تحریک انصاف کے چیئرمین کی تو قعات عبث،وعدے کرنے والے ساتھ نہیں ہیں
ملتان کی سیاسی ڈائری: شوکت اشفاق
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے جس وقت ایک مرتبہ پھر اسلام آباد دھرنے کا اعلان کیا تھا اور اس کیلئے 2 نومبر کی تاریخ مقرر کی تھی تو انہیں امید نہیں بلکہ یقین تھا کہ اس وقت تک حکومت وقت کیخلاف اتنا مواد جمع ہو چکا ہوگا کہ بڑی آسانی سے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر موجود سیاسی طاقتوں کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوجائیں گے لیکن اس دوران پے در پے مختلف قومی سیاسی اور دوسرے واقعات نے سیاسی جماعتوں کے قبلے کا رخ ہی تبدیل کر دیا اور اب یہ پوزیشن ہے کہ محض چند روز قبل عمران خان کی ریلی بارے اخلاقی اور سیاسی حمایت کا یقین دلانے والے نہ صرف اپنا اپنا بول رہے ہیں بلکہ اب ان کیلئے یہ بہترین وقت ہے کہ وہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کر لیں اگر ن لیگ کی حکومت کے ساتھ رہنا ہے تو ان سے کیا سیاسی اور اقتصادی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اور اگر مخالفت کرنی ہے تو پھر اس کیلئے کون سا وقت ہے اس کیلئے اگر وہ نواز حکومت کو کوئی چھوٹا موٹا سیاسی فائدہ دے رہے ہیں تو اس کیلئے وہ ماضی کی تمام باتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جتائیں گے مگر اب یہ عالم ہے کہ اس وقت آج معرکے کیلئے عمرا ن خان کے ساتھ شیخ رشید پنڈی والے کے علاوہ سیاسی طور پر کوئی کھڑا نظر نہیں آ رہا جس کا انہیں نقصان بھی ہوا ہے کیونکہ پہلے خیال تھا کہ شاید پیپلز پارٹی کچھ چھوٹی موٹی سیاسی مدد کردے گی لیکن لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے چیئرمین بلاول زرداری کو میدان میں اتار کر یہ پیغام دیا ہے کہ چونکہ وہ اسمبلی کے اندر باقاعدہ اپوزیشن ہیں اس لیے وہ سیاسی کھیل بھی تنہاہی کھیلیں گے اس نشے میں بلاول زرداری نے کوئٹہ کے جلسہ میں ایک مرتبہ پھر نواز شریف حکومت کیخلاف اپنے چار مطالبات کو پھر دہرایا ہے اور عمران خان پر سخت تنقید کرتے ہوئے انہیں مشورہ بھی دے ڈالا ہے کہ وہ تحریک سے باز رہیں کیونکہ اب کسی ایمپائر کی کوئی انگلی اٹھنے والی نہیں ہے انہوں نے یہ کہا کہ عمران خان ’’ایمپائر‘‘ کی ’’انگلی‘‘ کے بغیر کوئی تحریک نہیں چلا سکتے اور ان کی طرز سیاست کا نواز شریف حکومت کو بہت فائدہ رہا ہے اور وہ مضبوط ہورہے ہیں بلاول زرداری نے وزیر اعظم چوہدری نثار علی خان پر بھی سخت تنقید اور ان کے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا اور حکومت کو وارننگ اور دھمکی بھی دی کہ اگر ان کے چار مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو پھر وہ 27دسمبر کی موجودہ حکومت کیخلاف قبل از وقت انتخابات کرانے کیلے احتجاجی تحریک چلائیں گے اب وہ اس قول پر اترتے ہیں کہ نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن ایک بات واضح ہے کہ ملک میں جاری سیاسی افراتفری میں پیپلز پارٹی اپنا سیاسی قد کاٹھ مثبت بنانے کی بجائے اپنے اس مؤقف سے بھی پیچھے ہٹ رہی ہے جو وہ بار بار دہراتے ہیں کہ ہم موجودہ حکومت کو اپنا آئندہ وقت پورا کرنے میں نہ صرف مدد کریں گے بلکی کسی بھی غیر آئینی اقدام کی مخالفت کریں گے اور جمہوریت ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے مگر بلاول زرداری کے اس بیان کا کیا مطلب لیا جانا چاہیے اور اس کا کیا سیاسی نقصان ہوگا اس کیلئے آنے والے وقت کا انتظارکرنا پڑے گا۔
دوسری طرف وفاقی اور پنجاب حکومت اپنے نااہل اور نادان مشیروں کے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے اپنی سرکاری طاقت استعمال کرکے پورے پنجاب اور اسلام آباد کا پہیہ جام کر رہے ہیں جو شاید عمران خان اور پوری تحریک انصاف بھی مل کر نہیں کر سکتی تھی لیکن ان ’’مہا کلاکاروں‘‘ نے وزیر اعظم میاں نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سے اعتماد میں اپنے فیصلے کروا لیے ہیں جو اس وقت نہ صرف حکومت کے سخت خلاف جا رہے ہیں بلکہ دوسری طرف وہ تحریک انصاف اور عمران خان کیلئے ایک بڑے سیاسی فائدے کا باعث بن رہے ہیں ایکطرف تو ن لیگ حکومت کا شروع سے ہی یہ المیہ رہا ہے کہ ان کے پاس میڈیا مینجمنٹ کا کوئی ایسا بندہ نہیں ہے جو انہیں صحیح مشورہ دے اس کے تما م وہ لوگ ہیں جو ان دونوں بھائیوں کو ملتے ہی یہ کہتے پائے جاتے ہیں ’’میاں صاحب چک کے رکھو‘‘ اور آخر کار میاں صاحبان خود ہی چکے جاتے ہیں بجائے اس کے کہ وہ کسی اور کو چک سکیں اب ایسی صورت میں پتہ نہیں وہ کون سے مشیر ہیں جنہوں نے یہ مشورہ دیا ہے کہ تحریک انصاف کے کارکنوں اور عہدیداروں کو قبل ازوقت گرفتار کر لیا جائے یا پھر ٹرانسپورٹرز کو پابند کیا جائے کہ وہ انہیں ٹرانسپورٹ کو سہولت فراہم نہ کریں ٹرانسپورٹ فراہم نہ کرنے کا مطلب ہے کہ ٹرانسپورٹر اپنی گاڑیاں چھپا لیں جس کا براہ راست اثر عام عوام پر پڑنا ہے اور اس وقت بھی جو اطلاعات ہیں اس کیمطابق پنجاب کے تمام جنرل اور دوسرے چھوٹے بس اور ویگن سٹینڈز کو زبردستی بند کروادیا گیا ہائی ویز پر جگہ جگہ کنٹینر کھڑے کرکے سڑکیں بلاک کر دی گئیں ہیں تاکہ ملتان سمیت جنوبی پنجاب سے کوئی ان کے دھرنے میں شرکت نہ کر پائے سیاسی تجزیہ کار اسے حکومت کی بوکھلاہٹ قرار دے رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ حکومت خود اپنے لیے اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے پنجاب اور اسلام آباد کا پہیہ جام کر رہی ہے جس کا عوام پر بہت منفی اثر پڑے گا لیکن ’’انہیں‘‘ سمجھائے تو سمجھائے کون کیونکہ یہ تو ہر ادارے کے ساتھ متھا لگانے کیلئے ہر وقت تیار ہیں ۔
ملتان کے شہریوں کیلئے ’’تحفہ خاص‘‘ میٹرو بس پراجیکٹ میں ڈیزائن اور تعمیر سے متعلق ایسے خوفناک نقائص سامنے آئے ہیں جس سے اس پراجیکٹ کے بارے میں کئی تحفظات پیدا ہوگئے ہیں پلر اور سٹیشنز کی غلط ڈیزائننگ تو تھی اب میٹرو ٹریک کے بارے میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ جب ٹرائیل کیلئے بسیں چلائی گئیں اور کراس کرنے کی باری آئی تو معلوم ہوا کہ یہ بسیں کراس نہیں کر پائیں گی جس پر فوری طور پر ٹریک پر موجود دو اطراف کے تعمیر شدہ فٹ پاتھ یا سروسز پاتھ میں سے ایک توڑ دیا گیا جس کے بعد ممکن ہوا کہ اب بسیں کراس کر سکتی ہیں لیکن تکنیکی ماہرین کیمطابق یہ عارضی انتظام ہے اور اب پوری میٹرو بس انتظامیہ بشمول پراجیکٹ ڈائریکٹر اس خامی پر پردہ ڈالنے کیلئے زور لگا رہے ہیں لیکن اس پراجیکٹ کی گاہے بگاہے میڈیا کو جاری ہونے والی تصاویر میں سب ثبوت موجود ہیں سب سے زیادہ مالیت سے ابھی زیرتعمیر یہ پراجیکٹ ملتانیوں کیلئے تحفہ تو بعد میں بنے گا لیکن اس وقت پنجاب حکومت اور اس پراجیکٹ پر تعینات ٹیکنکل اور انتظامیہ ملازمین کیلئے ایک بڑا لمحہ فکریہ ہے کہ پراجیکٹ تکنیکی کمزوریوں سے کہیں شہریوں کیلئے باعث زحمت تو نہیں بن جائے گا۔