معراج الدین خان مرحوم (1958-2016ء)
5؍مارچ 2016ء بروز ہفتہ تحریک اسلامی کا ایک گوہر نایاب دنیا کی تنگ نائیوں سے نکل کر عالم جاودانی کی وسعتوں میں جا بسا۔ یہ ہمارا پیارا بھائی، شیریں مقال ساتھی اور خوش خصال داعئ اسلام برادرم معراج الدین خان تھا۔ مرحوم اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ عموماً چہرے پر مسکراہٹ ہوتی تھی، مگر پیچیدہ اور غور طلب مسائل زیر بحث ہوتے تو انتہائی متانت اور سنجیدگی کے ساتھ مکمل تجزیہ کرکے ان پر اپنی فکرانگیز رائے پیش کرتے۔ یاد نہیں پڑتا کہ مرحوم سے پہلی ملاقات کب ہوئی تھی، البتہ اتنا یاد ہے کہ جب وہ ناظم اعلیٰ بنے تو میں ایک مرتبہ کینیا سے پاکستان آمد پر منصورہ میں ایک رات کے لئے مقیم ہوا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے کچھ نوجوان مجھ سے ملنے کے لئے آئے، ان میں ان کے ناظم اعلیٰ جناب معراج الدین خان صاحب بھی تھے۔ بھرپور جسم، درمیانہ قد، سیاہ داڑھی، سرپہ سفید ٹوپی اور ہاتھ میں ایک چھوٹا سا بیگ۔ تعارف سے قبل ہی علیک سلیک پر میں نے کہا کہ آپ جماعت اسلامی کے صحیح کارکن نظر آتے ہیں کہ ہاتھ میں تھیلا ہے اور شاید اس میں کچھ اسلامی کتابچے بھی ہوں گے۔
ابھی معراج بھائی نے کچھ کہا بھی نہ تھا کہ ان کے رفقا میں سے ایک دوسرے دوست نے کہا کہ یہ ہمارے ناظم اعلیٰ معراج الدین خان صاحب ہیں۔ اس دوران معراج الدین صاحب نے جو کتاب اپنے تھیلے میں سے نکالی وہ تھی ’’کارکنوں کے باہمی تعلقات‘‘۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ ناظم اعلیٰ اس اہم موضوع پر اتنی موثر کتاب اپنے تھیلے میں رکھے ہوئے کارکنان کے ہمراہ دورہ کررہے تھے۔ اس نشست کی کچھ زیادہ باتیں یاد نہیں، تاہم معراج الدین صاحب کی ایک بات ذہن میں محفوظ ہے۔ فرمانے لگے: ’’اسلامی جمعیت طلبہ کو اپنے سابقین کی سرپرستی کی اشد ضرورت ہے۔ یہ سرپرستی فکری اور معاشی دونوں میدانوں میں درکار ہے۔‘‘ اس مختصر بیانیے سے مزید خوشی ہوئی کہ ناظم اعلیٰ کا ذہنی افق ایک تحریکی رہنما کی عکاسی کررہا تھا۔
چند ہی سال بعد نومبر1985ء میں راقم الحروف بیرون ملک سے مستقل طور پر پاکستان آگیا۔ اس دور میں محترم امیر جماعت میاں طفیل محمد مرحوم ومغفور کے حکم کے مطابق میں مرکز جماعت میں بطورِ نائب قیم ذمہ داری ادا کررہا تھا۔ اسی سلسلے میں صوبہ خیبرپختونخواہ کے بہت کثیر اور طویل دورے کرنے کا شرف حاصل ہوتارہا۔ اس زمانے میں پروفیسر محمد ابراہیم صاحب سے بہت قریبی برادرانہ تعلق قائم ہوا۔ وہ اکثر دوروں میں میرے ہمراہ ہوتے تھے۔ اسی طرح برادران شبیراحمد خان اور معراج الدین خان سے بھی بھرپور ملاقاتیں رہیں۔ بزرگان میں سے جناب مولانا غلام حقانی مرحوم، مولانا گوہررحمان مرحوم، جناب ارباب محمد سعید خان مرحوم، محترم غلام عباس خان مرحوم اور مولانا سلامت اللہ مرحوم کے علاوہ حکیم عبدالوحید صاحب اور جناب محمداقبال مرحوم سے بھی بہت بے تکلفانہ تعلقات رہے۔ معراج الدین صاحب کا آبائی تعلق خیرآبادضلع نوشہرہ سے تھا۔ اس زمانے میں اسلام آباد سے پشاور جانے کے لئے موٹروے نہیں ہوتا تھا۔ دریائے اٹک کو عبور کر کے جی ٹی روڈ پر خیرآباد میں معراج الدین خان صاحب سے ملاقات کی خواہش اکثر پوری ہوجایا کرتی تھی۔ وہ بڑے ہنس مکھ اور مجلسی آدمی تھے۔
اس عرصے میں انھوں نے ایک دن اپنا تعارف نئے انداز میں کروایا۔ فرمانے لگے کہ آپ کوہاٹ کے دورے پر جاتے ہیں تو مولانا محمد سلیم صاحب سے آپ ضرور واقف ہوں گے۔ میں نے کہا کہ یقیناًمولانا سے کوہاٹ کے علاوہ منصورہ میں بھی ملاقاتیں ہوئی ہیں اور ایک بار سنگھوٹہ (سوات) میں بھی ان کے ساتھ تین دن ایک تربیت گاہ میں شرکت کا موقع ملا۔ میں ان کے اخلاص اور شخصیت کی جامعیت سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ مذاق میں کہنے لگے: ہم بھی ان کے متاثرین میں سے ہیں۔ میں نے کہا، کیا مطلب؟ تو بتایا کہ ان کی صاحبزادی میری اہلیہ ہیں۔ پھر اپنی اہلیہ کی تحریک اسلامی کے ساتھ وابستگی اور لگن کا تذکرہ کیا جس سے مجھے بڑی خوشی ہوئی۔
وقت گزرتا چلا گیا تاآنکہ معراج الدین خان صاحب ضلع نوشہرہ کے امیر مقرر کیے گئے اور پہلی مرتبہ 1997ء میں مرکزی شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے۔ اب مرکزی شوریٰ کے اجلاسوں کے دوران ان سے بھرپور ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں۔ وہ شوریٰ کے اجلاسوں میں جچی تلی رائے کا اظہار کیا کرتے تھے۔ عموماً سٹیج کے دائیں جانب دوسری یا تیسری صف میں بیٹھتے تھے۔ میں نے ایک دن ازراہِ مذاق کہا کہ عموماً کہا جاتا ہے کہ دائیں ہاتھ والے حزب اقتدار سے تعلق رکھتے ہیں اور بائیں ہاتھ والے حزبِ اختلاف سے، اس پر کھل کھلا کرہنسے اور کہنے لگے: یہاں نہ کوئی حزب اقتدار ہے اور نہ کوئی حزبِ اختلاف۔ ہر شخص اپنی رائے کے اظہار میں آزاد ہے، مگر ہم اس آزادئ اظہارِ رائے کو کم استعمال کرتے ہیں یا غلط استعمال کرتے ہیں۔ یہ تبصرہ بھی بڑا معنی خیز تھا۔ مرحوم دوبارہ 2000ء میں اور سہ بارہ2003ء میں رکنِ شوریٰ بنے۔ پھر کچھ وقفے کے بعد 2013ء میں ان کا انتخاب ہوا۔ جب معراج بھائی کا انتقال ہوا تو شوریٰ 2016-2019ء کا انتخاب ہوچکا تھا اور وہ رکن شوریٰ منتخب ہوگئے تھے، مگر حلف اٹھانے سے قبل ہی داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ انّا للہ وانّا الیہ راجعون۔ حق مغفرت فرمائے، مرحوم اللہ کے دین کے سچے سپاہی اور قافلۂ حق کے ان تھک سالار تھے۔ مرحوم دوسیشن 1997ء اور 2000ء کے دوران مرکزی مجلس عاملہ کے رکن نامزد کیے گئے۔
جناب معراج الدین خان صاحب نے تحریک کی گود ہی میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد حاجی سبحان الدین تحریک کے پرانے ساتھیوں اور ارکانِ جماعت میں سے تھے۔ معراج الدین خان صاحب خیرآباد میں 15فروری 1958ء کو پیدا ہوئے۔ انھوں نے اللہ بخش ہائی سکول جہانگیرہ سے میٹرک کا امتحان اچھے نمبروں کے ساتھ پاس کیا۔ اس کے بعد اسلامیہ کالج پشاور سے ایف اے اور گورنمنٹ کالج پشاور سے بی اے کیا۔ پھر کراچی یونی ورسٹی سے ایل ایل بی اور پشاور یونی ورسٹی سے ایم اے اسلامیات کی ڈگریاں حاصل کیں۔ اسلامی جمعیت طلبہ سے ابتدائی تعلیم کے دور ہی میں وابستہ ہوگئے تھے۔ آپ حیران ہوں گے کہ مرحوم جمعیت سے قبل جماعت میں شامل تھے کیونکہ گھر کا ماحول مکمل طور پر جماعت اسلامی کے رنگ میں رنگا ہوا تھا۔ ان کو جمعیت کی طرف لانے والے ساتھیوں میں جناب خالد محمودایڈوکیٹ، جناب ڈاکٹر محمد فاروق خان مرحوم اور اس وقت کے ناظم اعلیٰ جناب ظفرجمال بلوچ مرحوم کا کلیدی کردار ہے۔
اکتوبر1976ء میں اسلامیہ کالج میں سالِ دوم کے طالب علم تھے کہ امیدوارِ رکنیت بنائے گئے۔ جلد ہی ان کی رکنیت منظور ہوگئی۔ پھر اسلامیہ کالج اور پشاور شہر کی نظامت کی ذمہ داریاں اد اکرتے ہوئے صوبہ سرحد کی نظامت پر فائز ہوئے اور 15اکتوبر1982ء کو انتیسویں سالانہ اجتماع عام منعقدہ لاہور میں ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے۔ یہ ذمہ داری انھوں نے 20اگست1984ء تک ادا کی۔ ان کا دور نظامت اعلیٰ بڑا پرآشوب اور پرصعوبت تھا۔ ناظم اعلیٰ کو مارشل لا کے ضابطوں کے تحت بارہا پس دیوارِ زنداں جانا پڑا۔ کئی مرتبہ ضلع بدر کیے گئے اور مارشل لا عدالتوں نے انھیں جیل کے ساتھ کوڑوں کی سزا بھی سنائی۔ ان کے اس ابتلا کا تفصیلی حال خود ان کی زبانی ’’جب وہ ناظم اعلیٰ تھے‘‘ حصہ چہارم میں دیکھا جاسکتا ہے۔ کئی مرتبہ سٹیج پر تقریر کے دوران ان کی گرفتاری کے لئے ایس پی رینک کے افسران اپنی فورس کے ساتھ آدھمکتے۔ معراج الدین صاحب کی کوشش ہوتی کہ تقریر پوری کرلیں، پھر گرفتاری پیش کردیں گے۔ لیکن جب محسوس کرتے کہ افسران تقریر نہیں کرنے دیں گے تو وہ ایک اور حکمت استعمال کرتے۔ دعا کے لئے ہاتھ اٹھادیتے اور اس دعا کے اندر اپنی پوری بات اللہ تعالیٰ کے حضور التجا کی صورت میں مکمل کرلیتے۔
معراج الدین خان مرحوم نے اپنے نظامت اعلیٰ کے دور میں پورے ملک کے بھرپور دورے کیے۔ بلوچستان میں جمعیت کا کام ہمیشہ سے کمزور رہا ہے۔ اس حوالے سے انھوں نے بلوچستان کو خاص اہمیت دی۔ اسی زمانے میں کراچی میں مہاجر قوم پرستی کا بیچ بویا گیا جس نے کچھ ہی عرصے میں محبت واخوت کے اس شہر کو نفرتوں کی دلدل میں دھکیل دیا۔ محبت کی شیرینی، عداوت کے زہر میں بدل گئی۔ روشنیوں کا شہر ظلم کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں ڈبودیا گیا۔ معراج الدین خان نے کراچی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے کام کو منتشر ہونے سے بچایا اور جرأت وحکمت کے حسین امتزاج کے ساتھ تعلیمی اداروں میں عصبیت پرستوں کا مقابلہ کیا۔ اپنی نظامت اعلیٰ کے زمانے میں افغانستان کے علاوہ ترکی، برطانیہ اور بنگلہ دیش میں بھی مختلف کانفرنسوں میں شرکت کرکے جمعیت کی نمایندگی کی۔ افغانستان میں گرفتار بھی ہوئے۔ اس سفر میں پروفیسر محمد ابراہیم بھی ان کے ہمراہ تھے۔ یہ دسمبر1993ء کی بات ہے۔ پروفیسرابراہیم صاحب اپنے ایک مضمون میں تحریر فرماتے ہیں:
’’دسمبر1993ء میں ہم دونوں نے پروگرام بنایا کہ مجاہدین کے درمیان کچھ وقت گزارا جائے۔ چند راتیں پاک افغان سرحد پر واقع خوست کے البدر کیمپ میں گزارنے کے بعد ہم گردیز اور لوگر کے راستے چہارآسیاب گئے، یہاں ہماری انجینئرگلبدین حکمت یار صاحب کے ساتھ ملاقات ہوئی۔ 31دسمبر1993ء کے دن ہم نے طے کیا، پہلے کابل شہر کا ایک چکر لگایا جائے، اس کے بعد نماز جمعہ کے لئے واپس چہارآسیاب آئیں گے اور محترم انجینئر صاحب کی امامت میں جمعہ کی نماز ادا کریں گے۔ صدارتی محل میں استاد برہان الدین ربانی صاحب کے ساتھ ملاقات کی کوشش کی، مگر استاد محترم نماز جمعہ کی تیاری میں مصروف تھے، اس لئے ملاقات نہ ہوسکی۔ کابل شہر سے نکلتے ہوئے عیدگاہ کے پاس تھے کہ عبدالرشید دوستم کے سپاہیوں نے ہم دونوں کو گرفتار کرلیا۔ دن بھر اپنے دفتر میں رکھ کر مغرب کے تھوڑی دیر بعد ہمارے ہاتھ پشت کی طرف باندھ دیے گئے۔ اس کے بعد انھوں نے میری پگڑی سے ہم دونوں کی آنکھیں باندھ کر ہمیں گاڑی میں بٹھادیا۔ یہاں سے وہ ہمیں تپہ نادرخان کی چھوٹی سی پہاڑی پر بنائے گئے زیرزمین کمروں میں لے گئے۔ ہماری گاڑی تو ہمیں واپس نہ مل سکی، البتہ ہم دونوں ایک ہفتے کے بعد رہا ہوگئے اور اگلے جمعہ یعنی 7جنوری 1994ء کو چہارآسیاب میں انجینئرگلبدین حکمت یار کی امامت میں نماز ادا کرنے کے قابل ہوئے، جبکہ ہمارے بعد گرفتار کیے جانے والے دو پنجشیری اور تین پشائی (جلال آباد کے قریب ایک قبیلہ) نوجوانوں کے بارے میں معلوم ہوا کہ ان کو بعد میں قتل کردیا گیا تھا۔‘‘ (’’جہاد کشمیر‘‘، یکم تا30اپریل2016، ص۱۱)
معراج الدین خان صاحب سے تحریکی تعلق کئی نوعیتوں کا تھا۔ مرکزی تربیت گاہ منصورہ میں وہ جس باقاعدگی کے ساتھ خود شرکت فرماتے، وہ انتہائی قابل ستایش عمل ہے۔ اس کے ساتھ وہ اپنے سکولوں اقرأ ایجوکیشن سسٹم کے اساتذہ کو بھی باقاعدہ اس تربیت گاہ میں شرکت کے لئے بھیجتے اور اکثر ان کے ساتھ خود بھی شرکت فرماتے۔ انھوں نے اپنی عملی زندگی میں اپنے خاندانی پیشہ ماربل اور بجری بھی قسمت آزمائی کی، مگر اس میں اپنے آپ کو زیادہ ایڈجسٹ نہ کر پائے۔ اس عرصے میں اور بعد ازاں بھی جب کبھی بجری اور ماربل وغیرہ کی ضرورت ہوتی تو میں معراج بھائی سے درخواست کرتا۔ وہ بہترین اور معیاری مال نہایت ہی مناسب نرخوں پر بھجوا دیا کرتے تھے۔ اس فیلڈ کو چھوڑا تو اس کے بعد انھوں نے تعلیم کی طرف توجہ دی اور پہلا تعلیمی ادارہ اقرأ کیڈٹ سکول اپنے آبائی شہر کے قریب جہانگیرہ میں قائم کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کام میں ان کو اتنی کامیابی عطا فرمائی کہ اب اللہ کے فضل وکرم سے پورے صوبے میں اقرأ سکول وکالجز کی ایک تعلیمی زنجیر (Chain) بن گئی ہے، جس سے درجنوں ادارے منسلک ہیں، ہزاروں طلبہ اور سیکڑوں اساتذہ معیاری تعلیم اور باعزت روزگار سے مستفید ہورہے ہیں۔ یہ ان سب کے لئے صدقہ جاریہ ہے۔
جیسا کہ پہلے اشارتاً عرض کیا جاچکا ہے، معراج الدین خان صاحب کی پہلی شادی مولانا محمد سلیم مرحوم کی بیٹی اور ہماری تحریکی بہن محترمہ زینب صاحبہ سے ہوئی۔ زینب بہن کافی عرصے تک جماعت اسلامی حلقہ خواتین صوبہ خیبر پختونخواہ کی ناظمہ رہی ہیں۔ بہت اچھی مدرسہ اور قرآنی علوم پر دسترس رکھنے والی اس خاتون نے اپنی شادی کے بعد خیرآباد میں جامعۃ المحصنات قائم کی۔ اس میں ان کے میاں معراج الدین صاحب، سسر جناب حاجی سبحان الدین مرحوم اور والد مولانا محمد سلیم مرحوم کی معاونت اور حوصلہ افزائی کا بہت بڑا حصہ ہے۔ معراج الدین صاحب نے دوسری شادی مالاکنڈ ڈویژن، غالباً بٹ خیلہ کے مقام سے کی۔ ان کی دوسری بیوی بھی خالص تحریکی خاتون اور ان کی پہلی بیوی کی تلمیذہ اور انھی کی تربیت یافتہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں بیویوں سے معراج الدین صاحب کو اولاد صالح عطا فرمائی۔ زینب سے اللہ نے ایک بیٹا اور دو بیٹیاں دیں۔ یہ تینوں شادی شدہ ہیں، جبکہ دوسری بیوی سے چار بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئے، جو ابھی زیر تعلیم ہیں۔ اللہ ان سب کو سلامت رکھے اور اپنے عظیم والد کے نقشِ پا پہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
میں نے معراج بھائی کی وفات کے بعد ان کے بھائی عزیزم عبداللہ خان سے پوچھا کہ آپ اپنے بڑے بھائی اور مرحوم قائد کے بارے میں مختصر الفاظ میں کیا تبصرہ فرمائیں گے۔ انھوں نے جواب میں جو کچھ کہا میں اپنے الفاظ میں اس کا مفہوم لکھ رہا ہوں۔ کہنے لگے معراج بھائی میرے محسن بھی تھے اور مربی بھی۔ بچپن سے لے کر زندگی کے آخری لمحات تک کبھی میں نے ان کو غصے کی حالت میں اخلاقی حدود پامال کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ وہ انتہائی ملنسار، مہمان نواز، غریب پرور اور ہر ایک کے ہمدرد اور خیرخواہ تھے۔ اپنے اور پرائے سب ان کے جنازے میں ان کی خوبیوں کے رطب اللسان تھے۔ وہ پورے خاندان کے لئے ایک شجرسایہ دار تھے۔ ان کا اچانک اٹھ جانا ہمارے لئے اتنا بڑا سانحہ ہے کہ ہم اللہ کی مدد کے بغیر اس خلا کو پرنہیں کرسکتے۔ مرحوم کے بیٹے سلمان فاروق سے میں نے فون پر ان کے والدگرامی کی وفات پر تعزیت کرتے ہوئے اپنی یادوں کے حوالے سے ان کی خوبیاں بیان کیں، ساتھ ہی میں نے پوچھا سلمان بیٹے! آپ کو یاد ہے کہ آپ کے والد محترم نے کبھی کسی غلطی پر کوئی سزا دی ہو یا جھڑکا ہو؟ اس نے جواب میں کہا: انکل! مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ والد صاحب نے ہمیشہ غلطیوں کی اصلاح پیار اور محبت سے کی۔ انھوں نے کبھی کوئی جھڑکی اور سزا نہیں دی تھی۔ میں نے کہا، تمھارے دیگر بہن بھائیوں کا کیا تاثر ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ ابو جی کا رویہ ہم سب کے ساتھ یکساں مشفقانہ اور مربیانہ تھا۔ وہ حقیقی معنوں میں ایسے مربی تھے کہ جن کی اپنی زندگی بھی ہمارے لئے بہترین نمونہ تھی اور جن کی گفتگو اور پندونصائح بھی اپنے اندر بہت درس اور عبرت لئے ہوئے ہوتے تھے۔
معراج الدین خان صاحب کا پورا خاندان مکمل طور پر تحریک سے وابستہ ہے۔ وہ خوش نصیب ہیں کہ ان کے دونوں سسرالی خاندان بھی پوری طرح تحریک کو سمجھتے اور اس قافلے میں اپنا کردار ادا کرنے والے بے لوث بندگانِ خدا ہیں۔ معراج الدین صاحب کے بڑے بھائی عمران الدین خان صاحب ماربل کے کاروبار میں بہت کامیاب تاجر وصنعت کار ہیں۔ ان کے چھوٹے بھائی جناب عبداللہ خان بھی تعلیمی سلسلے سے منسلک ہیں۔ اب ان کے تعلیمی ادارے سکول سے آگے بڑھ کر کالج کی سطح تک تعلیم کا اہتمام کررہے ہیں۔ معراج الدین خان صاحب کے بڑے بیٹے سلمان معراج نے عالمی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد سے ایل ایل ایم شریعہ کی ڈگری حاصل کی اور اب سوات یونی ورسٹی میں تدریس کا کام کررہے ہیں۔ اسی طرح ان کے دوسرے بیٹے اور بیٹیاں بھی تعلیم کے مختلف مدارج میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ کئی بچے حفظ قرآن کی سعادت سے بہرہ یاب ہوچکے اور باقی ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو کامیابیوں سے ہمکنار کرے۔ )آمین)*