سیکولر بھارت، ہندوتوا کے راستے پر
بھارت کے یہ انتخابات دیگر عام انتخابات سے بالکل الگ ہو رہے ہیں کیونکہ ان میں یہ فیصلہ نہیں ہونا کہ اگلے پانچ سالوں کے لئے کس پارٹی یا اتحاد کی حکومت بنے گی بلکہ یہ طے کیا جائے گا کہ آیا بھارت میں جمہوری نظام اپنی موجودہ شکل میں برقرار رہے گا یا نہیں۔ عالمی میڈیا کا ماننا ہے کہ نریندر مودی کی کامیابی یقینی ہے۔ برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز نے اس خدشہ کا اظہار کیا ہے کہ یہ انتخابات بھارت کے آخری انتخابات ثابت ہو سکتے ہیں کیونکہ وہاں ہندوتوا نظام رائج ہونے والا ہے۔ فارن پالیسی میگزین کے مطابق مودی کے دور اقتدار میں ملک کم جمہوری لیکن زیادہ خود اعتماد بنا۔ نیویارک ٹائمز نے لکھا ہے کہ بھارت جمہوریت کی بجائے ہندوتو ا بنتا جا رہا ہے۔ مودی کی بھی یہی خواہش ہے کہ ملک کو انتہا پسند ی کی طرف لے جایا جائے۔ مودی مطلق العنان بن کر سامنے آئے ہیں۔ دی گارجین کے مطابق بھارتی رائے دہندگان کو مودی کو ایک اور مینڈیٹ دینے سے قبل سوچ وبچار کر لینا چاہیے۔ الیکشن کا نتیجہ خواہ کچھ بھی ہو لیکن یہ طے ہے کہ جمہوریت کو شکست ہوگی کیونکہ بھارت ہندوراشٹربن چکا ہے۔
بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے مطابق نریندر مودی تیسری بار وزیراعظم بن کر پاکستان کے خلاف کچھ بڑا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مودی مذموم عزائم کے منصوبہ کے تحت پاکستان میں سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مقاصد کے لئے کھل کر افغانستان کی سرزمین کا استعمال کریں گے۔دنیا بھر کے اخبارات اور جریدوں میں بھارت کے اٹھارویں لوک سبھا انتخابات پر اداریئے اور خصوصی تبصرے شائع ہو رہے ہیں۔
بھارت ہندوتوا ریاست میں تبدیل ہوکر پوری دنیا میں عدم برداشت کے حوالے سے سب سے بڑی پرتشدد ریا ست بن چکا ہے، اب تو حالت یہ ہوچکی ہے کہ بھارت کی بڑی آبادی ہونے کے ناتے مسلمانوں کو نچلی ذات کے ہندوؤں سے بھی کم مراعات دی جاتی ہیں۔ آج کا مسلمان بھارت میں سیاسی، معاشی اور سماجی اعتبار سے ہندوؤں کی سب سے نچلی ذات شودر سے بھی بدتر ہوگیا ہے اور شودر بھی مسلمانوں سے بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔ بی جے پی کا ہندو توا ایجنڈا روز بروز بڑھ رہا ہے۔کوئی بھی شخص آزاد ہے اور نہ ہی اپنے رسوم و رواج، مذہب، عقیدے کے مطابق زندگی گزار سکتا ہے۔
مسلمانو ں کے ساتھ بھارت میں ایسا ہی ظلم ہو رہا ہے جیسا کبھی مشرکین مکہ نے نبی مکرم ؐ اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ کیا تھا۔ بھارت کی بیوروکریسی، فوج، عدلیہ میں مسلمانوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ متعصب ہندو برملا مسلمانوں کے خلاف پر تشدد کارروائیاں کر رہے ہیں اور ان کا ایجنڈا یہی ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کا رہنا دشوار بنا دیا جائے۔ کشمیر اور پاکستان سے نفرت کے باعث بھی بھارت کے مسلمان زیادہ مشکلات کا شکار ہوئے ہیں ریاستی سطح پر بھی ہندوؤں کو تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے۔ ظلم وزیادتی اور پر تشدد واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہندوؤں نے مسلمانوں پر سینکڑوں حملے کیے اور ہزاروں ہندو مسلم فسادات ہوئے۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ اور ان کے تمام ساتھیوں کے خدشات اپنی جگہ پر ایک عملی روپ دھا ر رہے ہیں کہ بھارت میں مسلمانو ں کے لئے آج بقاء کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے۔ ہندوتوا ایجنڈا روز بڑھ رہا ہے۔ مسلمانوں کو مذہبی دن منانے سے روکا جارہا ہے۔ مسلمان بندے ماترم نہیں پڑھتے اس میں غیراللہ کا ذکر موجود ہے جبکہ بھارت میں مسلمانوں کو یہ پڑھنے پر مجبو کیا جارہا ہے۔ مسلمانوں کو رسوم و رواج عقیدے اور مذہب سمیت کسی قسم کی کوئی آزادی نہیں دی جارہی ایسا صرف مسلمانوں کے ساتھ ہی نہیں ہو رہا بلکہ عیسائی، بدھ اور سکھ مذہب کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا جا رہا ہے۔ بھارت میں عدم برداشت ختم ہوتا جارہا ہے اکثریت اس ایجنڈے پر عمل کر رہی ہے کہ کسی کو بھی اس کی مرضی کے مطابق جینے کا حق نہ دیا جائے۔
کسی مسلمان کے فریج سے اگر گوشت نکل آئے تو اس کو قتل کردیا جاتا ہے چاہے وہ گوشت بکرے کا ہی کیوں نہ ہو، یہ بھی حیران کن بات ہے کہ جو بھارت گؤ ماتا کو عوامی سطح پر ذبح کرنے کی مخالفت کرتا ہے وہ تجارتی میدان میں گائے کے گوشت کا سب سے بڑا ایکسپوٹر کہلا تا ہے۔ ایکسپورٹ کے لئے اس پر کسی قسم کی کوئی قدغن نہیں ہے، بس مسلمانوں کو ہر موقع پر خوف زدہ کیا جاتا ہے۔ آج کے پاکستان میں اللہ کا شکر ہے کہ ہم مذہبی اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکتے ہیں اور ہندو، سکھ سمیت تمام مذاہب کے لوگ بھی آزادانہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔
آج کا مسلمان بھارت میں سیاسی، معاشی اور سماجی اعتبار سے شودر سے بھی بدتر ہوگیا ہے۔ بی جے پی مسلمانوں کے خلاف پر تشدد واقعات اور نفرت پھیلا کر مزید پاپو لر ہورہی ہے۔ قانونی طور پر بھارت ایک سیکولر ریاست تھا جس میں تمام مذاہب کے حقوق شامل تھے مگر کانگریس حکومت نے وہاں جو پالیسی رائج کی تو اس میں مسلمانوں کو کبھی بھی برابری کے حقوق نہیں دئیے گئے اور شروع دن سے ہی مسلمانوں کا استحصال کیا جاتا رہا ہے۔ بھارت کی بیوروکریسی، فوج، عدلیہ میں مسلمانوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے، عملی طور پر سوسائٹی نے کبھی بھی مسلمانوں کو قبول نہیں کیا، خاص طور پر بی جے پی حکومت بننے کے بعد مسلمانوں پر مظالم بڑھ گئے ہیں اور ریاستی سطح پر ہندو مذہب کو اہمیت دی جانے لگی ہے۔