ایک روپے کاسوال !

قطرہ قطرہ مل کر دریا بن جاتاہے،قطرے قطرے سے دریا بنتاہے یا پھرقطرہ قطرہ دریابنتاہے،جیسے بھی بولیں مطلب یہ ہے کہ قطرے کی بڑی اہمیت ہے اور جس چیز کی اہمیت ہو تو پھر اسے اس حساب سے ہی ذکر کرنا بھی بنتاہے،بات کسی قطرے کی نہیں کرنے لگا،نہ کسی دریا کی بات ہےاورنہ ہی پانی کے ضیاع کامعاملہ ہے،بات ہے صرف ایک روپیہ کی۔۔وہی روپیہ جس کے بارے میں کہاجاتاہے کہ یہ سنسکرت زبان کالفظ ہے جس کامطلب ہے’چاندی‘۔۔سب سے پہلے یہ لفظ بھارت میں استعمال ہونا شروع ہوا،تقسیم کے بعد پاکستان میں کرنسی کانام روپیہ ہی رکھاگیا،انڈونیشیا میں بھی سکے کو روپیہ بولاجاتاہے ۔
ویسے تو میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے روپیہ سے واقف ہوں،بچپن میں روپیہ،روپیہ جمع کرکے میلوں پر جایاکرتے تھے اور اپنی مرضی کے کھلونوں،جنات،عمروعیار اورٹارزن کی کہانیوں والی کتابیں خریدتے اور پھر سارا سال اس روپیہ کی بدولت کتابوں اور کھلونوں سے فائدہ اٹھاتے،تب روپیہ کے بھی کئی حصے تھے جنہیں استعمال میں لایاجاتاتھا،یعنی ایک روپیہ سے آپ ٹافیاں،ٹانگری اورپتاسے بھی خرید لیتے ،گاچی اور قلم دوات بھی خریدسکتے تھے،اس وقت ہمارے دیہاتی علاقوں میں تو لوگ کہاکرتے تھے کہ اگر روپے،روپے کے ایک لاکھ نوٹ اوپر نیچے رکھے جائیں تو اتنے بن جاتےہیں کہ اس کی چھاؤں تلے کتا بیٹھ جاتاہے۔اس دور میں لاکھوں لوگ پورے ایک لاکھ روپے دیکھنے کی خواہش لیے ہی قبر میں چلے جاتے تھے،ساری زندگی وہ لاکھ روپے کی چھاؤں تلے کتا نہیں بٹھا سکتے تھےکیوںکہ لوگوں کے پاس پیسہ بہت کم تھا۔۔
اب اس دور کی نسبت دنیا اتنی ترقی کرگئی ہے کہ شاید تب کا کوئی بزرگ آدمی قبر سے اٹھ کر آجائے تو وہ یقین نہ کرے کہ پیسے کی اتنی ریل پیل ہے،اتنے جدید نظام بن چکے ہیں،یہ الگ بات ہے کہ مہنگائی نے روپے کی قدر ہی ختم کردی ہے۔۔۔پھربھی قطرہ قطرہ مل کر دریابنتاہے اور روپیہ روپیہ جمع کرنے سے لاکھوں کروڑوں روپے بن جاتے ہیں۔اتنی بڑی تمہیدباندھنے کے بعد آپ کو صرف یہ کہوں گا کہ اگر آپ نے لاہورشیخوپور روڈپراپنی گاڑی پر سفر نہیں کیا تو ایک دفعہ کرلیں،یا اگر سفر کرتے ہیں تو پھر توجہ فرمائیں!
جیسے ہی کوٹ عبدالمالک سے شیخوپورہ کی طرف جی ٹی روڈپرچلیں گے توایک ٹول پلازہ آئے گاجس سے گزرنے کے لیے آپ کوٹول ادا کرنا پڑےگا،میں چونکہ ہفتے میں ایک باراس روڈپرسفر کرتاہوں توٹول پلازہ پرکچھ رقم اداکرناپڑتی ہے،مجھے اس رقم کی ادائیگی پر اعتراض نہیں،چونکہ موٹروے پر بھی اگر سفرکریں گے تو ٹول اداکرنا پڑتاہے جوکہ معمول کی بات ہے،، لاہورشیخوپور روڈ پرجب آپ سے پورے’اکاون‘روپے وصول کیے جاتے ہیں،توایک چیزحیرت میں ڈال دیتی ہے،شاید میں ہی حیران ہواہوں یا باقی لاکھوں گاڑیوں پرسفر کرنے والے بھی حیران ہوتے ہوں ۔۔۔ اکاون روپے ادائیگی پرمیرا صرف ایک اعتراض ہے اور وہ ہےپچاس روپے کے بعد ایک روپیہ کی ادائیگی۔
ٹول ٹیکس طے کرتے وقت کس فلسفی،کس منطقی اور ٹیکس کے ماہر بندے نے کیا سوچ کر اکاون روپے طے کیے ہیں؟ میری سمجھ سے باہر ہے،اگر آپ کو سمجھ آئے تو بلاگ کے نیچے کمنٹ ضرور کرنا۔آپ پچاس روپے رہنے دیں،یا پھر ساٹھ کرلیں۔۔یہ اکاون روپے کی سائنس سوائے مسافروں کو تکلیف دینے کے کچھ بھی نہیں،ہاں حکومتی خزانے میں بے شک روپیہ روپیہ جمع ہوکر بھاری رقم جاتی ہے مگر اکاون روپے دینے کے چکر میں جو شہریوں کے نو روپے ضائع ہوتے ہیں،اس کا ثواب کسے دینا ہے،یہ سوچ رہاہوں،پنجاب حکومت کو ثواب دیں،وفاقی حکومت کو دیں یا پھرمتعلقہ حکام کو ثواب دارین دیں؟ٹول پلازہ پر بیٹھا شخص اگر آپ ایک روپیہ اضافی جمع نہیں کراتے تو آپ کی گاڑی کو بذریعہ’’ڈنڈا‘‘ روکے رکھتاہے،یعنی اس ڈنڈے نے تبھی اوپر ہونا ہے جب حکومتی خزانے میں اکاون روپے جمع کرانے کے چکر میں باقی کے نوروپیے بھی ٹوٹ پھوٹ کاشکار نہ کرلیں۔
شاید یہ میرے ساتھ ہی ہوتاہے یا پھر کسی اور کیساتھ بھی ایسا ہواہے کہ نوروپے کے جب سکے آپ کو کافی اوپربلندی سے رسید کے اندر کسی منشیات کی پُڑھیاکی طرح لپیٹ کر دیئے جاتے ہیں تو وہ آپ کی پکڑ میں نہیں آتے،وہ آپ کی گاڑی میں بکھرجائیں گے یا پھر گاڑی سے باہر ہی گر جائیں گے،نیچے گر گئے توآپ کے کام سے گئے،اب پندرہ،بیس لاکھ کی گاڑی پر بیٹھا شہری نو روپے چننے کے لیے پیچھے لگی گاڑیوں کی لائنوں سے گالیاں تو کھانے سے رہا،،وہ چھوڑ کر نکل جائے گا،اگر گاڑی میں بکھرگئے تو سروس سٹیشن پرگاڑی کی صفائی کرنے والے کی قسمت بن جائیں گے۔۔۔مختصر یہ کہ وہ نو روپے آپ کے کسی کام کے نہیں۔
متعلقہ حکام سے گزارش کروں گا کہ اگر قوم پر ایک روپے کا احسان کرسکتے ہیں تو ٹول ٹیکس پچاس روپے کردیں،اگر ایک روپیہ چھوڑنے کی ہمت نہیں تو پورے پورے ساٹھ روپے کردیں۔عثمان بزدارصاحب آپ سردار ہیں،آپ صوبے کے بڑے ہیں،آپ کو وزیراعلیٰ پنجاب کہاجاتاہے،بھرلیں کڑوا گھونٹ لیں،،ایک روپیہ ٹیکس میں کمی کرکے حاتم طائی کی قبر پر لات ماردیں یاپھر ساٹھ روپے کردیں۔۔خدارا پیسے کا ضیاع روک لیں۔۔ میراحکومت سے کوئی بڑا سوال نہیں،بس ایک روپے کاسوال ہے۔
(بلاگرمناظرعلی مختلف اخبارات اورٹی وی چینلز کےنیوزروم سے وابستہ رہ چکےہیں،آج کل لاہور کےایک ٹی وی چینل پرکام کررہے ہیں۔عوامی مسائل اجاگرکرنےکےلیےمختلف ویب سائٹس پربلاگ لکھتے ہیں۔ان سےفیس بک آئی ڈی munazer.ali پر رابطہ کیا جاسکتا ہے )
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔