دہشت گردی سے قبائلی علاقوں میں زیادہ نقصان شعبہ تعلیم میں ہوا

دہشت گردی سے قبائلی علاقوں میں زیادہ نقصان شعبہ تعلیم میں ہوا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

خیبر ایجنسی(عمران شنواری )
کسی بھی ملک یا معاشرے کی ترقی اور تہذیب میں تعلیم کا بنیا دی کردار ہو تا ہے جس کی اہمیت تمام مذاہب نے واضح کی ہے جبکہ آج پوری دنیا میں معاشی اور اقتصادی ترقی کا کردار بھی تعلیم اور ٹیکنا لو جی کے ساتھ منسلک کیا جا رہا ہے لیکن بد قسمتی سے قبائلی علاقوں میں دیگر اداروں کی طرح تعلیم کا شعبہ بھی بری طرح متاثر ہو اہے خصوصا گزشتہ پانچ سالہ دور حکومت میں تعلیم کے شعبے میں بہتری آنے کی بجائے یہ شعبہ سب سے زیادہ متا ثر ہوا ہے قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے باعث سب سے زیادہ تعلیم کا شعبہ متا ثر رہا ہے سینکڑوں سکولز بم دھماکوں سے اڑائے گئے جبکہ کئی علاقوں سے بدامنی کے باعث نقل مکانی کرنے والے ہزاروں بچوں کو تعلیم کے حصول سے محروم ہونا پڑا لیکن جہاں حالات ساز گار رہے اور تعلیمی ادارے بھی محفوظ رہے وہاں بھی حکومت کی مجرمانہ لاپر واہی نے کئی مسائل پیدا کئے ہیں ہے قبائلی علاقوں میں قائم تعلیمی اداروں میں پہلے سے ٹیچنگ سٹاف کی کمی محسوس کی جارہی ہے اور سہولیات کی عدم موجودگی کی وجہ سے قبائلی علاقوں کے تعلیمی اداروں میں پریشان کن صورتحال دیکھنے کو ملتی ہے اور شائد یہی بنیادی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے قبائلی علاقوں میں بچوں کو معیاری تعلیم دلوانا مشکل دکھائی دیتا ہے جس کی وجہ سے اکثر قبائلی بچے آگے جاکر اعلیٰ تعلیم کے حصول میں دلچسپی نہیں لیتے جبکہ رہی سہی کسر قبائلی علاقوں میں جاری بد امنی، دہشت گردی اور انتہا پسندی نے پوری کر دی ہے جسکی وجہ سے تمام قبائلی علاقوں میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1195سکول اب تک بارودی مواد کے دھماکوں سے تباہ کئے گئے ہیں جن میں باجوڑ اور خیبر ایجنسی کے علاوہ مہمند ایجنسی سر فہرست ہیں جبکہ باقی قبائلی علاقوں میں بھی درجنوں سرکاری سکولز اور کالجز برباد کئے جاچکے ہیں جن میں زیادہ تر لڑکیوں کے تعلیمی ادارے شامل ہیں قبائلی علاقوں میں تباہ شدہ سکولوں میں تقریبا 846 سکولوں پر تعمیراتی کام جاری ہے جبکہ خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ جو سب سے زیادہ دہشت گردی کی وجہ سے متاثر ہوئی جس میں تمام انفراسٹرکچر تباہ ہو گیا اور لاکھوں لوگوں نے گھر بار چھوڑا اور آئی ڈی پیز بن گئے ہیں اسکے باوجود بھی قبائلی بچے تعلیم سے لگاؤ رکھتے ہیں اور وہ خود اور انکے والدین سمجھ چکے ہیں کہ تعلیم کے بغیر وہ آگے نہیں بڑھ سکتے اور نہ ہی امن اور خوشحالی کو شرمندہ تعبیر کرسکتے ہیں قبائلی والدین اس کٹھن اور سخت ماحول میں بھی اپنے بچوں کو سکولوں میں داخل کرواتے ہیں اور اپنے بچوں کی تعلیم جاری رکھنے کے خواہش مندہیں قبائلی علاقوں میں مختلف فوجی آپریشنیزکے بعد امن اومان بحال ہو نا شروع ہوگیا ہے اور اآئی دی پیز ٹی ڈی پیزکی واپسی بھی شروع ہو گئی بلکہ زیادہ تر لوگ واپس جا چکے ہیں تو حکو مت نے بھی تباہ شدہ سکولوں پر تیزی سے کام شروع کر دیا ہے اور اب تحصیل باڑہ میں ایک لڑکیوں اور ایک لڑکوں کے سکول کو شروع کر دیا ہے جسے خیبر ایجنسی کے عوام نے خوش آئند قرار دیا اس سلسلے میں گز شتہ روز ایجوکیشن آفیسرخیبر عبدالروف نے بتایا کہ خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ میں گز شتہ کئی سالوں سے جاری دہشت گردی کی وجہ سے تقریبا 93سکول کو مکمل طورتباہ کئے جا چکے ہیں اور مختلف درجوں کے تقریبا 50سکولوں کو جزوی نقصان پہنچا ہے اب امن بحال ہونے کے بعد تما م سکولوں پر تعمیراتی کام جاری ہے اور اب تک تقریبا 60فیصد کام مکمل ہو گیاہیں انہوں نے کہا کہ اپریل سے سکولوں میں 27ہزار بچوں کو داخل کرنے کا چیلنج تھا جس میں تقریبا اب تک 20ہزار بچوں کو سکولوں میں داخل کر اچکے ہیں اور مزید بھی داخل کر رہے ہیں بعض علاقوں میں اب بھی حالات اتنے سازگا ر نہیں ہیں انہوں نے کہا کہ فی میل سٹاف تعینات کرنے کیلئے مشکلات درپیش ہیں کیونکہ اب تعمیراتی کام جاری ہیں لوگوں کے گھر بھی دوبارہ آباد ہو رہے ہیں اس لئے فی میل سٹاف کیلئے ٹرانسپورٹ اور رہائش کا بندوبست نہیں اور تقریبا 200فی میل پوسٹیں خالی ہیں انہوں نے کہا کہ بچوں کو سردی سے بچنے کیلئے تمام سکولوں میں ٹاٹ فراہم کر ینگے اور خیموں میں زیر تعلیم طلباء کو ٹاٹ دینگے سکولوں میں اب روز بروز طلباء کی تعداد بڑھتی جارہی ہے انہوں کہا کہ دور افتادہ علاقہ تیراہ میں 26سکولوں پر کام جاری ہے لیکن وہاں پر انہیں دو مسلئے درپیش ہیں ایک کیونکہ تیراہ بہت زیادہ دور ہے اس لئے سامان پہنچانے میں بہت مشکلات درپیش ہو تی ہیں ور دوسرا موسم کا وہاں پرصرف چار یا پانچ مہینوں میں تعمیراتی کام کر سکتے ہیں کیونکہ وہاں سردی بہت زیادہ ہو تی ہے اس لئے تعمیراتی کاموں میں مشکلات درپیش آرہی ہیں خیبر ایجنسی کی تنیوں تحصیلو ں باڑہ جمرود اور لنڈیکوتل میں امن بحال ہونے کے بعد سرکاری سکولوں میں طلباء کی تعداد میں اضافہ ہو تاجارہا ہے۔

مزید :

ایڈیشن 1 -