ہنوز ”تبدیلی“ دور است!

خواتین و حضرات! عمران خان صاحب کا نعرۂ ”تبدیلی“ان کی ساری الیکشن مہم کا مرکزی خیال اور نکتہ تھا جس پر انہوں نے بڑے بڑے کامیاب جلسے کئے اور اکثریتی ووٹ بھی سمیٹے۔ یہاں تک کہ پاکستان کے وزیراعظم کی سیٹ سنبھال لی۔ اس کے مقابلے میں اپوزیشن جماعتوں کے پاس صرف ایک ہی ہتھیار تھا جو انہوں نے خان صاحب کے وزیراعظم بننے کے ایک ہفتہ بعد ہی چلانا شروع کردیا کہ کہاں ہے وہ تبدیلی جس کا اتنا شور و غوغا مچایا گیا۔ اس ”تبدیلی“ کے موضوع پر بہت کچھ لکھا اور کہا گیا۔
قومی اسمبلی کے فلور سے، صوبائی اسمبلیوں کے ایوانوں سے، پریس کانفرنسز میں، جلسوں میں اور اخباری بیانات و انٹرویو وغیرہ کے ذریعے۔ اس سلسلے میں کچھ کمزور اور کچھ قوی ثبوت بھی پیش کئے گئے۔ اس بات میں بھی حقیقت ہے کہ ہماری موجودہ اپوزیشن کے پاس فقط ایک ہی پوائنٹ رہ گیا ہے کہ تبدیلی کہاں ہے؟ تبدیلی آنے یا نہ آنے کے حوالے سے ایک اہم نکتہ ہم نے بھی اٹھایا ہے جو شاید اب تک زیربحث اور زیر تذکرہ نہیں آیا۔
خواتین و حضرات! جیسا کہ آپ جانتے ہیں تبدیلی راتوں رات نہیں آتی۔ خاص طور پر ایسا معاشرہ جہاں بے ایمانی، رشوت، ناانصافی، سرکاری خزانے کا بے جا اور بے دریغ استعمال، حکومتی دولت کی لوٹ مار ایک کلچر بن گیا ہے اور کوئی خاص معیوب نہ سمجھا جاتا ہو۔ جہاں اس کو Justified تصور کیا جاتا ہو۔ یہ جملہ آپ نے اکثر سنا ہوگا: ”یار ہر حکومت ایسا کرتی ہے“، ”کھاتی ہے تو لگاتی بھی ہے“ اور لوگ مطمئن ہو جاتے ہیں کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ ہماری دانست میں پاکستان میں وہ حقیقی تبدیلی ہماری تیسری یا چوتھی جنریشن (نسلوں) کے بعد آئے گی۔
ابھی اس کا دور دور تک کوئی امکان نہیں، جس کا خواب عمران خان صاحب نے دیکھا ہے۔ اس حقیقی تبدیلی کی راہ میں محکمے، نظام، سیاسی بے راہ روی، کاروباری بدعنوانی سے لے کر ایک عام آدمی کے رویّے تک سبھی باتیں شامل ہیں۔ سرکاری ملازمین، تعلیمی اداروں کے اساتذہ، ہسپتالوں کا عملہ، تاجر اور عام دکاندار سے لے کر فیکٹریوں کے مالکان کی اکثریت تک نے وقت کی بے قدری، غیر پیشہ ورانہ طرز عمل، ذخیرہ اندوزی اور اپنے مرضی سے کسی بھی شے کی قیمت بڑھا دینا یا خدمات کے معاوضے میں اضافہ کرنا، اب معمول کی بات بنا لی ہے۔
جس کو عوام نے بھی کڑوا گھونٹ سمجھ کر نگل لیا ہے اور اس امرکو بھی تسلیم کرلیا ہے کہ ان تمام کارروائیوں کو روکنے میں حکومت اور متعلقہ ادارے کچھ ناکام اور کچھ بے بس ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ کچھ قانونی مسائل بھی ہیں۔ مثلاً سپریم کورٹ نے موبائل فون کارڈ پر تمام ٹیکس ختم کرکے حقیقی قیمت لاگو کی تھی، یعنی سو روپے کے کارڈ پر سو روپے کا بیلنس ہی ملتا تھا۔ عبوری فیصلے کے بعد اب سپریم کورٹ کا حتمی فیصلہ آیا ہے کہ موبائل فون کارڈ پر سابقہ تمام ٹیکس بحال کئے جاتے ہیں:
زاہد تیرے عرفان سے کچھ بھول ہوئی ہے
اگر ہم عام گھرانوں کی طرف دیکھیں، بالخصوص ایسے امیر گھرانوں میں جہاں اوپر کی کمائی بھی آتی ہے اور ان کی اولادیں آرام، آسائش اور تعیش کی عادی ہو چکی ہیں اور وہ اپنے بڑوں کو ملازمت یا کاروبار میں دو نمبری کرتے دیکھتے ہیں تو یہ اولاد بھی اس کام کو جائز ہی تصور کرے گی۔
اس وقت 50-60 سال کی عمر کے افراد،جو کسی قسم کی بھی بدعنوانی میں ملوث ہیں، وہ ایسی کسی تبدیلی کو بآسانی قبول نہیں کریں گے جس کے وہ طویل عرصے سے عادی ہو چکے ہیں اور وہ اب ان کی معاشی، معاشرتی اور ثقافتی مجبوری بن گئی ہے:
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
ابھی معاشرے کے یہ افراد، جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے،تبدیلی کی جانب نہیں آئیں گے اور ان کی اگلی نسل بھی اسی راہ پر چلے گی کہ وہ اسی آرام و آسائش کی عادی ہو چکی ہے جو ان کے والدین نے انہیں عطا کی ہے اور یہ سب معاشرے کے صاحب حیثیت اور عزت دار لوگ ہیں جو اتنی آسانی سے کسی سادگی، کفایت شعاری، عاجزی اور قناعت پسندی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ اب یہ ان کی زندگیوں کا حصہ ہے اور اسے ”ضرورت“ کا نام دے دیا گیا ہے:
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
ذرا غور فرمائیں خواتین و حضرات! تقریباً ہر چھوٹا بڑا دکاندار منافع خوری، ذخیرہ اندوزی اور مصنوعی قلت کرکے اشیاء کی قیمتوں کو بڑھا دیتا ہے۔ اس کا نوٹس نہ تو حکومت لیتی ہے،نہ عوام احتجاج کے طور پر اس چیز کی خریداری عارضی طور پر بند کرتے ہیں۔ لفظ ”از خود“ کا استعمال اب تک عدالتی کارروائیوں، معاملات اور قانونی اصطلاح میں دیکھا گیا ہے،لیکن عید، رمضان اور ہر اس طرح کے موقع پر دکاندار ”از خود“ اپنے سامان، اشیاء اور خدمات کی قیمتیں بڑھا دیتے ہیں۔
ہم نے یہ کوئی اہم یا انوکھی بات نہیں کی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب ان لوگوں کی اولادیں یہ سب کچھ دیکھتی ہیں کہ والد محترم کیا کرتے ہیں اور اس پر وہ خاموش رہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آگے چل کر وہ بھی یہی راہ اختیار کریں گے۔ پھر ان کی اولادیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیں گی، تاہم تیسری نسل شاید یہ سوچے کہ یہ سب غلط تھا اور وہ اس تبدیلی کی طرف آئیں جو عمران خان صاحب کا مطمح نظر ہے۔
اس کے علاوہ ہماری کچھ معاشرتی عادات جس سے روپے پیسے کا کوئی تعلق نہیں، وہ محض روایات، عادات اور معمولات کا حصہ ہیں،اِن میں بھی تبدیلی موجودہ نسل لانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرے گی۔
مثلاً قطار نہ بنانا، لفٹ، بس اور ٹرین میں بعد میں آنے والوں کا پہلے سے موجود لوگوں کو دھکا دے کر داخل ہونا، گند پھیلانا اور دیگر کئی معاشرتی و ثقافتی برائیاں ہیں جنہیں کم ازکم دو نسلوں کے بعد تیسری نسل شاید سوچنا شروع کرے گی:
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
ہمارے معاشرے میں وقت، پانی، کھانا وغیرہ ضائع کرنا معیوب تصور نہیں کیا جاتا۔ ابھی اس کو ایک گناہ، زیادتی اور نقصان نہیں سمجھا جاتا۔ کچھ چیزوں کو ہم قانون، تعزیرات اور احکامات سے نہیں بدل سکتے۔ جسے دکھاوا، شومارنا، غیبت کرنا، مغروری دکھانا، وقت کا ضیاع اور دیگر معاشرتی برائیاں جو وقت اور تعلیم کے ساتھ بہتر ہوتی ہیں، اس کے لئے بھی نسلوں کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ عمران خان صاحب نے جس تبدیلی کا عزم اور علم بلندکیا ہے، وہ انہیں ان کے موجودہ دور میں شاید نہ مل سکے۔
ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ شاید لوگ سوچنا شروع کریں کہ ”کہتا تو ٹھیک ہے“، دوسری نسل کہے گی: ”ہاں یار ہمیں ایسا ہی کرنا چاہئے“۔ تیسری نسل تبدیلی پر ایمان لے آئے گی جبکہ چوتھی نسل تبدیلی لے آئے گی ………… بشرطیکہ تبدیلی کا عمل جاری رہے اور حکومت لوگ، ادارے اس جانب سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر سوچیں، صرف پاکستان کے لئے۔ اس سلسلے میں ہمیں خود مثالیں پیش کرنا ہوں گی۔
مثلاً یہی لوگ جب دوسرے ملکوں میں جاتے ہیں تو ان کے روّیے یکسر مختلف ہوتے ہیں۔ وہ جلتا سگریٹ بے پرواہی اور بے نیازی سے سڑک پر نہیں پھینکیں گے۔ابھی ہمیں دو تین عمران خانوں کی ضرورت ہے جو اس تبدیلی کے عمل کو آگے لے کر چلیں، کیونکہ:
ابھی ہوس کو میسر نہیں دلوں کا گداز
ابھی یہ لوگ مقام نظر سے گذرے ہیں