وزیراعظم ہاؤس کے اندر بیٹھے لوگ میری وزارت میں مداخلت کر رہے تھے: فردوس عاشق
اسلام آباد( آن لائن)وزیراعظم کی سابق معاون خصوصی برائے اطلاعات ونشریات فردوس عاشق اعوان نے انکشاف کیا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس کے اندر بیٹھے لوگ میری وزارت میں مداخلت کررہے تھے،میری وزارت میں بیٹھے لوگوں کو وزیراعظم ہاؤس طلب کیا جاتا تھا، جب میں نے نوٹس لیاتو مجھے کہا گیا استعفیٰ دو ورنہ ہم نوٹیفائی کردینگے، کسی بیوروکریٹ کو کسی وزیر یا مشیر سے استعفیٰ لینے کا کوئی اختیار نہیں،استعفے کا اختیار صرف وزیراعظم کے پاس تھا اور میں اپنا استعفیٰ وزیراعظم کو ہی پیش کرنا چاہتی تھی،کچھ غیر متعلقہ لوگ تھے جو مجھے ساتھ نہیں لے کر چلنا چاہتے تھے،انہیں ادھر ادھر سے ہدایات آ رہی تھیں، ان لوگوں کے پاس کوئی عہدہ نہیں ہے پھربھی وہ اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں، بہت ساری ٹیمیں آ کر بیٹنگ کر رہی تھیں کوئی کیچ ڈراپ کر تا تھا اور کوئی پکڑتا تھا اور وہ وکٹری سینڈ پر اپنے اپنے اینڈ پر کھڑا ہونا چاہتے تھے، استعفے سے قبل ملاقات میں وزیراعظم سے اپنی ذمہ داری پوچھنا چاہتی تھی اور میری اتھارٹی کیا ہے؟گزشتہ روز نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیراعظم اپنی ٹیم کے کپتان ہیں اور ان کو حق حاصل ہے کہ وہ جس کھلاڑی کو چاہیں ہٹا دیں یا تعینات کر یں اور انہوں نے اپنے اختیار کا استعمال کیا اور نئی ٹیم کو لے کر آئے، مجھے امید ہے کہ ان کی نئی ٹیم ان کی توقعات پر پورا اترے گی اور پاکستان کے عوام جو چاہتے ہیں وہ ان تک ڈیلور کریں اس ملک کے سسٹم کو بدلیں انہوں نے کہا کہ 18 اپریل سے لے کر مجھے ہٹائے جانے تک کوئی ایک بھی دن اسیا نہیں تھا جس میں کانٹوں کی سیج پر نہ بیٹھی ہوں لیکن مجھے جو ذمہ داری دی گئی تھی وہ بہت مشکل تھی جسے میں نے پوری ذمہ داری کے ساتھ بنھایا،ذمہ داری میری تھی مگر اختیار وزیراعظم کے ہاؤس کا تھا۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی بیورو کریٹ کو کسی وزیر یا مشیر کے استعفیٰ مانگنے کا اختیار نہیں ہے۔ یہ اختیار صرف وزیراعظم پاکستان کے پاس ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک وقت میں بہت سارے وزیر اطلاعات کام کر رہے تھے اور بہت سارے ایسے ترجمان بھی تھے جو آفیشل طور پر نہیں تھے مگر ان سے ایسا کام کرایا جاتا تھا جس کی ذمہ داری میری تھی اور یہ لوگ وزیراعظم ہاؤس کے اندر ہی بیٹھے ہیں جب یہ چیزیں میرے نوٹس میں آیا کہ وزیراعظم ہاؤس سے میرے سیکرٹری اور وزارت اطلاعات کے بندوں کو بلایا جاتا ہے تو میں نے یہ معاملہ وزیراعظم کے ساتھ اٹھایا مگر وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھے لوگ نہیں مانے۔ لیکن پھربھی میں نے اپنی ٹیم کے ساتھ کام کیا کیونکہ مجھے حکومت اور عوام کی بہتری کے لئے کام کرنا تھا انہوں نے کہا کہ جب بہت سارے لوگ وزارت میں مداخلت کر یں گے تو پھر میں تو کیا کوئی بھی وزیر کسی چیز کی ذمہ داری لینے کے لئے تیار نہیں ہو گا مجھے وزیراعظم ہاؤس نے کہا کہ استعفیٰ دو، ورنہ ڈی نوٹیفائی کر دیں گے انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی ٹیم کی اندر بہت سارے لوگ مجھے سپورٹ بھی کرتے تھے جس پر ان کی شکر گزار ہوں کچھ لوگ چاہتے تھے کہ جہاں کام ٹھیک نہیں ہو رہا وہاں تبدیلی کی جائے، کچھ غیر متعلقہ لوگ تھے جو مجھے ساتھ نہیں لے کر چلنا چاہتے تھے او انہیں ادھر ادھر سے ہدایات آ رہی تھیں جو میں نہیں جانتی، ان لوگوں کے پاس کوئی عہدہ نہیں ہے لیکن وہ پر جگہ اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں ان افراد کے نام لیکر حکومت اور وزیراعظم کے لئے مشکلات پیدا نہیں کرنا چاہتی، میں وزارت سے ہٹائے جانے سے ایک ہفتہ قبل وزیراعظم سے ضد کر کے ملی اور ان کو کچھ گائیڈ لائنز دیں کیونکہ چیزیں اور ابہام دور کرنا چاہتی تھی کیونکہ بہت ساری ٹیمیں آ کر بیٹنگ کر رہی تھیں کوئی کیچ ڈراپ کر تا تھا اور کوئی پکڑتا تھا۔ اور وہ وکٹری سینڈ پر اپنے اپنے اینڈ پر کھڑا ہونا چاہتے تھے میں وزیراعظم سے اپنی ذمہ داری پوچھنا چاہتی تھی اور میری اتھارٹی کیا ہے؟میرے خلاف جو اتنی ساری شکاتیں وزیراعظم کے پاس گئیں، اگ روزیراعظم کی جگہ میں ہوتی تو شاہد دو ماہ میں ہی ان لوگوں کو ہٹا دیتی مگر وزیراعظم کے حوصلے کو داد دیتی ہوں جنہوں نے مجھے اپنی سیٹ پر برقرار رکھا اور ان لوگوں کی شکایات بھی سنتے رہے۔ وزیراعظم پر مجھے ہٹانے کے لئے بہت دباؤ تھا مگر میں عمران خان کے حوصلے کو داد دیتی ہوں کہ انہوں نے یہ دباؤ تقریبا ڈیڑھ سال تک برداشت کیے رکھا۔
فردوس عاشق