غلط فیصلے اور وزیراعظم کی سوچیں
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مجھ سے بڑے غلط فیصلے بھی ہو جاتے ہیں،جن پر اکثر سوچتا رہتا ہوں،ماضی میں ٹکٹ دینے کے معاملے میں کئی غلطیاں ہوئیں آج سوچتا ہوں فلاں کو وفاقی وزیر کیوں بنایا،کِسے وزارت دینی چاہئے تھی تاہم اللہ کا شکر ہے خالد خورشید کو وزیراعلیٰ گلگت بلتستان بنانے کا میرا فیصلہ بالکل درست تھا، کچھ لوگ اپنی ذات کو فائدہ پہنچانے کے لئے اقتدار میں آتے ہیں یہ لوگ مُلک کا پیسہ باہر بھیجتے ہیں یہ لوگ غدار اور قومی مجرم ہیں،جو مُلک کو دہرا نقصان پہنچاتے ہیں۔اُن کا کہنا تھا کہ کوئی مُلک انصاف کے بغیر عظیم ملک نہیں بن سکتا،خوشحالی اُس قوم میں آتی ہے جس میں انصاف کی قوت ہوتی ہے۔قانون کی بالادستی کا مطلب ہے کمزور اور طاقتور کو قانون کے نیچے برابر لانا ہے، اقتدار بہت بڑی ذمے داری ہوتی ہے۔نیب نے بڑے بڑے لوگوں پر ہاتھ ڈالا ہے،پٹواری یا کانسٹیبل کے احتساب کا کوئی فائدہ نہیں۔ وزیراعظم نے یہ باتیں گلگت بلتستان کی ترقی کے لئے پیکیج کا اعلان کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔
جناب وزیراعظم نے یہ وضاحت تو نہیں کی کہ انہوں نے کون سے غلط فیصلے کئے یا پھر کس ایسے شخص کو وزیر بنایا جسے نہیں بنانا چاہئے تھا،لیکن اُن کے بعض فیصلوں کے حوالوں سے اکثر میڈیا میں ذکر آتا رہتا ہے،تازہ ترین مثال تو کراچی کی ہے جہاں حلقہ این اے249 میں پارٹی ٹکٹ ایک ایسے امیدوار کو دے دیا گیا جن پر پارٹی کے اندر کافی لے دے ہوئی اور اب تک ہو رہی ہے،حلقے میں الیکشن کا جو نتیجہ سامنے آیا ہے اس کے بعد پارٹی میں اب یہ بات کھل کر کی جانے لگی ہے کہ ٹکٹ دینے کا فیصلہ ہی غلط تھا،عام انتخابات میں یہ نشست تحریک انصاف نے مسلم لیگ(ن) کے صدر شہباز شریف کو ہرا کر جیتی تھی،مجموعی طور پر تحریک انصاف 14نشستیں جیت کر شہر کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے طور پر ابھری تھی،لیکن ڈھائی پونے تین سال ہی میں یہ حالت ہو گئی ہے کہ ایک ہی ضمنی انتخاب میں پہلے نمبر سے لڑھک کر پانچویں نمبر پر چلی گئی اور خود تحریک انصاف کے ایک ایم این اے اس شکست کی ذمے داری تحریک کی اپنی تنظیم پر ڈال رہے ہیں،اِس سے پہلے مُلک کے مختلف حصوں میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے جتنے بھی انتخاب ہوئے اُن میں سوائے ایک حلقے (کرم، کے پی کے) کے کوئی نشست تحریک انصاف نہیں جیت سکی۔ڈسکہ کے حلقے این اے75 میں تو وہ ایک نہیں، دو بار ہاری اور یہ شکست بھی غلط فیصلوں کا نتیجہ تھی،الیکشن سے پہلے انتخابی مہم اور پھر پولنگ والے دن جو کچھ سامنے آیا وہ سب غلط فیصلوں ہی کا کِیا دھرا تھا۔آخری کیل رات گئے بیس سے زیادہ پریذائیڈنگ افسروں کے پراسرار اغوا نے ٹھونک دی۔ یہ سب لوگ ایک ہی وقت پر غائب کئے گئے، انہیں ایک ہی جگہ رکھا گیا، ان سے رزلٹ تبدیل کرایا گیا اور پھر جب کئی گھنٹوں کے بعد اکٹھے ہی سب کے سب نمودار ہوئے تو نئی سے نئی کہانی گھڑی گئی،یہ تو سب ہی نے کہا کہ ٹیلی فون کی بیڑی خراب ہو گئی تھی،اِس لئے فون بند تھے، الیکشن کمیشن نے اپنی پہلی پریس ریلیز کے اندر ہی ساری کتھا کھول کر رکھ دی تھی،لیکن تحریک انصاف کے لوگ اصرار کرتے رہے کہ انہوں نے یہ الیکشن آٹھ ہزار ووٹوں سے جیت لیا ہے،اِس لئے نتیجے کا اعلان کیا جائے۔الیکشن کمیشن نے تمام فریقوں کا موقف سن کر دوبارہ انتخاب کا اعلان کیا تو تحریک انصاف نہ صرف اس کے خلاف سپریم کورٹ چلی گئی، بلکہ الیکشن کمیشن کے خلاف ایک بھرپور مہم بھی شروع کر دی گئی۔بہرحال الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں اپنا موقف مضبوطی سے اپنایا اور پھر دوبارہ الیکشن ہوا،دوسری بار بھی تحریک انصاف ہار گئی۔
نوشہرہ کے ایک صوبائی حلقے میں ٹکٹ کا فیصلہ غلط ہوا اور پرویز خٹک نے اپنے بیٹے کو امیدوار بنا دیا تو اُن کے حقیقی بھائی خم ٹھونک کر میدان میں آ گئے اور پارٹی کی تقسیم کی وجہ سے یہ نشست بھی تحریک انصاف کے ہاتھ سے نکل گئی، سینیٹ کے الیکشن میں تو غلطی پر غلطیاں کی گئیں، بلوچستان میں ایک ایسے شخص کو ٹکٹ دے دیا گیا، جس کے بارے میں پارٹی کے حلقے یہ کہتے سنائی دیئے کہ وہ تو کبھی تحریک انصاف کے رکن ہی نہیں رہے،لیکن یہ دولت مند شخص تھے اُنہیں کمزور پہلوؤں کا کما حقہ‘ ادراک تھا چنانچہ انہوں نے اپنے سیاسی پتّے کامیابی سے کھیلے،اُن سے ٹکٹ واپس لیا گیا تو انہوں نے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑا، ڈنکے کی چوٹ جیتے اور پھر تحریک انصاف نے اُن کا پارٹی میں خیر مقدم کیا۔یوں دولت لٹانے والے کو پارٹی سے باہر رکھنا کوئی عقل مندی تو نہ تھی۔ بھلے بلوچستان کی تحریک انصاف اس فیصلے سے خوش نہیں ہوئی،لیکن اُسے کون پوچھتا ہے۔اب جناب وزیراعظم نے گورنر بلوچستان جسٹس(ر) امان اللہ یٰسین زئی سے استعفا طلب کیا ہے،کیونکہ وہ اُن کی جگہ کوئی دوسرا پسندیدہ شخص لگانا چاہتے ہیں،گورنر یٰسین زئی کی کارکردگی سے البتہ انہیں کوئی شکوہ شکایت نہیں ہے۔اِس لئے بہتر ہے وہ فیصلے سے پہلے مزید سوچ بچار کر لیں۔
تحریک انصاف میں وزیروں کی کارکردگی مسلسل جانچنے کا جو ”نظام“ ہے اس کے تحت اوّل نمبر کا وزیر جناب شیخ رشید احمد کو قرار دیا جا چکا ہے۔یہ وہ وزیر ہیں جن کے بارے میں وزیراعظم کی رائے کبھی اچھی نہ تھی اور آج بھی اس کی صدائے باز گشت سُنی جا سکتی ہے،ایک کلپ میں تو دونوں باہم اُلجھ پڑے تھے۔فواد چودھری کو دوسری مرتبہ وزیر اطلاعات بنایا گیا اسی طرح شہباز گل کو پہلے پنجاب میں ٹرائی کیا گیا وہ وزیراعلیٰ کو پسند نہیں آئے تو وفاق میں فٹ ہو گئے اور آج تک دندنا رہے ہیں،محترمہ فردوس عاشق اعوان وفاق سے پنجاب منتقل کی گئیں، چار وزیر خزانہ لگائے گئے، حفیظ شیخ جن کی کارکردگی کو بار بار سراہا گیا نہ جانے بزم ناز سے کیوں اٹھا دیئے گئے، کئی وزیر ایسے ہیں جن کی کوئی کارکردگی کبھی زیر بحث نہیں آتی، وہ وزارتوں میں کیا کر رہے ہیں،کوئی نہیں جانتا، بس دو چار لوگ ہیں جو ٹی وی چینلوں پر اپوزیشن کو جواب دیتے ہیں۔ یہی اب بشیر میمن کے پیچھے پڑ گئے ہیں اور کسی ٹیکس فری زون میں ان کی ملیں تلاش کر لی ہیں جن پر ٹیکس نہیں دیا گیا، ٹیکس فری زون میں تو ملیں لگائی ہی اِسی لئے جاتی ہیں کہ ٹیکس نہ دینا پڑے،لیکن بشیر میمن نے جھوٹ (یا سچ) بولا ہے تو اب اُن سے پورا پورا انصاف ہو گا،ایسے اَن گنت فیصلے ہیں جو وزیراعظم کر پہلے لیتے ہیں اور بعد میں ان پر سوچتے ہیں، حالانکہ اس ترتیب کو الٹ کرنے کی ضرورت ہے،پہلے سوچیں پھر کوئی فیصلہ کریں تاکہ پھر اُنہیں یہ نہ کہنا پڑے مجھ سے بڑے غلط فیصلے بھی ہو جاتے ہیں۔