گھبرانا نہیں ہے!!!
سابق وزیر اعظم عمران خان اپنے حامیوں کو کہا کرتے تھے کہ ”گھبرانا نہیں ہے“ لیکن نہ جانے حکومت جاتی دیکھ کر وہ ایسا کیوں گھبرائے کہ بار بار آئین توڑنے اور شرمندگی کے سوپیاز بھی کھاتے رہے اور ابھی تک کھا رہے ہیں۔ عمران خان نے پہلے قومی اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر قاسم سوری سے آئین شکنی اور توہین عدالت کروائی اور پھر بعد میں پنجاب میں گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ سے بار بار توہین عدالت کروائی اور آئین توڑنے کی کوشش کرتے رہے جس میں سپیکر پنجاب اسمبلی اور وزارت اعلی کے شکست خوردہ امیدوار چوہدری پرویز الہی بھی شامل تھے۔ اس تمام عمل میں صدر مملکت عارف علوی کا کردار انتہائی متنازعہ رہا ہے اور وہ ریاست کے سربراہ کی بجائے بے بس پارٹی ورکر بنے ہوئے ہیں۔ صدر عارف علوی اور گورنر عمر سرفراز چیمہ کے کردار ادا کرنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے خیال میں انہیں آرٹیکل 248 کے تحت آئینی تحفظ حاصل ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ ٹولا بار بار آئین توڑ رہا ہے۔ عمران خان آئین شکنی اور توہین عدالت کے جوتے کھاتے رہے لیکن ساتھ ہی ساتھ انہیں میاں شہباز شریف کو وزیر اعظم اور حمزہ شہباز شریف کو وزیر اعلی پنجاب کے پیاز بھی کھانے پڑے۔ ان کے حامیوں کو پوچھنا چاہئے کہ خان صاحب آپ نے کچھ کھایا نہ پیا لیکن گلاس توڑا بارہ آنے کی کیا ضرورت تھی۔ اس کا جواب بہت آسان ہے کہ جب کوئی انا پرست اور نرگسیت کا شکار انسان بغض، کینہ اور انتقام میں تمام حدیں پار کر جائے کہ اسے نہ قانون اور آئین کی پرواہ ہو اور نہ اخلاقیات کی تو پھر اسے سو جوتے اور سوپیاز ہی کھانے پڑتے ہیں۔ لگتا ہے عیدکی چھٹیوں کے بعد آئین شکنی کے ہونے والے تمام واقعات کا حساب ہو گا اورقانون اپنی راہ خود متعین کرے گا۔ زیادہ ترآئینی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ آئین توڑنے والے پر آئین پاکستان کے آرٹیکل 6 کے تحت کاروائی ہو سکتی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ حکومت آئین پاکستان کے تحفظ کے لئے کیا راہ اختیار کرتی ہے۔ اگر ماضی میں آئین توڑنے والوں ایوب خان، یحی خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے خلاف کاروائی ہوئی ہوتی تو عمران خان کو کبھی جرائت نہ ہوتی کہ وہ آئین کے ساتھ کھلواڑ کرتے۔ خیر، آئین کے تقدس اور بالادستی کی گیند اب میاں شہباز شریف حکومت کی کورٹ میں ہے۔
عمران خان نے بیرونی سازش کا ایک فرضی بیانیہ بھی گھڑا اور پاکستانی عوام میں امریکہ کے خلاف جذبات بھڑکانے کی کوشش کی۔ انہوں نے یورپی یونین کے خلاف تقریریں کرکے پاکستان کے تعلقات خراب کرنے کی کوشش کی۔پاکستان کی برآمدات کا دو تہائی امریکہ اور یورپ میں جاتا ہے اور عمران خان کی کوشش یہی تھی کہ وہ تعلقات کو اتنا بگاڑ دیں کہ پاکستان کی برآمدات پر پابندی لگ جائے۔ عمران خان کو ان مذموم مقاصد میں کامیابی نہیں ہو سکی کیونکہ قومی سلامتی کمیٹی نے دو مرتبہ سازش کا فرضی بیانیہ مسترد کیا۔ ادھر امریکہ اور یورپ کو بھی عمران خان کی بدنیتی کا اچھی طرح پتہ تھا اس لئے وہ بدگمانی کا شکار نہیں ہوئے اور پاکستان سے اپنے معمول کے تعلقات اور کاروباری معاہدے جاری رکھے۔امریکہ اور یورپی یونین کے علاوہ چین، روس، سعودی عرب، ترکی، متحدہ عرب امارات، جاپان اور دوسرے دوست ممالک اور بھارت، ایران اور افغانستان جیسے ہمسایہ ممالک نے بھی شہباز شریف حکومت کا کھلے دل سے خیر مقدم کیا اور یوں عمران خان کی عالمی اور سفارتی طور پر پاکستان کو تنہا کرنے کی کوشش ناکام ہو گئی۔ ایک اور چیز یہ کہ عمران خان نے جاتے جاتے آئی ایم ایف سے معاہدوں کی دانستہ خلاف ورزی اس لئے کی تاکہ آئی ایم ایف پاکستان کا بیل آؤٹ پیکج منظور نہ کرے اور شہباز شریف حکومت مالی طور پردیوالیہ ہو جائے لیکن وہ یہ بات بھول گئے کہ شہباز شریف کو دنیا شہباز سپیڈ کے نام سے جانتی ہے اور انہوں نے اپنی حکومت کے پہلے ہفتے میں ہی آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر کا معاہدہ بحال کروایا بلکہ دو ارب ڈالر اضافی لینے میں بھی کامیاب ہوئے۔ خلاصہ یہ کہ عمران خان نے عالمی برادری، طاقتوں اور عالمی مالیاتی اداروں سے تعلقات میں بگاڑ کی کوشش کی اور ان سب کی طرف سے میاں شہباز شریف کو ویلکم کرنے کے سو پیاز کھائے۔
قومی اسمبلی میں عمران خان ایک مخلوط حکومت کے وزیر اعظم تھے جس میں ان کی تحریک انصاف کے علاوہ کئی اور پارٹیاں بھی شامل تھیں۔ جیسا کہ دنیا بھر کی پارلیمانی جمہوریتوں میں ہوتا ہے کہ مخلوط حکومت کے اتحادی اگر ساتھ چھوڑ دیں تو حکومت گر جاتی ہے۔ تحریک عدم اعتماد جمہوری عمل کا ایک حصہ ہے اس لئے عمران خان کو اپنی شکست تسلیم کرکے اپوزیشن میں تعمیری کردار ادا کرنا چاہئے تھا لیکن انہوں نے آئین توڑنے، حالات خراب کرکے ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے اور ملک کو تباہ و برباد کرنے کی کوشش کی۔ یہ الگ بات ہے کہ اداروں نے غیر جانبدار رہ کر ان کی کوششوں پرپانی پھیر دیا۔ اب عمران خان مئی کے آخری ہفتہ میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور دھرنا دینے کی کال دے چکے ہیں۔ پاکستان کی سیاست کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ جب ادارے غیر جانبدار ہوں تو ایسی کال کا کوئی نتیجہ نہیں بر آمد ہوتا۔ مریم نواز شریف نے عمران خان کو فتنہ کہہ کر بہت خوبصورتی سے دریا کو کوزے میں بند کردیا ہے۔ پنجاب میں گورنر عمر سرفرازچیمہ اور صدر عارف علوی کے تمام غیرآئینی اقدامات کو شکست ہو چکی ہے اور بیوروکریسی بھی قانون اور آئین کے ساتھ کھڑی ہے۔ عدلیہ اور مقتدرہ غیر جانبدار ہیں اور عوام کی اکثریت نے عمران خان کی غیر جمہوری سیاست کو مستردکر دیا ہے۔ اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ عمران خان، عارف علوی، قاسم سوری اور عمر سرفراز چیمہ کے خلاف آئین توڑنے کے مقدمات کیوں نہ چلائے جائیں تاکہ آئندہ کوئی اپنے مذموم مقاصد کے لئے آئین نہ توڑ سکے۔ عمران خان نے جب ایسا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو کوئی کیا کر سکتا ہے کیونکہ قانون اور آئین نے اپنی راہ تو خود ہی متعین کرنی ہے۔ عمران خان صاحب ”گھبرانا نہیں ہے“کیونکہ آئین شکنی کے علاوہ سینکڑوں ارب کی کرپشن کے بہت سے مقدمات بھی شروع ہو سکتے ہیں۔