پروٹوکول

پروٹوکول
پروٹوکول

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اولف پالمے سویڈن کا وزیر ِ اعظم تھا۔ذوالفقار علی بھٹو اور اولف پالمے کی ایک ہوٹل میں سات بجے ملاقات طے تھی۔بھٹو انتظار کررہے تھے مگر اولف پالمے کا کہیں کوئی نشان نہیں تھا۔پندرہ منٹ بعد سویڈن کا حاضرِ سروس وزیرِ اعظم ہانپتا ہوا آیا اور معذرت کرنے لگا کہ مجھے کار پارکنگ کے لئے جگہ نہیں مل رہی تھی۔اس کے لئے کئی فرلانگ دور گاڑی پارک کرکے مجھے بھاگ کے آنا پڑا اور یہ کہہ کر وہ مسکرا دیا۔25 فروری2014ءکو بھٹو صاحب کے داماد اور اس ملک کے سابق صدر کوئٹہ شہر کے دورے پر تھے۔ہر طرف وی وی آئی پی پروٹوکول کے لئے روٹ لگا تھا۔اسی ٹریفک کے بے ہنگم رش میں ایک عورت کے ہاں ایک رکشے میں ایک بچے نے آنکھ کھولی۔وہ ہسپتال جانا چاہتی تھی مگر یہ بھول گئی تھی کہ اسے بچہ اس وقت پیدا نہیں کرنا چاہئے تھا کیونکہ اس وقت پروٹوکول روٹ لگا تھا۔
ٹھیک اسی وقت کراچی کی شاہ راہِ فیصل پر ایک کالی لیموزین بے انتہا سیکیورٹی میں گزر رہی تھی اور ٹریفک جام تھا۔اس وقت بھی کسی رکشہ میں کوئی ماں اپنی اولاد کو جنم دے رہی ہوگی یا کوئی بے چارہ اپنا دل تھامے ایمبولینس میں دم توڑ رہا ہوگا، مگر اس ملک کے وزیرِ اعظم کی پروٹوکول میں بریک لگ جاتی تو یقیناً کئی پروٹوکول آفیسرز ساری عمر نوکری بچاتے گزار دیتے۔
جب میں ڈاکٹر بنا تو ایک حلفHippocratic Oath لیا۔اس حلف میں کہیں بھی پروٹوکول کا لفظ درج نہیں تھا۔مگر مجھے نوکری کے دوران معلوم پڑا کہ میں ڈاکٹر سے زیادہ ایک پروٹوکول آفیسر ہوں۔مجھے اپنے سینئرز کے پرائیویٹ مریضوں، رشتہ داروں ، پڑوسیوں،نوکروں ہر کسی کو پروٹوکول دینا ہے۔مجھے اپنے شہر کے امرائ، MNA,s، MPA,s اور کئی دیگر کے بھی دور دور تک جاننے والوں کو پروٹوکول دینا ہے۔اگر میں سرجری کے لئے دستانے پہن کے ہاتھوں کو خون میں تر کئے کھڑا ہوں تب بھی مجھے ان کے پروٹوکول فون سننے ہیں اور YES BOSS کرنا ہے، نہیں تو میں نوکری جانے کے ساتھ ساتھ مار کھانے کا بھی حق دار ہوں گا۔
شروع شروع میں تو بہت برا لگا پھر فون سننے کی عادت ہوگئی۔اس سارے پروٹوکول سسٹم میں مجھے ان غریب لوگوں پرترس آنے لگا جو پرائیویٹ ہسپتالوں کی مہنگائی میں دم نہیں توڑ سکتے تو سرکاری ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں اور یہاں بھی پروٹوکول کے نام پر ان کا حصہ روٹ لگائے کئی وی وی آئی پیز دھونس اور دھمکی سے کھارہے ہوتے ہیں۔میں یہ سوچتا ہوں کہ اگر وی وی آئی پی موومنٹ روٹ سے نکل کر ہسپتال پروٹوکول روٹ میں اپنی اولاد کو جنم دینے غرباءپہنچ بھی جائیں تب بھی ان کو رکشہ میں ہی اپنی اولاد کو جنم دیناہوگا کیونکہ ہسپتال میں بھی وی وی آئی پی کرفیو لگا ہوا ہوتا ہے ۔
ہسپتال ایک طرف، بینک، عدالتیں،اکاﺅنٹس آفیسز،سیکرٹریٹس حتٰی کہ حجام کی دکان تک ہمار معاشرہ پروٹوکول نام کا تیزاب ہاتھ میں لئے کئی غرباءکو جھلسانے کے لئے بے تاب پھر رہا ہے۔اسی پروٹوکول نے رشوت اور سفارش کوجنم دیا ہے ۔ہر انسان کوئی نہ کوئی وی وی آئی پی جیب میں ڈالے گھوم رہا ہے۔ہر جائز نا جائز کام اس پروٹوکول کی مد میں نکالا جارہا ہے اور غریب مررہے ہیں۔ہم سب اسلام کے نام پر مرنے مارنے کو تیار رہتے ہیں مگر اس کے ایک بھی اصول پر عمل کرنے کو تیار نہیں ہیں۔اسلام نے مساوات کا درس دیا مگر ہم سے زیادہ مساوات کا مظاہرہ آج مغرب کرتا نظر آتا ہے۔
22 جولائی 2013 ءکو برطانیہ کے شہزادہ ولیم کے ہاں جب بیٹے کی پیدائش ہوئی تو کیمروں کی آنکھ نے یہ منظر پوری دنیا کو دکھایا کہ ایک شہنشاہ باپ نے بغیر کسی پروٹوکول کے اپنے بیٹے جیورج کو ایک ٹوکری میں کار کی نشست پر رکھا اور اپنی اہلیہ کیتھرین کے ساتھ خود کار کو ڈرائیو کرکے محل کی جانب روانہ ہوگیا۔نہ تو کوئی روٹ لگا، نہ ہی شہر کے تمام پولیس اہلکار اپنے فرائض چھوڑ کر انکی سیکیورٹی پر معمور کئے گئے اور نہ ہی کئی خالی ایمبولینسز، فائر برییگڈز ، ڈاکٹر، نرسز اور ہیلی کاپٹر اس گاڑی کے ہمراہ نظر آئے۔پیدا ہونے والے جیورج برطانوی شاہی خاندان کا شہزادہ اور اس ملک کا آنے والے بادشاہ تھا۔ہمارے ہاں شائد اتنے پرنس جیورج ہیں کہ ہم کنفیوژن میں ہی سب کے لئے پروٹوکول کا بندوبست کرتے رہتے ہیں۔مگر برطانوی شاہی خاندان کے اس چشم و چراغ کی پیدائش پر خوشی تو منائی گئی مگر کسی ایمبولنس میں کسی تڑپتے جسم سے جان نکال کر کسی کے گھر صفِ ماتم نہیں بچھائی گئی۔مغرب میں ایک اور مثال وائٹ ہاﺅس کی بھی ملتی ہے۔
وائٹ ہاﺅس دنیا کے سب سے زیادہ طاقتور شخص کا گھر ہے۔یہ امریکہ کے صدر کا سرکاری مسکن ہے۔حیران کن طور پر وائٹ ہاﺅس امریکہ کی عام عوام کے لئے ہفتے میں چار دن کے لئے کھولا جاتا ہے۔جب امریکہ کا صدر اسی گھر کے ایک کمرے  ” اوول روم“ میں دنیا کے سیاہ سفید کے فیصلے کررہا ہوتا ہے ، عین اسی وقت اس کے ملک کے عام عوام اس کے کمرے کے باہر راہداریوں میں اس کے گھر کی سیر کر رہے ہوتے ہیں۔اب یہاں سوال یہ ہے کہ ہم میں سے کتنے لوگ دنیا کے اس غریب ملک کے پی ایم ہاﺅس، سی ایم ہاﺅس، گورنر ہاﺅ س یا ایوانِ صدر کا نظارہ کر چکے ہیں یا کرنے کی جسارت بھی کر سکتے ہیں؟شائد اس سوال کا جواب مانگنا بھی پروٹوکول کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
مغل دور میں ہندو مہاراجہ اور مغل بادشاہ ہاتھیوں کی فوج کے قافلے لے کر چلا کرتے تھے،جہاں ان کے آگے پیچھے غلاموں کی فوج ہوا کرتی تھی۔ اس دوران اگر کوئی بستی راستے میں آتی تو ہاتھی اپنا راستہ نہیں بدلا کرتے تھے ۔ اکثر غریبوں کے بچے ہاتھیوں کے پیروں تلے آکر مر جایا کرتے تھے مگر یہ مہاراجہ اپنے جاہ و جلال میں کوئی گستاخی برداشت نہیں کرتے تھے۔آج جب لیموزین کے قافلے گزرتے ہیں تو ایسا ہی لگتا کہ ہاتھیوں کی جگہ تو لیموزین نے لے لی مگر آج بھی پروٹوکول کے نام پر مہاراجوں اور مغل شہنشاہوں کے یہ قافلے اپنے پروٹوکول میں کوئی گستاخی برداشت کرنے کوتیار نہیں۔چاہے کتنے ہی غریب اس پروٹوکول کی بھینٹ چڑھ جائیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ روس میں جب خروشچیف روس کا حاکم بنا تو وہ ایک جلسے میں سٹالن کی آمریت کے خلاف زہر اگل رہا تھا۔اتنے میں جلسے سے ایک شخص نے آواز لگائی کہ اس وقت تم کہاں تھے؟ اس پر خروشچیف نے غصے سے چیخ چیخ کر پوچھا کہ کون بولا؟ مگر جب بار بار پکارنے پر کوئی بھی سامنے نہ آیا تو اس نے مسکرا کر کہا ”میں اس وقت وہاں تھا جہاں آج تم ہو“ایک سہمی گونج یہ کہتی ہے کہ جب تک اس ملک کا غریب پروٹوکول کلچر کے سامنے سر کٹاتا رہے گا۔تب تک اس کی اولاد رکشے میں جنم لیتی رہے گی اور وہ کسی وی وی آئی پی روٹ میں پھنسی ایمبولینس میں مرتا رہے گا۔تب تک یہاں کا امیر اس بات سے غافل رہے گا جس طرح خدا نماز کی صفوں میں اسے پروٹوکول نہیں دیتا اسی طرح اسے قبر میں بھی پروٹوکول نہیں ملے گا۔قبر کے سانپ بچھو کسی MNA یا MPA کا فون نہیں سنیں گے اور نہ اس کو حساب کتاب کے وقت کوئی پروٹوکول آفیسر روٹ لگا کر اس کی روح کو Escort کر کے بچا کے جنت میں لے جائے گا۔اسے اپنے اعمال کا جواب دینا ہوگا۔اسے رکشے میں چیختی ماں اور ایمبولینس میں تڑپتے انسان کی تکلیف کا بھی حساب دینا ہوگا ،اور اس وقت نہ تو وہ چیخ چیخ کر کسی کو سزا دے پائے گا اور نہ ہی کوئی اسے وہ دے پائے گا جو تمام عمر اس کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتی آئی ہے، اس کی پروٹوکول ۔

..

 نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -