی ہے ناں۔ کم از کم حیرت ضرور ہوتی ہے کہ اس اللہ کے بندے کو بیٹھے بٹھائے کیا ہو گیا ہے۔
سابق صدرِ پاکستان اور پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے قائد آصف علی زرداری کی حالت ان دنوں کچھ ایسی ہی ہے میاں نوازشریف جو کل تک ان کے سیاسی رفیق ہوا کرتے تھے اور زرداری صاحب بدنام زمانہ مفاہمت کی سیاست کے حوالے سے میاں نوازشریف کی خاطر ’’فرینڈلی اپوزیشن ‘‘ کا طعنہ بھی برداشت کرتے رہے، آج وہی میاں نوازشریف، سیاسی ناہمواریوں کے سبب زرداری صاحب کے دوست نمبر ون کی بجائے دشمن نمبرون قرار پائے ہیں۔ زرداری صاحب کو شکوہ ہے کہ میاں نوازشریف نے انہیں دھوکہ دیا ہے ان کے ساتھ بڑی بے ایمانی کی ہے۔ (یہ بتایا نہیں کہ بے ایمانی کیا کی گئیاور دھوکہ کیا دیا) میاں صاحب کی بے ایمانی اور دھوکے کو یاد کر کے زرداری صاحب جب ہذیانی کیفیت میں گفتگو کرتے ہیں، وہ ان کے خیر خواہوں کو پریشانی میں مبتلا کر دیتی ہے کہ زرداری صاحب کی حالت دیدنی ہوتی ہے۔ مثلاً جب وہ یہ کہتے تھے کہ اب میاں صاحب کا فون آئے گا تو میں نے فون اٹھانا ہی نہیں۔۔۔ میں نے تو انہیں اپنی سوچ میں بھی نہیں آنے دینا ہے۔۔۔ اب انہیں پتہ لگ جائے گا کہ میں ان سے کیا سلوک کروں گا۔۔۔ اب میں نے ان کی کوئی بات نہیں سننی ہے، انہیں کوئی سہارا دینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وغیرہ وغیرہ۔
زرداری صاحب کی ہذیانی کیفیت کا ایک اور نمونہ بھی ملاحظہ فرمائیں۔۔۔ میاں صاحب کو معلوم ہو جانا چاہئے کہ اب ہم پنجاب ان سے واپس لے کر پورے ملک پر پیپلزپارٹی کی حکومت قائم کریں گے۔۔۔ میاں صاحب کو بھگا بھگا کر تھکائیں گے انہیں اقتدار کے ایوانوں سے نکال کر گھر بھیجا جائے گا۔ وہ اپنے گھر نہیں بلکہ کسی دوسرے گھر جائیں گے۔۔۔لانڈھی جیل میں ان کے لئے کھانا بھجوانے کا انتظام ہم کریں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔ آصف علی زرداری کے خیر خواہ کے طور پر یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ وہ جس نسوانی انداز میں غم و غصے کا اظہار کرنے لگے ہیں ، وہ کسی طرح بھی ان کے شایانِ شان نہیں ہے۔ یار لوگ تو انہیں نڈر، دلیر حوصلہ مند اور مردوں کی طرح گفتگو کرنے والا سیاستدان قرار دیتے رہے ہیں۔ سینئر صحافی خوشنود علی خان اور صحافتی تاریخ کے روشن باب جناب مجید نظامی (مرحوم) نے آصف علی زرداری کے بارے میں جو اچھے الفاظ ادا کئے، انہیں فراموش یا نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ نظامی صاحب (مرحوم) نے تو زرداری صاحب کو ’’مرد حُر‘‘ کا فخریہ خطاب دیا تھا۔ گزشتہ دنوں زرداری صاحب نے میاں نوازشریف سے جس انداز میں شکوے شکائیتیں کیں، وہ سب سن کر یقیناً نظامی صاحب کی روح تڑپ اٹھی ہوگی۔ ان (آصف علی زرداری ) سے جس حوصلے کی توقع تھی، اس کے برعکس ان کی شخصیت سامنے آئی۔ کراچی جیل میں جتنا عرصہ انہوں نے گزارا، اس دوران کئی کہانیاں افسانوی انداز میں سننے کو ملتی رہیں۔ ان کے لئے تو ’’ایک زرداری سب پر بھاری‘‘ کا نعرہ کچھ اس انداز سے لگتا رہا کہ ان کے بارے میں ’’ مسٹر ٹین پرسنٹ سے ہنڈرڈ پرسنٹ تک‘‘کئی نعرے دب کر رہ گئے تھے۔ ان کا نیا انداز دیکھ کربعض دل جلے، اگر یہ کہنے لگیں کہ ’’ایک زرداری ، عورتوں پر بھاری‘‘ تو پھر کیا ہوگا؟ آصف علی زرداری سوچیں کہ آخر انہوں نے اس کی نوبت کیوں آنے دی! یہ بھی تو ممکن ہے کہ یارلوگ مجید نظامی( مرحوم) کے دیئے ہوئے خطاب میں ترمیم کردیں اور ’’حردِحر‘‘ کی بجائے ’’ خاتون حُر‘‘ کہہ دیں۔
ایسے لگتا ہے کہ آصف علی زرداری اپنے معاملات میں بہت بری طرح الجھے ہوئے ہیں۔ اپنے دوستوں اور ساتھیوں (ڈاکٹر عاصم حسین اور، ماڈل ایان) کی گرفتاری کے بعد وہ بہت بے چین رہے۔ خداخدا کرکے ماڈل ایان علی کی ضمانت ہوئی۔ ماڈل ایان علی داستانیں لئے ہوئے (آصف علی زرداری کے حوالے سے بھی )جیل سے باہر گھوم رہی ہیں۔ مخالفین بار بار پوچھتے ہیں کہ بتایا جائے، ماڈل ایان کا آصف علی زرداری صاحب سے کیا تعلق ہے؟ ڈاکٹر عاصم حسین کے حوالے سے بھی ایسی ایسی کہانیاں سننے کو ملیں کہ ان کو سزا سے بچانا محال دکھائی دیتا تھا۔ جن دنوں سندھ کابینہ کے رکن شرجیل میمن ملک سے باہر رہنے پر’’ مجبور‘‘ تھے، اس وجہ سے بھی آصف علی زرداری صاحب کافی ٹینشن میں تھے۔ اب شرجیل میمن پاکستان آگئے ہیں تو ان کے بارے میں فکر انہیں کھائے جارہی ہے۔ گزشتہ مہینے آصف علی زرداری کے تین قریبی اور اہم ساتھی لاپتہ ہونے سے بھی ٹینشن بڑھ گئی ہے۔ کچھ اور مسائل بھی ہوسکتے ہیں، جن کی وجہ سے آصف علی زرداری ذہنی طور پر سخت پریشان ہوں۔اُن کے لئے ایک پریشان کن مسئلہ عمران خان بھی ہوسکتے ہیں کہ وہ کسی نہ کسی ایشو پر اپوزیشن لیڈر کے طور پر آگے بڑھتے دکھائی دیتے رہتے ہیں جبکہ زرداری صاحب پیپلز پارٹی ہی کو دوسری سب سے بڑی پارٹی دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کی اکیلی جان کو ایک نہیں کئی دکھ پریشان کئے ہوئے ہیں۔ ہر دکھ تو وہ لوگوں سے شیئر نہیں کرسکتے ناں۔ اسی عالم میں ہذیانی کیفیفت میں مبتلا ہوگئے ہوں گے:
پتہ کیسے چلے، دنیا کو ، قصرِ دل کے جلنے کا
دھویں کو راستہ ملتا نہیں، باہر نکلنے کا
حالات کچھ بھی ہوں، آصف علی زرداری کو خود پر قابو پانے کے بارے میں سوچنا چاہئے کہ ان کا امیج متاثر نہیں ہونا چاہئے۔ انہوں نے ایک غلطی اس وقت کی تھی، جب دانت پیس پیس کر فوج کے حوالے سے تقریر کی تھی۔ اب جس انداز میں وہ وزیر اعظم نواز شریف سے شکوے شکائتیں کرتے رہے ہیں، وہ انداز ان کے شخصی اور سیاسی، دونوں ہی حوالوں سے نامناسب ہے۔ سیاست کے میدان میں ان کی حالت یہ ہے کہ وہ جس عمران خان کے ساتھ چلنے کی بات کئی بار کرتے رہے، اسی عمران خان نے انہیں کھری کھری سناکر ان پر سنگین الزامات بھی لگائے ہیں۔ آصف علی زرداری کی فہم و فراست کا یہ عالم ہے کہ وہ عمران خان کو جعلی پٹھان اور ناجانے کیا کچھ کہہ رہے ہیں۔ میاں نواز شریف پر بھی انتہائی غلط اور نامناسب انداز سے غصہ نکال رہے ہیں۔ یہ انداز گفتگو ان کی شخصیت ہی نہیں، سیاست کے لئے بھی نقصان ثابت ہو رہا ہے۔ آصف علی زرداری کو اس بات کا شاید احساس نہیں کہ ان کی ’’شعلہ بیانی‘‘ اور بے تُکی دھمکیوں کی وجہ سے ان کے جانشین بلاول بھٹو زرداری باربار پس منظر میں چلے جاتے ہیں اور یہ صورت حال پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو بہت چبھتی ہے وہ بلاول کو فرنٹ فٹ پر اورتقریر کے موقع پر آزادی کے ساتھ بولتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر آصف علی زرداری خود کو موجودہ اندازِ گفتگو اور سیاسی حکمت عملی کے حوالے سے سولہ آنے درست سمجھتے ہیں تو حقائق سے نظریں چرانے کی غلطی نہ کریں۔ ایسا نہ ہو، وہ یہ شعر پڑھتے رہ جائیں:
بارشِ سنگ میں، شیشوں کو بکھرنا تھا، مگر
مفت بدنام ہوئے، آئینہ خانے والے