نواز شریف اور عمران خان پاناما لیکس کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کے محوزہ کمیشن پر متفق ،تحریک انصاف کا آج دھرنے کو یوم تشکر میں تبدیل کرنے کا اعلان
اسلام آباد(اے این این،آن لائن،مانیٹرنگ ڈیسک)سپریم کورٹ کی تجویز پر وزیر اعظم نواز شریف اور عمران خان پانامہ لیکس کی تحقیقات کیلئے عدالتی کمیشن پرکے قیام پر متفق ہوگئے ،سپریم کورٹ کا حاضر سروس جج کمیشن کی سربراہی کرے گا،کمیشن کو عدالت عظمیٰ کے برابر اختیار حاصل ہونگے،رپورٹ بھی سپریم کورٹ میں پیش ہوگی،عدالت نے وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ سے دو روز میں جواب طلب کر لیا،طارق اسد کی درخواست پر عمران خان کو بھی آف شور کمپنی سے متعلق جواب داخل کرانا ہو گا، سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاناما لیکس کے معاملے پر وزیراعظم نواز شریف کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے بعد حکومت اور پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی سمیت دیگرسے تحقیقاتی کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنسز (ٹی او آرز)پر تحریری جواب طلب کر لئے ، اگر ٹی او آرز کے معاملے پر فریقین نے اپنی تجاویز نہ دیں تو عدالت اپنے ٹی او آرز پیش کرے گی، کیس کی سماعت 3 نومبر جمعرات تک ملتوی کردی گئی ۔عمران خان ، سراج الحق ، شیخ رشید اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی درخواستوں پرجسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس امیرہانی مسلم، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے5رکنی لارجر بینچ نے پاناما لیکس کی درخواستوں پر سماعت کی۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا تمام فریقین نے پاناما لیکس کے حوالے سے جواب جمع کرا دیا ہے؟ جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید کا کہنا تھا کہ نیب کے سوا کسی بھی فریق نے جواب جمع نہیں کرایا۔ طارق اسد ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ حکمران ہم پر مسلط ہیں جب کہ نیب نے پاناما لیکس کے حوالے سے تحقیقات نہیں کیں جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ حکمرانوں کو ہم ہی نے منتخب کیا ہے جب کہ عدالت نے نیب کے جواب کو افسوسناک قرار دیا۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے نیب پراسیکیوٹر سے پوچھا کہ آپ نے معاملے کی تحقیقات کیوں نہیں کیں جب کہ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ کیا نیب کے پاس شواہد اکٹھے کرنے کا اختیار نہیں ہے، عوام شواہد ان کے پاس لے کر آئیں گے تو نیب کارروائی کرے گا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بھی نیب کے جواب پر اظہار برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نیب نے روز مرہ کارروائی سے انحراف کیوں کیا؟ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں بڑا واضح پیغام مل گیا ہے کہ کوئی ادارہ اپنا کام نہیں کرنا چاہتا، سپریم کورٹ اس کیس کو خود دیکھے گی۔وزیراعظم کی جانب سے سابق اٹارنی جنرل سلمان بٹ پیش ہوئے اور کہا کہ مجھے 5 روز قبل ہی وکیل مقرر کیا گیا ہے لہذا جواب جمع کرانے کے لئے مہلت دی جائے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پوری قوم کی نظریں پاناما لیکس پر لگی ہیں اس لئے آپ کو جواب جمع کرانا چاہیئے تھا، ہم سمجھیں گے کہ آپ کو جواب جمع کرانے میں دلچسپی نہیں، بادی النظر میں یہ معاملہ عوامی ہے اس لئے اس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہو سکتی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 20اکتوبر کو سپریم کورٹ نے کیس 2 ہفتے میں لگانے کا فیصلہ کیا لیکن خبر لگی کہ عدالت نے کیس کی تاریخ پر نظر ثانی کردی، یہ سرخی کیسے لگی؟ میڈیا کو ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہیئے۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ پاناما لیکس پر آئینی درخواستوں کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کی جائے گی ۔عمران خان کے وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ اپریل میں پاناما کا معاملہ سامنے آیا، پاناما دستاویات میں میں اہم شخصیات کی آف شور کمپنوں کا بتایا گیا جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیا کسی نے بھی پاناما دستاویزات پر اعتراض نہیں کیا؟ تو حامد خان نے جواب دیا کہ کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا۔ حامد خان نے کہا کہ یہ دستاویزات آئی سی آئی جے نے لیک کیں جن میں سیاست دانوں کے بینک اکانٹس کا ڈیٹا بھی شامل ہے جن کے مطابق موزیک فونزیکا نامی فرم آف شور کمپنیاں چلانے میں قانونی معاونت دیتی ہے ۔ ان دستاویزات میں نواز شریف کے بچوں مریم نواز، حسن نواز اور حسین نواز کے نام آئے ہیں جنہوں نے لندن میں جائیدادیں خریدیں۔ شریف فیملی نے پہلی آف شور کمپنی 1993میں رجسٹرڈ کرائی جبکہ ان کے ایک ہی عمارت میں 4 فلیٹس ہیں۔حامد خان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے بچوں کی فرمز کا ویب سائٹ کے ذریعے علم ہوا تو عدالت نے پوچھا کہ نیلسن اور نیسکول کب بنائی گئیں جس پر حامد خان نے کہا کہ ایک ہی فلور پر 4 جائیدادوں کا ذکر کیا گیا ہے اور چاروں جائیدادیں 1993 سے 1996کے درمیان بنائی گئیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سوال کیا کہ 1993میں جائیداد کتنے کی خریدی گئی تو حامد خان نے جواب دیا کہ پانامہ لیکس میں جائیدادوں کی قیمت نہیں بتائی گئی۔ عدالت نے فریقین کے سامنے 3 آپشن بھی رکھ دیئے ہیں، پہلی آپشن یہ ہے کہ ہم بینک اکانٹس کے کھاتے خود کھولیں اور انہیں چیک کریں، دوسرا آپشن یہ ہے کہ تحقیقاتی ادارے اس معاملے کی تحقیقات کریں اور آخری آپشن یہ ہے کہ درخواست گزار اس معاملے پر ثبوت عدالت میں پیش کریں۔سپریم کورٹ نے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے لئے حکومت اور فریقین کو مشاورت کیلئے 2 گھنٹے کا وقت دیتے ہوئے ایک بجے تک سماعت ملتوی کر دی۔عدالت کی جانب سے دیئے گئے 2 گھنٹے کے وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو وزیراعظم کے وکیل سلمان بٹ نے کہا کہ وزیراعظم نے کمیشن کو تسلیم کر لیا ہے، وزیراعظم لندن جائیدادوں پر کمیشن کی تجویز سے متفق ہیں لیکن کمیشن کو جہانگیر ترین اور عمران خان کی بہن کا کیس بھی بھیجا جائے، اگر الزامات ثابت ہو گئے تو وزیراعظم قانونی نتائج کو تسلیم کریں گے جس پر تحریک انصاف کے وکیل کا کہنا تھا کہ حکومت کمیشن کو جائیدادوں اور گوشواروں تک محدود کر رہی ہے۔ وزیراعظم کے وکیل کی جانب سے جواب جمع کرانے کے لئے زیادہ مہلت کی استدعا کی گئی جسے عدالت نے مسترد کر دیا۔چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ حکومت اور اپوزیشن ٹی او آرز کے معاملے پر نظرثانی کریں، پورے ملک میں ہیجان کی کیفیت ہے اس لئے پاناما معاملے کو زیادہ طول نہیں دے سکتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر دونوں فریقین کمیشن اور ٹی او آرز پر متفق نہیں ہوتے تو عدالت اپنے ٹی او آرز پیش کرے گی۔ عدالت نے سماعت کل 11:30 بجے تک ملتوی کرتے ہوئے کمیشن کی تشکیل اور ٹی او آرز پر وزیراعظم سمیت تمام فریقین سے تحریری جواب طلب کر لیا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ لوگ اپنی سیاست جاری رکھیں، اب پاناما مسئلہ عدالت ہی حل کرے گی، ایک بھی دن ضائع نہیں کریں گے، انہوں نے کہا کہ کوئی حکم نہیں دے رہے لیکن بہتر سوچ کے لئے پر امید ہیں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ لوگ 8ماہ سے پش اپس لگا رہے ہیں، کیس کو زیادہ طول نہیں دیں گے، اب سب کو سخت موقف پر نظر ثانی کرنی چاہیئے۔قبل ازیں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ 2ہفتے سے اس کیس میں سنسنی پھیلائی جارہی ہے، ہر فریق کو موقف پیش کرنے کا موقع دیں گے ، تحریک انصاف ذمہ دارانہ رویہ اپنائے ۔چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ حکومت اور اپوزیشن ٹی او آرز کے معاملے پر نظرثانی کریں، پورے ملک میں ہیجان کی کیفیت ہے اس لئے پاناما معاملے کو زیادہ طول نہیں دے سکتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر دونوں فریقین کمیشن اور ٹی او آرز پر متفق نہیں ہوتے تو عدالت اپنے ٹی او آرز پیش کرے گی۔۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ لوگ اپنی سیاست جاری رکھیں، اب پاناما مسئلہ عدالت ہی حل کرے گی، ایک بھی دن ضائع نہیں کریں گے، انہوں نے کہا کہ کوئی حکم نہیں دے رہے لیکن بہتر سوچ کے لئے پر امید ہیں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ لوگ 8 ماہ سے پش اپس لگا رہے ہیں، کیس کو زیادہ طول نہیں دیں گے، اب سب کو سخت موقف پر نظر ثانی کرنی چاہیئے۔واضح رہے کہ تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان، امیر جماعت اسلامی سراج الحق اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے پاناما لیکس کے حوالے سے درخواستیں دائر کر رکھی ہیں جب کہ گزشتہ سماعت کے موقع پر عدالت نے یکم نومبر تک وزیراعظم نواز شریف سمیت تمام فریقین کو جواب جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔گذشتہ ماہ 20 اکتوبر کو ان درخواستوں پر سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے وزیراعظم نواز شریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز، داماد کیپٹن صفدر، بیٹوں حسن نواز، حسین نواز، ڈی جی فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے)، چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر)اور اٹارنی جنرل سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کی تھی۔بعدازاں عدالت عظمی نے درخواستوں کی سماعت کے لیے یکم نومبر کی تاریخ مقرر کی تھی، جبکہ درخواستوں کی سماعت کے لیے 5 رکنی لارجر بینچ بھی تشکیل دے دیا گیا تھا۔سماعت کے بعد سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ ہم عدالتی کارروائی پر بھرپور اعتماد کا اظہار کرتے ہیں اور عدالت کے فیصلے پر سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ تمام فریقین عدالت کے فیصلے پر اعتماد کا اظہار کریں اور جو طریقے آزمائے ہوئے ہیں انہیں ترک کریں، دھرنوں، مار دھاڑ اور لاک ڈان کی سیاست ذاتی اقتدار کے لیے ہوسکتی ہے لیکن پاکستانی عوام کی بہتری کے لیے نہیں۔
اسلام آباد(اے این این) تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے پانامہ لیکس کی تحقیقات کیلئے عدالتی کمیشن کے قیام کی تجویز کو اپنی فتح قرار دیتے ہوئے(آج) کا دھرنا یوم تشکر میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ کارکن واپس جائیں ،(آج) پریڈ گراؤنڈ میں اکٹھے ہوں،جلسے میں 10لاکھ افراد لائیں گے،ہم پر امن رہیں گے،کارکنان اپنی فیملیز کو بھی ساتھ لائیں ،اب حکومت راستے کھول دے جس کاعدالتوں نے بھی حکم دیا ہے،ہم نے کوشش کی پارلیمنٹ سے انصاف ملے ، نہیں ملا،نیب ، ایف آئی اے سے بھی انصاف نہ ملا تو عوام کے پاس جانے کااعلان کیا تھا،اب وزیر اعظم کی تلاشی ہو گی،ہمارا مقصد پورا ہو گیا ہے۔بنی گالہ میں پریس کانفرنس سے خطاب میں عمران خان نے کہا ہے کہ وزیراعظم سے جواب مانگنے پر سپریم کورٹ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں،عدالت عظمی میں پرسوں سے پاناما لیکس پر نوازشریف کی تلاشی شروع ہوگی۔اب ہم دھرنا نہیں دینگے اس کی جگہ 2نومبر کویوم تشکرمنائیں گے کارکنان گھروں کو جائیں اور اپنی فیملیز کے ساتھ آئیں ،میری بہنیں بھی جلسے میں شریک ہونگی۔ہم اس جلسے میں 10لاکھ افراد کو لائیں گے اور اللہ کا شکر ادا کریں گے۔پی ٹی آئی سربراہ نے کہا کہ نوازشریف احتساب سے بھاگ رہے تھے،سپریم کورٹ نے وزیراعظم نواز شریف کی تلاشی کا حکم دیدیا ہے ۔انہوں نے کہاکہ نواز شریف احتساب سے بھاگنے کیلیے سب پر کرپٹ ہونے کا الزام لگارہے تھے ، میری دو شرائط تھیں ، وزیراعظم نوازشریف استعفی دیں یا تحقیقات کا سامنا کریں گے ۔عمران خا ن نے مزید کہا کہ پاناما پیپرز کے انکشاف کے بعد 7مہینے سے جدوجہد کررہے ہیں ،ہم نے کوشش کی پارلیمنٹ سے انصاف ملے ، نہیں ملا،نیب ، ایف آئی اے سے بھی انصاف نہ ملا تو عوام کے پاس جانے کا فیصلہ کیا۔پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ ملکی تاریخ میں کبھی طاقت و جوابدہ نہیں ہوا،کبھی انصاف کے اداروں نے طاقتور کو نہیں پکڑا ، پاکستان کی ترقی کو نواز شریف نقصان پہنچاچکے ، میں کرپشن کو نقصان پہنچا رہاہوں ۔انہوں نے وزیراعلی خیبر پختونخوا کو ملک کا مجاہد قرار دیا اور پہاڑیاں چڑھ کر بنی گالہ آنے والے کارکنوں کو مبارکباد دی اور خراج تحسین پیش کیا ۔عمران خان نے کہا کہ وزیراعلی پنجاب ڈرامہ شریف نے فون کیا تو پرویزخٹک نے کہا ،شہباز شریف تمھیں بھی ایسے دن کا سامنا کرنا پڑے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ کرپشن کے خلاف20سالہ جدوجہد میں جو لوگ میرے ساتھ رہے میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔انھوں نے کہا کہ ابھی یہ بات مصدقہ نہیں ہے کہ شیلنگ سے کوئی کارکن جاں بحق ہوا اگر یہ سچ ہوا تو شہباز شریف کے خلاف مقدمہ درج کرائیں گے۔عمران خان نے کہا کہ سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ کمیشن وزیراعظم کی کرپشن کا احتساب کرے گا۔انھوں نے کہا کہ تحریکِ انصاف وزیراعظم کی کرپشن کے مطالبے پر ہی احتجاج کر رہی تھی اور کمیشن کی تشکیل ان کی اخلاقی فتح ہے۔عمران خان نے کہا کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا کہ تین نومبر سے نواز شریف کی تلاشی شروع ہو گی اور یہ ملک کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ کسی طاقتور کی تلاشی لی جارہی ہے۔عمران خان نے کہا کہ حکومت نے پیر کی شب اسلام آباد آنے والے وزیر اعلی خیبر پختونخوا پرویز خٹک کے قافلے سے جس قسم کا سلوک کیا ہے وہ صوبائی تعصب کو ہوا دینے کا باعث بنے گا۔انھوں نے کہا کہ حکومت نے اتنی شیلنگ کی جیسے کہ کوئی دشمن کی فوج آ رہی ہو۔عمران خان نے کہا کہ پولیس کی جانب سے لوگوں پر جو آنسو گیس کے زائد المعیاد شیل فائر کیے جس سے لوگوں کو نقصان پہنچا۔انہوں نے ایک بار پھر وزیر اعظم نواز شریف کو سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا اور کہا کہ وہ اپنی کرپشن بچانے کے لیے صوبوں کے درمیان نفرت پیدا کر رہے ہیں۔دریں اثناء عمران خان کی جانب سے دھرنا ختم کرنے کے فیصلے پر حکومت نے موٹروے ،بنی گالہ اور دیگر راستوں سے کنٹینر ہٹانے کا عمل شروع کر دیا گیا۔