فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر417

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر417
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر417

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہماری ایک روایت یہ بھی ہے کہ ہم ہر چیز پر پردہ ڈالتے ہیں کیونکہ بچپن سے مولوی صاحب سے سنتے آئے ہیں کہ۔۔۔’’اے لوگو!دوسروں کے عیبوں کی پردہ پوشی کرو‘‘ہم مولوی صاحب کی بہت قدر کرتے ہیں ۔ان سے ڈرتے بھی ہیں اور یہی مناسب سمجھا کہ ’’پردے میں رہنے دو پردہ نہ اٹھاؤ۔‘‘
پچھلے دنوں ماہنامہ ’’تخلیق‘‘لاہور کے ایک شمارے میں اشفاق نقوی صاحب کا ایک بہت دلچسپ مضمون فلم’’قسم اس وقت کی‘‘کے بارے میں پڑھا۔جس میں انہوں نے اس فلم کی تکمیل کے دوران اپنی وابستگی کے زمانے کے کچھ کچھ واقعات ،کچھ تجربات اور کچھ تاثرات بیان کیے گئے ہیں۔اس لحاظ سے مضمون ’’ثقہ‘‘ہے کہ اشفاق نقوی صاحب اس زمانے میں پاکستان ائیر فورس سے منسلک تھے اور سرکاری طور پر انہیں اس فلم کے انتظامات کرنے پر مامور کیا گیا تھا۔انہوں نے بڑی دلچسپ روداد بیان کی ہے اور گویا کوزے میں دریا بند کر دیا ہے۔ان کا یہ مضمون دلچسپ بھی ہے اور سبق آموز بھی بلکہ عبرت ناک تھی ۔عبرت تو بہت پہلے حا صل کی جا چکی ہے۔خدا جانے کہ کسی نے اس سے سبق بھی سیکھا یا نہیں ۔بظاہر تو اس کا جواب نفی میں ہے۔

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر416 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ان کی زبانی یہ داستان سننے سے پہلے مناسب ہے کہ ہم بھی کچھ اس کے بارے میں حاشیہ آرائی کر دیں اور اپنی معلومات آپ لوگوں تک پہنچانے کی سعادت حا صل کریں۔
فلم ’’قسم اس وقت کی ‘‘1929میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی ۔اس کی شان نزول یہ تھی کہ پاکستان ائیر فورس کے کچھ اعلٰی عہدے داروں کو یہ احساس ہوا یا انہیں یہ احساس دلایا گیا کہ پاک فضائیہ کو دنیا سے متعارف بنانے کے لیے ایک فلم بنانی چاہیے جس میں ائیر فورس کی تمام خوبیوں اور ہنر مندیوں کا نچوڑ بھی ہو اور یہ ایک کمرشل فلم بھی ہو ۔یعنی کہ دستاویزی بھی ہو اور کمرشل بھی۔دستاویزی اس لیے کہ دنیا پاک فضائیہ کی ہنرمندی اور مہارت سے واقف ہو سکے اور کمرشل اس لیے کہ اس کو زیادہ سے زیادہ لوگو ن کو پاک فضائیہ کے بارے میں معلومات حاصل ہوں ۔یہ بہت نادر اور مفید خیال تھا بلکہ نیک خیال تھا۔جس نے بھی یہ آئیڈیا سوچا اور پیش کیا اس کے خلوص،جذبہ حب الوطنی ،اور دانش مندی کی داد دینی چاہیے۔مگر بد قسمتی کے ساتھ یہا ں وہ معاملہ ہواکہ بقول شاعر۔۔۔
میں خیال ہوں کسی اور کا 
مجھے سوچتا کوئی اور ہے
اس خیال کو عملی جامہ بنانے کے لیے جن صاحب کو موزوں ترین سمجھا گیا ان کا نام تھا اے،جے،کاردار۔ان کے ساتھ قدرت نے ایک عجیب مذاق کیا تھا ۔انہوں نے ایک حقیقت پسندآنہ آرٹ فلم ’’جاگو ہوا سویرا‘‘کے نام سے بنائی تھی ۔اس کے لیے سرمایہ ایک حوصلہ مند فرد نے دیا تھا اس زمانے میں نیو رئیل فلمز کا بہت چرچا تھا۔اٹلی میں ،فرانس میں ،سوئیڈن میںیہاں تک کہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں بھی اس قسم کی فلمیں بن رہی تھیں ۔منافع ہو یا نہ ہو اس طرح کی فلمیں بنانے سے عالمگیر شہرت ضرور مل جاتی تھی ۔اور اس طرح اس کے ملک کو بھی ایک اعزاز حاصل ہو جاتا تھا ۔اٹلی میں روزے لینی،ڈے سیکا وغیرہ نے اپنی فلموں سے ساری دنیا کو چونکا کہ رکھ دیا ۔بھارت میں ستیہ جیت رے نے اس حوالے سے بہت نام پیدا کیا ۔ان کے دیکھا دیکھی پاکستان میں بھی چند لوگوں نے اس نئی لہر کے مطابق ایسی فلمیں بنانے کے تجربے کیے مگر وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔نہ جانے انہیں لہریں کہاں سے کہاں بہا کر لے گئیں۔ان کے نام گنوانا بھی مفاد عامہ کے حق میں نہیں ہے اس لیے پردے میں ہی رہنے دیجئیے۔
اے ، جے ،کاردار صاحب کا پس منظر یہ ہے کہ وہ خالص لاہوریے ہیں ۔کاردار خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جن میں سب سے ممتاز اور نمایاں نام اے،آر،کاردار کا ہے۔انہوں نے لاہور میں فلم سازی کے ابتدائی تجربات کیے۔لاہور کا پہلا اسٹو ڈیو بھی انہوں نے دریائے راوی کے کنارے بنایا تھا۔ایم اسماعیل اور کچھ دوسرے سر پھرے بھی ان کے ساتھ تھے۔کاردار صاحب نے لاہور میں فلم سازی کا آغاز کرنے والوں میں سے ہیں ،پھر وہ کلکتہ چلے گئے اور براستہ کلکتہ بمبئی پہنچ کر دم لیا۔اے آر کاردار کو محض فلمیں بنانے کا شوق تھا جو بعد میں ان کا کاروبار بن گیا۔انہوں نے ہمیشہ کمرشل فلمیں بنائیں ۔نام بھی کمایا اور پیسے بھی۔شاید اس لیے کہ اس وقت تک رئیلسٹک فلمیں بنانے کا چرچہ نہیں ہوا تھا حا لانکہ اس زمانے میں بھی نیو تھیٹرز نے بہت معیاری اور حقیقی زندگی سے قریب خوب صورت فلمیں بنا کر دھومیں مچا دی تھیں مگر یہ سب کمرشل فلمیں تھیں ۔کاروباری اعتبار سے بھی بہت کامیاب تھیں اور آج تک ناقابل فراموش ہیں ۔مگر اے،آر ،کاردار صاحب (عبدالرشید کاردار)اس چکر میں نہیں پڑے۔وہ کامیاب اور معیاری کمرشل فلمیں بناتے رہے ۔ایک زمانے میں ہندو ستان کے ممتاز ترین فلم سازوں اور ہدایت کاروں میں شمار کیے جاتے تھے۔
اے ،آر کاردار صاحب جب بمبئی کی فلمی صنعت میں قدم جما لیے تو لاہور کے دوستوں اور رشتے داروں کو بھی فراموش نہیں کیا ۔اشفاق ملک صاحب جنہوں نے پاکستان کی فلمی صنعت میں بہت نام اور پیسہ کمایا۔اور ایک فلم اسٹوڈیو بھی بنایا تھا ،یہ ان کے بھانجے تھے۔جنہیں کاردار صاحب نے اپنے پاس بمبئی میں بلا کر تربیت کی تھی۔انہوں نے نصرت کاردار کو بھی بمبئی بلا کر فلم ’’درد‘‘ کا ہیرو بنا دیا تھا ۔یہ فلم سپر ہٹ تھی پر بدقسمتی سے نصرت صاحب کو دوبارہ ہیرو بننے کا چانس نہیں مل سکا پھر وہ پاکستان آ گئے اور کریکڑ ایکٹر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔وہ تعلیم یافتہ ،شائستہ اور بہت ذہین آدمی تھے۔اگر اداکاری کی جگہ کچھ اور کرتے تو بہت کامیاب ہو جاتے مگر انہیں اداکاری کا شوق تھا لہذاساری زندگی اداکاری کرتے رہے۔وہ ہم سے سینئر تھے اور مگر مہربان اور بے تکلف دوست تھے۔ان کے کئی واقعات ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں۔(جاری ہے )

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر418 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں