بسارک چیمبر آف کامرس کا آئندہ صدرپاکستان سے

بسارک چیمبر آف کامرس کا آئندہ صدرپاکستان سے
بسارک چیمبر آف کامرس کا آئندہ صدرپاکستان سے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

زنس لیڈر افتخار علی ملک نے ساتویں بار مسلسل سارک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا صدر منتخب ہو کر ایک ریکارڈ قائم کر دیا ہے،لیکن حال ہی میں اسلام آباد میں سارک چیمبر آف کامرس کی تین روزہ کانفرنس کے بعد سارک ممالک کے آٹھ نائب صدور نے متفقہ طور پر افتخار علی ملک کو سارک چیمبر آف کامرس کا آئندہ دو سال کے لئے سینئر نائب صدر منتخب کر لیا ہے، جس کا صاف مطلب ہے کہ2020ء میں سارک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا صدر پاکستان سے ہو گا اور روایت ہے کہ جس بزنس مین کو سینئر نائب صدر منتخب کیا جاتا ہے، صدارت کا تاج بھی اُس کے سر پر سجا دیا جاتا ہے، ویسے یہ روایت لاہور چیمبر آف کامرس میں بھی ہے کہ سینئر نائب صدر کو آئندہ انتخابات میں صدر کا عہدہ دے دیا جاتا ہے۔
سارک چیمبر آف کامرس کی تین روزہ تقریب اسلام آباد میں منعقد ہوئی، جس میں سارک چیمبر آف کامرس کے ہیڈ آفس کی تکمیل کو سراہا گیا۔اس اجلاس سے پہلے سری لنکا سے نیا صدر منتخب کرنے کی تقریب سری لنکا میں ہوئی تھی،جہاں سے سینئر نائب صدر روان ایدر سنگھے کو 2018ء سے 2020ء تک سارک کا صدر بنایا گیا ہے۔

سری لنکا کے صدر کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے سارک چیمبرکے سینئر ناب صدر افتخار علی ملک نے بتایا، سری لنکا پاکستان سے دوستی کے تعلقات مزید گہرے کرنا چاہتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ سارک چیمبر کے نومنتخب صدر روان ایدر سنگھے نے ویسے تو تمام عہدیداروں سے بہت اچھا برتاؤ کیا،لیکن میرے ساتھ خصوصی وقت گزارا اور اپنے بارے میں سب کچھ بتایا۔

موجودہ صدر سادہ سیلف میڈ انسان ہے اور اس نے رئیل سٹیٹ میں بہت نام پیدا کیا ہے۔ اپنے گھر پر دی گئی خصوصی دعوت میں سارک کے مستقبل پر بات چیت کرتے ہوئے اُس نے کہا کہ اگر سارک چیمبر کو صرف صنعت و تجارت تک محدود کر دیا جائے تو ساؤتھ ایسٹ ایشیا کے ممالک کو بہت زیادہ معاشی فوائد حاصل ہوں۔

سارک کے آٹھ ممالک کے نائب صدور نے کھل کر اِس بات کا تذکرہ کیا کہ سیاست کو سارک چیمبر کے معاملات میں شامل نہیں ہونا چاہئے۔
سینئر نائب صدر بننے پر اب میری ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہوگیا ہے، ویسے تو یہ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ بروقت اقدامات کر کے مَیں نے سارک چیمبر کا ہیڈ آفس پاکستان میں قائم کرنے کی قرارداد پیش کی، جسے دوسرے دوست ممالک کے نائب صدور نے پسند کیا۔

اگرچہ تھوڑی سی مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا،لیکن تجارتی سطح پر تعلقات نے مسئلہ حل کرنے میں بہت مدد دی۔ اب یہ بھی میری ذمہ داری تھی کہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں سارک چیمبر کی ایک عالیشان بلڈنگ تعمیر کروا دی۔

خدا کا شکر ہے کہ دن رات محنت کرنے کے بعد اب سارک چیمبر کی دس منزلہ بلڈنگ تیاری کے آخری مراحل میں ہے اور اِسی سال دسمبر تک مکمل تیار ہو جائے گی،حال ہی میں تین روزہ اجلاس کے بعد ہر کسی نے میری خدمات کو سراہا اور شاباش دی کہ مَیں نے سارک چیمبر کو اتنی بڑی اور خوبصورت بلڈنگ تعمیر کرنے میں اپنا دن رات ایک کر دیا، سو کروڑ سے زیادہ مالیت سے بننے والے سارک چیمبر کے ہیڈ آفس میں تمام سہولتیں موجود ہیں، کانفرنس ہال سے لے کر ریسرچ سینٹر اور میڈیا روم کے علاوہ سارک ہیڈ کوارٹر اخراجات میں خود کفیل ہو گا،کیونکہ اس کا بہت سا حصہ کمرشل ہو گا، جس سے معقول آمدنی حاصل ہو گی،مجھے تو خوشی ہے کہ سارک ممالک جتنا خوبصورت اور باوقار ہیڈ کوارٹر چاہتے تھے وہ اس سے بڑھ کر متاثر کن بنا ہے۔
سارک چیمبر کے نائب صدر کی حیثیت سے بھی مَیں نے اپنی خدمات بہت دیانتداری سے انجام دی ہیں،لیکن سینئر نائب صدر منتخب ہونے کے بعد میری ذمہ داروں میں بہت اضافہ ہو گیا ہے۔

اب آٹھوں ممالک کو صنعت و تجارت میں ایک دوسرے کے قریب لانے اور مستحکم معاشی تعلقات استوار کرنے کے لئے مجھے دن رات محنت کرنی پڑے گی۔

حقیقت تو یہ ہے کہ مَیں نے صنعت و تجارت کی سیاست میں 33سال پہلے قدم رکھا تھا،لیکن سکون سے ایک دن بھی نہیں گزارا۔ سبب یہ ہے کہ جو لوگ چیمبر یا فیڈریشن میں ووٹ دیتے ہیں اُن کے مسائل روزانہ کی بنیاد پر پیدا ہوتے ہیں اور ان کے قدم کے ساتھ قدم ملائے بغیر کوئی بزنس لیڈر نہیں بن سکتا۔
اس مرتبہ پاکستان میں سارک ممالک کی سربراہی کانفرنس ہونی تھی،لیکن سیاسی معاملات آڑے آ گئے،لیکن اب سارک ہیڈ کوارٹر کے افتتاح پر میری پوری کوشش ہے کہ آٹھوں ممالک کے سربراہ اس میں شرکت کریں، ویسے بھی جغرافیائی طور پر ہم ہمسائے تبدیل نہیں کر سکتے۔

اگر شمالی کوریا اور جنوبی کوریا آپس میں مل کر بیٹھ سکتے ہیں اور اپنی تمام تلخیاں بھلا کر نئے سرے سے دوستی کے تعلقات کے ساتھ امن کا ایک نیا سفر شروع کر سکتے ہیں تو پاکستان اور انڈیا کیوں ایک ٹیبل پر بیٹھ کر معاملات بہتر نہیں کر سکتے۔

اب سارک چیمبر کی ایک بھاری ذمہ داری یہ بھی ہے کہ تمام ممالک کے درمیان سیاسی معاملات کی بہتری کے لئے نئی حکمتِ عملی وضع کی جائے،کیونکہ دُنیا تیزی سے معاشی مسائل حل کر رہی ہے۔ساؤتھ ایسٹ ایشیا صرف آپس کے چھوٹے چھوٹے معاملات حل نہ ہونے کی وجہ سے ان ثمرات سے محروم ہے، جو اسے سارک چیمبر کا ممبر ہونے کی وجہ سے حاصل ہو سکتے ہیں۔ باہمی معاشی تعلقات کو فروغ دینے سے سارک ممالک کے تمام ممبر ممالک کی معیشت ترقی کرے گی۔

مزید :

رائے -کالم -