خدارا ہوش کیجئے…!!
ہم پاکستانی بھی بڑے عجیب لوگ ہیں۔ کسی ایک بات پر ٹکتے نہیں اور یہ بات بھی سچ ہے کہ ہماری قوم کا دو نمبری، جھوٹ، دھوکہ، ملاوٹ، ناپ تول میں کمی، رشوت، قبضہ، قتل و غارت اور کرپشن کے مینار کھڑے کرنے میں کوئی ثانی نہ ہے لیکن جب بات غیرت پر آتی ہے تو پھر یہ سوئی ہوئی قوم جاگ جاتی ہے۔ آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ ہمارے آپس کے سو اختلافات ہوں گے لیکن جب دشمن نے ہم پر حملہ کیا۔ یہ مفلوک الحال قوم یک زبان ہو کر سیسہ پلائی دیوار بن گئی۔ اس کی تازہ ترین مثال جناب عمران خان کا اپنی حکومت کے خاتمہ میں بیرونی ہاتھ کا بیانیہ کام کر گیا ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے۔ ہمارے ہاں کسی کی مونچھ کٹ جائے، گھر میں بلی دودھ پی جائے الغرض کوئی بھی کام ہو ہم اس کا الزام سیدھا سادہ امریکہ کے سر تھوپنے میں ذرا دیر نہیں کرتے۔ ہم بھی ہیں بڑے منافق، امریکہ کی شہریت یا ویزا لینا ہو تو امریکہ سے اچھا ملک کوئی نہیں اور جب سیاست چمکانا ہو تو امریکہ کو گالی دینا ہمارا طرہ امتیاز ہے۔
یہ وہ باتیں ہیں جو آج کل کم و بیش ہر شخص کی ہی زبان پر تواتر سے جاری ہیں۔ کچھ لوگ جناب شہباز شریف کی کلاس لے رہے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ منتخب وزیراعظم کو فارغ کرنے کی روایت اچھا شگون نہ ہے۔ یہ مکافات عمل ہے۔ آج پی ڈی ایم نے کیا۔ کل ان کے خلاف کوئی اور کرے گا اور لوٹا کریسی کے گٹر کو کھول کر ہم نے نئی نسل کو کیا پیغام دیا ہے کہ ہم کس قماش کے لوگ ہیں اور لکھنے والے یہ بھی لکھ رہے ہیں کہ ایک سال میں جناب عمران خان نے ٹکے ٹوکری ہو کر اپنی موت آپ مر جانا تھا۔ پتہ نہیں کس جاہل مطلق نے جناب شہباز شریف کو 1 سال صبر کرنے کے بجائے فوری اچکن پہن کر وزیراعظم کے منصب پر فائز ہونے کا بھونڈا مشورہ دیا۔ او جی!کہنے والوں کا منہ تو بند نہیں کیا جا سکتا۔ ان منہ پھٹ لوگوں کے بقول شریف و زرداری صاحبان اپنے کیسز کو ختم کروانے، نیب کو نتھ ڈالنے، ای وی ایم مشین کا خاتمہ اور اوورسیز پاکستانیوں کے حق رائے دہی کا فیصلہ واپس کروانے کے لئے وزیراعظم ہاؤس میں براجمان ہوئے ہیں۔ اس بات میں کتنی صداقت ہے یہ تو آنے والا وقت ہی ثابت کرے گا کیونکہ اب اکیلے پی ٹی وی کا زمانہ تو ہے نہیں۔ سوشل و الیکٹرانک میڈیا کے اس بھیانک دور میں چند سکینڈوں میں دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جاتا ہے۔ انٹرنیٹ کے اس جدید دور کا نقصان یہ ہوا ہے کہ اب نئی نسل بات بات پر سوالات کی بوچھاڑ کرتی ہے۔ بات اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ برداشت، رواداری، ایک دوسرے کا رکھ رکھاؤ، لحاظ، عزت تو سرے سے ختم ہی ہو چکا ہے۔ سب سے خطرناک بات یہ کہ نوجوان جو ہمارا روشن مستقبل سیاست کے اس بکھیڑے میں اخلاقیات کی تمام حدیں پار کرتے گالم و گلوچ پر اتر آتے ہیں۔ موجودہ دور میں جتنی پولرائزیشن، معاشرے کی تقسیم ہوئی ہے پہلے کبھی نہ ہوئی تھی۔ اس میں ہمارے سیاسی لیڈران کا بہرکیف حصہ تو ہے۔
جناب عمران کا چوروں کو نہیں چھوڑوں گا۔ این آر او نہیں دوں گا کا پرچار پچھلے کئی سال سے ابھی تک جاری ہے۔ ان کا مولانا فضل الرحمن پر ڈیزل کی پھبتی کسنا بطور وزیراعظم ان کے شایان شان نہ تھا اور ابھی تک وہ اپنے جلسوں میں ڈیزل، ڈیزل کے نعرے لگوا کر اپنے برجوش کارکنوں کا لہو گرماتے ہیں جو کسی طور جائز نہیں۔ دین اسلام میں بھی الٹا نام لینے کی سخت ممانعت ہے۔ دوسری طرف جناب مولانا فضل الرحمن و دوسرے سیاسی اکابرین کا جناب عمران خان کو یہودی ایجنٹ قرار دینا، کپتان کی زوجہ محترمہ جن کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں، ان کو پیرنی کے القابات سے نواز کر ان کی ذات پر کیچڑ اچھالنا، بلاول زرداری اور مریم نواز کے بھی طرح طرح کے نام رکھنا، غیر اخلاقی ویڈیوز ریلیز کرنا، ہمارے بدبودار معاشرے کی بہترین عکاسی کر رہا ہے۔ سیاست کے اس کھیل میں جناب عمران خان کا اپنے ہی پیٹی بھائی سیاست دانوں کو میر جعفر، میر صادق اور غدار وطن سے تشبیہ دینا سرا سر زیادتی ہے۔ ایسا ہو نہیں سکتا کہ چند ٹکوں کی خاطر شریف و زرداری خاندان، مولانا فضل الرحمن اپنے ملک سے بے وفائی کریں کیونکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جس شخص نے بھی اس دیس کے ساتھ برا کیا۔ اس رب سوھنے نے اس کے ساتھ برا کیا۔ تاریخ چیخ چیخ کر اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ اپنے پیٹ کی خاطر اس ملک کا سودا کرنے والے عبرت کا نشان بن گئے لہٰذا یہ غدار، غدار کا چورن بیچنے سے اجتناب ہی کیا جانا چاہئے اور ملکی سالمیت سے جڑی سب سے اہم بات، سپہ سالار کے خلاف گھٹیا مغلظات بکنا، سوشل میڈیا پر دشمن کے خوش کرنے کے ٹرینڈ چلانا، کوئی دانشمندی نہیں، اس کم عقلی پر ہمارے ازلی دشمن بھارت کے ہاں خوشی کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں۔ بھارت کے چوٹی کے لیڈران و عسکری آفیسران مختلف فورمز پر ہرزہ سرائی کر رہے کہ جو کام ہندو بنیا نہ کر سکا وہ کام ہماری ناسمجھ نئی نسل نے بغیر سوچے سمجھے کر دیا اور ابھی تک باز نہیں آ رہے۔ اس خاکسار کا پوچھنا یہ تھا کہ جنرل الیکشن میں پی ٹی آئی کی کامیابی پر سلیکٹرز کے طعنے کس کو سننے پڑے، جناب عمران خان کا ہر مشکل میں کس مخلوق نے ساتھ دیا، ساڑھے 3 سال حکومت کو ہر طوفان سے کس نے بچایا، جناب عمران خان کے بلنڈرز کی انتہا، بزدار و محمود سرکار کا ملبہ کس پر گرا، محترمہ فرح صاحبہ کی پنجاب میں عجب کرپشن کی غضب کہانی کا ہار کسے پہننا پڑا، جناب میاں نواز شریف اور جناب آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمن، خواجہ آصف، مریم نواز، بلاول، اختر مینگل، محسن داوڑ، علی وزیر نے جس طرح سپہ سالار اور اداروں کی بغض عمران خان میں تضحیک کی، اس کا نشانہ کون بنا، مہنگائی سے تڑپتی عوام کی صلواتیں ان ڈائریکٹلی کس کو ہضم کرنا پڑیں، نااہل، ناکام اور ناتجربہ کار حکومت کے لطیفے کس نے برداشت کئے۔ یہ وہ تلخ حقائق ہیں جو بدقسمتی سے پی ٹی آئی کی ینگ جنریشن سننے سے قاصر ہے۔ بدقسمتی سے بحیثیت قوم ہم شخصیت پرستی کے بت کی پوجا کرتے ہیں۔ ہم غلط کو غلط کہنے سے کوسوں دور ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم اپنے لیڈران کی ضد، خود پسندی، انا پرستی کے سامنے سرخم تسلیم کر رہے ہیں۔
راقم کے پلے یہ بات نہیں پڑ رہی کہ کس طرح افواج پاکستان کے سپہ سالار جو ملک کی سرحدوں کے محافظ، اندرونی و بیرونی خطروں سے نمٹنا جن کا نصب العین، خفیہ جان کاری، مربوط نظام کے تحت خارجہ پالیسی کو پروان چڑھانا جن کی گھٹی میں شامل وہ بھلا کیسے ملکی بقا کے برعکس کوئی ایسا قدم اٹھائیں گے جو پیارے دیس کی بنیادیں ہلا دے ہرگز نہیں، یہ ملک ہے تو افواج پاکستان ہے اور ہم سب ہیں ورنہ ہم کسی وجے کمار کے بھنگی ہوتے اور خیر سے آر ایس ایس کے مائی باپ مودی سرکار نے جو حشر اس وقت بھارتی مسلمانوں کا کیا ہوا ہے وہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔ بڑے دکھ سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ افواج پاکستان کے خلاف بکواس بازی کرنا ہماری ہی عادت میں کیوں شامل ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کبھی کسی بھارتی یا کسی اور ملک کے شہری نے بھی اپنی افواج بارے اپنے منہ سے گند اگلا؟ یہ بیماری ہم میں ہی کیوں ہے؟ اس کا جواب سر پھرے یوں بھی دیتے ہیں کہ دوسرے ملکوں کی افواج سیاست میں دخل اندازی نہیں کرتی۔ ان بھٹکے ہوئے لوگوں کے لئے کسی نے کیا خوب کہا کہ جب ملک دو لخت ہوا۔ پاک آرمی نے اس وقت فیصلہ کر لیا تھا کہ ہم ہر قیمت پر صرف اور صرف ملک بچائیں گے۔ مجھے یہ بات لکھنے میں کوئی عار نہیں کہ ریاستیں ہوش مندی سے چلتی ہیں۔ یہ سلطان راہی کی بڑھکوں سے نہیں چلتی اور جب جیب میں دھیلا نہ ہو، آئی ایم ایف کا اڑدھا اور قرضوں پر ملک رواں دواں ہو، غلامی کا طوق گلے پڑا ہو اور ایمان کی یہ حالت ہو کہ پورے ملک میں ایک پاؤ خالص دودھ نہ ملتا ہو اور ہمارے کرتوت ایسے کہ لکھتے شرم آتی ہو وہاں عالمی طاقتوں کو للکارنا بیوقوفی اور سیاسی نعرہ کے علاوہ کچھ نہیں۔
میری دانست میں ذمہ داران ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے بجائے ہوش کے ناخن لیتے، قوم کو اضطرابی کیفیت سے نکالیں تاکہ قوم سکھ کا سانس لے سکے۔