ایک دن حضرت جلال الدین رومیؒ چند لڑکوں کے ہمراہ چھت پر تھے کہ ایک لڑکے نے کہا ”آﺅ اس چھت پر کود کر دوسری چھت پر چڑھیں۔“ مولاناؒ نے فرمایا ”اس قسم کی اُچھل کود تو بلیاں اور کتے کرتے ہیں۔ اگر انسان بھی ان بے ہودہ اور لغوحرکات کا مرتکب ہو تو اس کو شرم آنی چاہیے۔ ہاں اگر تم کو سکت ہے تو آسمان کی جانب پروا نہ کرو۔“ یہ فرمایا اور آپ سب لڑکوں کی نظروں سے اوجھل ہوگئے۔
لڑکوں نے شور مچانا شروع کردیا اور لگے فریاد کرنے۔ اتنے میں مولانا لوٹ آئے۔ آپ کی آنکھوں اور چہرے کا رنگ بدلا ہوا تھا۔ فرمایا ”جب میں تم سے مصروف گفتگو تھا تو میں نے دیکھا کہ سبز پوشوں کی ایک جماعت جو میرے قریب آئی اور اس نے مجھے اٹھالیا، آسمان کی سیر کرائی، ملکوتی عجائبات کا مشاہدہ بھی کرایا۔ جب مَیں نے تمہاری فریاد سنی تو واپس چلا آیا۔
مولانا نے فرمایا کہ جو جانور زمین سے اوپر اڑتا ہے۔ اگرچہ اس کی رسائی آسمان تک نہیں ہوسکتی۔ تاہم وہ جال سے ضرور بچ جاتا ہے اور اس طرح اسے ہلاکت سے نجات مل جاتی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی درویش ہوجاتا ہے تو وہ خواہ اعلیٰ مدارج طے نہ کر سکے پھر بھی وہ عام مخلوق سے ضرور بے نیاز او رممتاز ہوجاتا ہے۔ دنیا کے مخمصوں سے اسے نجات مل جاتی ہے۔
٭٭٭
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 130 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
حضرت حمدون قصارؒ نے فرمایا ” توکل کی تعریف یہ ہے کہ مقروض ہونے کی صورت میں بجائے بندے کے خدا سے اس کی ادائیگی کی آمید رکھو۔ اور اپنے امور خدا کے سپرد کرنے سے قبل ضروری ہے کہ حیلہ و تدبیر بھی اختیار کی جائے۔
تین چیزیں ابلیس کے لئے وجہ انبساط ہیں۔ اول کسی دنیا دار کا قتل، دوم کسی شخص کا حالت کفر میں مرنا سوم درویشی سے فرار۔
٭٭٭
حضرت جنید بغدادیؒ کسی درویش کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے تو وہ مصروف گریہ تھا۔ آپ نے سوال کیا کہ کسی کی عطا کردہ اذیت پر گریہ کناں ہے اور کس سے اس کی شکایت کرنا چاہتا ہے۔“
درویش یہ سن کر ساکت ہوگیا، تو آپ نے پھر پوچھا کہ خیر کا تعلق کس کے ساتھ ہے۔
اس نے عرض کیا ”نہ رونے کی اجازت ہے نہ صبر کی قوت۔“
٭٭٭
کہا جاتا ہے کہ شاہ حسینؒ ہمیشہ سرخ لباس پہنتے تھے اس لیے لال حسینؒ کےنام سے مشہور ہوگئے۔ شاہ حسین ابھی چھوٹے ہی تھے کہ ٹکسالی دروازہ کی مسجد کے امام حافظ ابو بکر کے پاس پڑھنے کے لیے بھیج دئیے گئے۔ انہوں نے دس سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کرلیا تھا انہی دنوں مشہور صوفی بزرگ حضرت شیخ بہلولؒ دریائی لاہور تشریف لائے اور شاہ حسینؒ ان کے مرد ہوگئے۔ چند برس بعد جب جب شیخ بہلولؒ لاہور سے جانے لگے تو انہیں حضرت علی ہجویریؒ داتا گنج بخش مزار پر چھوڑ گئے جہاں انہوں نے دس برس ریاضت و عبادت میں گزاردئیے۔ ازاں بعد شاہ حسینؒ کئی کئی راتیں دریائے راوی میں کھڑے کھڑے قرآن پڑھتے ہوئے گزاردیتے تھے۔
ریاضت و عبادت کا یہ سلسلہ جاری تھا کہ ۶۲ سال کی عمر میں یہ مشہور عالم شیخ سعد اللہ لاہور کے پاس پہنچ گئے جن سے آپ نے تصوف اور فقہ پڑھا۔ ایک روز آپ تفسیر پڑھ رہے تھے کہ یہ آیت آئی
وما الحیواة الدنیا الالھوولعب
یہ سننا تھا کہ آپ پر ایک مجذوبانہ کیفیت طاری ہوگئی۔ بے خودی کے عالم میں مکتب سے باہر نکل آئے او رپھر کبھی اس طرح کا رخ نہ کیا۔
٭٭٭
ایک دفعہ حضرت ابو الحسن خراسانیؒ کے دسترخوان پر بہت سے مہمان تھے۔ خادم چادر کے نیچے سے روٹیاں لالاکر رکھتا جاتا تھا۔ آپ کی کرامت سے چادر میں ایسی برکت ہوگئی تھی کہ مسلسل روٹیاں نکلتی جارہی تھیں۔ حالانکہ چادر کے نیچے صرف چند روٹیاں تھیں لیکن جب خادم نے آزمانے کے لیے چادر اٹھا کر دیکھا تو اس میں ایک روٹی بھی نہیں تھی۔ آپ نے فرمایا کہ تو نے بہت برا کیا۔ اگر چادر نہ اٹھاتا تو قیامت تک روٹیاں نکلتی رہتیں۔(جاری ہے)
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 132 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں