پانی نعمت ربِ جلیل۔۔۔ اس کی قدر کیجئے!
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ:اور وہی ہے جس نے اپنی رحمت (یعنی بارش) سے پہلے ہوائیں بھیجیں جو (بارش کی)خوشخبری لے کر آتی ہیں اور ہم نے ہی آسمانوں سے پاکیزہ پانی اتارا ہے تاکہ ہم اس کے ذریعے مردہ زمین کو زندگی بخشیں اور اپنی مخلوق میں سے بہت سے مویشیوں اور انسانوں کو اس سے سیراب کریں۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ وضو کر رہے تھے (اور اس میں پانی کے استعمال میں فضول خرچی سے کام لے رہے تھے) رسول اللہ ﷺ ان کے پاس سے گزرے تو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا سعد!یہ کیسا اسراف ہے (یعنی پانی بے ضرورت کیوں بہایا جارہا ہے؟ انہوں نے عرض کیا حضورؐ! کیا وضو کے پانی میں بھی اسراف ہوتا ہے؟ (یعنی کیا وضو میں پانی زیادہ خرچ کرنا بھی اسراف میں داخل ہے) آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا! ہاں یہ بھی اسراف میں داخل ہے اگر چہ تم کسی جاری نہر کے کنارے ہی پر کیوں نہ ہو (مسند احمد،سنن ابن ماجہ)
اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے شمار نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔ان نعمتوں میں سے ایک اہم نعمت پانی ہے۔ دینِ اسلام نے طہارت اور پاکیزگی کو نصف ایمان قرار دیا اور وضو اور غسل کے ذریعے اپنے جسم کو پاک کرنے کے طریقے سکھائے، اس میں انسان پانی ہی استعمال کرتا ہے۔ نبی ﷺ نے بہت سے ارشادات میں خوب اچھی طرح وضو کرنے کا حکم فرمایا، جیسے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ کیا میں تمہیں وہ اعمال نہ بتاؤں جن کی برکت سے اللہ تعالیٰ گنا ہوں کو مٹادیتا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: ضرور ارشاد فرمایئے تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: (1) تکلیف اور ناگواری کے باوجود پوری طرح کامل وضو کرنا، (2) مسجدوں کی طرف زیادہ قدم اُٹھانا (3) ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا منتظر رہنا، فرمایا کہ یہی رباط ہے یعنی سرحدوں کی حفاظت جیسا ثواب ہے۔(صحیح مسلم) اسی طرح نبیﷺ نے یہ ادب بھی سکھلایا کہ اگر باوضو ہو کر کوئی عبادت ادا کر لی تو پھر اگلے وقت کی عبادت کا وقت آنے پر وضو موجود ہو تو پھر بھی تازہ وضو کرنے کی فضیلت ارشاد فرمائی۔ حضرت عبداللہ ابن عمر ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس شخص نے طہارت کے باوجود (یعنی باوضو ہونے کے باوجود) وضو کیا۔اس کے لئے دس نیکیاں لکھی جائیں گی۔ (جامع ترمذی)
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اہلِ قباکی شان میں یہ آیت نازل فرمائی '' إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِینَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِینَ روایات میں ہے کہ اہلِ قبا پتھروں کے ساتھ استنجاء کرنے کے ساتھ ساتھ پانی بھی استعمال کیا کرتے تھے۔نبی ؐنے وضو کی فضیلت میں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اس سے انسان کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا جب کوئی مومن بندہ وضو کرتا ہے، اپنے چہرے کو دھوتا ہے اور اس پر پانی ڈالتا ہے تو پانی کے ساتھ اس کے چہرے سے وہ سارے گناہ نکل جاتے ہیں (دُھل جاتے ہیں) جو اس کی آنکھ سے ہوئے تھے، اس کے بعد جب وہ اپنے ہاتھ دھوتا ہے تو سارے گناہ اس کے ہاتھوں سے خارج ہو جاتے ہیں اور دُھل جاتے ہیں جو اس کے ہاتھوں سے ہوئے۔اس کے بعد جب وہ اپنے پاؤں دھوتا ہے،اس کے سارے گناہ اس کے پاؤں سے خارج ہو جاتے ہیں جو اس کے پاؤں سے ہوئے۔ یہاں تک کہ وہ وضو سے فارغ ہونے کے ساتھ ساتھ گناہوں سے بھی بالکل پاک صاف ہو جاتا ہے۔ لیکن وضو کرتے ہوئے بھی پانی زیادہ استعمال کرنے سے نبی ﷺ نے منع فرمایا۔ بعض لوگوں کو اس بات کا وسوسہ ہوتا ہے کہ پتہ نہیں ہمارا یہ عضو اچھی طرح پاک ہوا ہے یا نہیں، وہ کافی دیر تک وضو کرتے رہتے ہیں یا صرف وسوسوں کی وجہ سے بار بار وضو کرتے ہیں، نبیﷺ نے فرمایا: بے شک وضو کے لئے بھی ایک شیطان ہے جس کا نام ''ولہان'' ہے پس تم پانی کے وسوسوں سے بچو۔ (رواہ الترمذی) ترمذی شریف میں روایت موجود ہے کہ نبیﷺایک مد پانی کے ساتھ وضو فرماتے تھے اور ایک صاع پانی سے غسل فرماتے تھے۔ (رواہ الترمذی)
اگرچہ اس بات پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ شرعی طور پر وضو اور غسل کے لئے کوئی خاص پانی کی مقدار مقرر نہیں، ضرورت کے بقدر پانی استعمال کرنا جائز ہے۔لیکن اس بات پر بھی محدثین کا اتفاق ہے کہ رسول اللہﷺ عام طور پر ایک مد پانی سے وضو فرماتے تھے اور ایک صاع پانی سے غسل فرماتے تھے۔ امام ابو حنیفہ، امام محمد اور امام احمد رحمھم اللہ کے نزدیک ایک مد دورطل کا ہوتا ہے اور ایک صاع میں چار مد ہوتے ہیں،لہٰذا ایک صاع میں آٹھ رطل ہوتے ہیں۔
مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ نے اپنی کتاب '' اوزانِ شرعیہ میں بڑی تحقیق کے ساتھ لکھا ہے کہ ایک رطل آدھ سیر (آدھا کلو) سے کچھ کم ہوتا ہے۔اس طرح آج کل کے حساب سے ایک ”مد“پانی ایک لیٹر کے قریب ہو گا اور ایک صاع پانی تقریباً ساڑھے تین لیٹر کے قریب ہو گا۔ عرب ممالک میں اس وقت بھی پانی کی انتہائی قلت ہوتی تھی، نبی ﷺ نے شرعی امور میں بھی پانی کے اسراف اور فضول خرچی سے منع فرمایا اس کے ساتھ ساتھ نبیﷺ نے صاف ستھرے پانی کو گندہ اور ناپاک کرنے سے منع فرمایا، جامع ترمذی میں ارشادِ نبوی منقول ہے کہ کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے کہ پھر اس سے وضو کیا جانے لگے معلوم ہوا کہ صاف ستھرے پانی کو بلاوجہ گندہ اور ناپاک کر دینا بھی منع ہے۔
دورِ جدید میں فیکٹریوں کے زہریلے مواد کو ضائع کرنے کے بجائے نہروں اور دریاؤں میں بہا دیا جاتا ہے، یا زیر زمین اس انداز میں منتقل کیا جاتا ہے کہ اطراف کے رہنے والے لوگوں کے لئے پینے کا پانی بھی میسر نہیں ہوتا اور جب زمین سے جدید مشینوں کے ذریعے بھی کوشش کی جاتی ہے تو سینکڑوں فٹ کھدائی کرنے کے باوجود پانی نہیں ملتا، اگر مل جائے تو وہ پینے کے قابل نہیں ہوتا کیونکہ اس میں زہریلے مواد کی آمیزش ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرمایا کہ اگرتم میرا شکر کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو البتہ میرا عذاب بہت سخت ہے۔
آج پانی کی قلت ایک عذاب کی صورت میں مسلط ہے۔پانی کی بے قدری اور فضول خرچی بھی اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے کا سبب ہے اور اجتماعی طور پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں کے اثرات کے طور پر پانی کی قلت کا سامنا ہے۔ دریا خشک ہوتے جارہے ہیں، زیر زمین پانی کا ذخیرہ کم سے کم ہوتا جا رہا ہے،یہ سب ظاہری صورتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جن دریاؤں سے بھر پور زمین دی تھی، سر سبز و شاداب علاقے دیئے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسے ملکوں کو ہم پر مسلط کر دیا جو پانی روکنے کا سبب بنے، دوسری طرف اپنی ہی سرزمین میں جہاں پانی کی ضرورت نہیں،وہاں ایک جھیل میں اللہ تعالیٰ نے ایسی طغیانی پیدا کر دی کہ وہاں پانی کی کثرت عذاب کی صورت میں سامنے آرہی ہے۔
آج وقت کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے گناہوں سے توبہ کریں، اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کو اس کے حکم کے مطابق استعمال کریں اورانہی نعمتوں کو ضائع کرنے اور ان کے فضول خرچی کرنے سے بچیں تاکہ اللہ تعالیٰ ان نعمتوں میں برکت عطا فرما دیں۔
final