جو ش پر ہوش غالب آگیا

جو ش پر ہوش غالب آگیا
جو ش پر ہوش غالب آگیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یہ فضول بحث ہے کہ کون جیتا کون ہارا۔ سوال یہ اہم ہے کہ جمہوریت کے خلاف سازشیں ناکام ہوئیں۔ جو لوگ کہہ رہے ہیں کہ عمران خان ہار گئے۔ انہوں نے ہتھیار ڈال دئے یقیناًوہ ملک میں جمہوری نظام کے خیر خواہ نہیں ہیں۔ وہ کیا چاہ رہے تھے کہ عمران خان اس نظام اور ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے۔ وہ کیا چاہ رہے تھے کہ جمہوریت کا بستر گول ہو جا تا۔ ایک دفعہ پھر یہ ثابت ہو جا تا کہ ہمارے ملک میں جمہوریت کا کوئی مستقبل نہیں۔ ہمارے سیاستدانوں نے ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور ایک مرتبہ پھر جموریت دشموں کے ہاتھ میں کھلونا بن گئی۔ عمران خان اگر سپریم کورٹ میں سماعت کے بعد بھی اپنا پروگرام ختم نہ کرتے تو سب کہتے کہ ان کے پاس ایک لکھا لکھایا سکرپٹ ہے۔ اس لئے وہ اپنے پروگرام میں تبدیلی نہیں کر رہے۔ یہ تنقید تو عمران خان پر پہلے ہی ہو رہی تھی کہ سپریم کورٹ میں پانامہ کے حوالہ سے سماعت مقرر ہونے کے باوجود بھی عمران خان ہٹ دھرمی دکھا رہے ہیں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ شاید ان کے پاس کوئی ایسا سکرپٹ ہے جس میں صرف پانامہ کے مسئلہ کا حل نہیں بلکہ جمہوریت کو ختم کرنا بھی شامل ہے۔
جو لوگ آج عمران خان پر تنقید کے نشتر برسا رہے ہیں۔ وہ یہ کیوں بھول گئے ہیں کہ میاں نواز شریف بھی جب عدلیہ کی بحالی کے لئے نکلے تھے تو گوجرانولہ میں جب انہیں عدلیہ کی بحالی کی خبر ملی تو انہوں نے اپنا لانگ مارچ ختم کر دیا۔ اسی طرح عمران خان بھی ملک کے وزیر اعظم کی تلاشی کے لئے نکلے تھے اور جب سپریم کورٹ نے تلاشی کا عمل شروع کر دیا تو پھر دھرنے اور لاک ڈاؤن کا کیا جواز تھا۔ میں تو پہلے ہی یہ دعا مانگ رہا تھا کہ رب ذوالجلال اس ملک کے سیاستدانوں کو جوش کی بجائے ہوش سے فیصلے کرنے کی توفیق دے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ بالا آخر جوش پر ہوش غالب آگیا۔
آپ یہ سوچیں کہ اگر عمران خان اپنا پروگرام ختم کرنے کا اعلان نہ کرتے اور کے پی کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک دوبارہ اسلام آباد پر چڑھائی شروع کر دیتے تو پاکستان کی بقا اور اس کے استحکام کو کس قدر خطرہ تھا۔ یقیناًپرویز خٹک جو کر رہے تھے وہ درست نہیں تھا۔ ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ کو ایسا نہیں کرنا چاہئے ۔ اگر وہ ایسے کسی جلوس اور چڑھائی کی قیادت کرنا چاہتے تھے تو انہیں وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دینا چاہئے تھا۔ وزارت اعلیٰ کے ٹیگ کے ساتھ وہ جو کر رہے تھے وہ پاکستان کے استحکام اور مستقبل کے لئے ٹھیک نہیں تھا۔ان کی پہلی چڑھائی بھی اللہ کا شکر ہے کہ نا کام ہو گئی اور انہیں برہان انٹر چینج سے واپس جانا پڑ گیا۔ لیکن ایک لمحہ کے لئے سوچیں کہ اگر پرویز خٹک اسلام آباد پہنچ جاتے تو کیا ہو تا۔ مجھے تو یہ سوچ کر ہی خوف آتا ہے۔
یہ سوال اہم ہے کہ سپریم کورٹ نے اتنی دیر کیوں کی۔ جب وزیر اعظم بہت پہلے ایک جیوڈیشل کمیشن کے لئے خط لکھ چکے تھے تو کمیشن کے دائرہ کار کے لئے جو طریقہ کا ر آج اپنا یا گیا ہے وہ تب کیوں نہیں اپنا یا گیا۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اگر جمہوریت کے دشمن جمہوریت کی بساط لپیٹنے میں کامیاب ہو جاتے تو صرف یہ الزام نہیں ہو تا کہ پارلیمنٹ اپنا کام نہیں کر رہی تھی بلکہ یہ الزام اس سے بھی پہلے ہو تا کہ ملک کا
نظام انصاف بھی ٹھیک کام نہیں کر رہا تھا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے پانامہ کے معاملہ میں تاخیر نے معاملات الجھا دیئے۔ میاں نواز شریف اس حد تک تو بری الذمہ ہیں کہ انہوں نے ابتدا میں ہی سپریم کورٹ کو خط لکھ دیا تھا۔ اب میاں نواز شریف سے یہ توقع کرنا درست نہیں ہے کہ وہ خود ہی اپنے آپ کو پھانسی لگا دیں۔ یقیناًیہ طے کرنا کہ وہ قصور وار ہیں کہ نہیں عدالتوں کا کام ہے اور عدالتیں اپنا کام نہیں کر رہی تھیں۔
یہ کہنا کسی طرح غلط نہ ہو گا کہ موجودہ ضرب بھی جمہوریت پر ایک کاری ضرب تھی۔ ہر سال بعد جمہوریت پر اس طرح کی کاری ضربیں جمہوریت کو نہ صرف کمزور کر رہی ہیں بلکہ جمہوریت کے خلاف رائے عامہ کو بھی ہوار کر ہی ہیں۔ آج ملک میں جمہوریت کے نظام کے خلاف ایک باقاعدہ مہم موجود ہے۔ لوگ قومی اسمبلی کے کیفے ٹیریامیں ملنے والے سستے کھانے کے ریٹ ایسے شیئر کرتے ہیں جیسے یہ سستا کھانا ایک جرم ہے۔ اس سے ملک کو نا قابل تلافی نقصان ہو رہا ہے۔ ارکان اسمبلی کی مراعات کو بھی بنیاد بنا کر جمہوریت اور پارلیمانی نظام کے خلاف پراپیگنڈہ کیا جا تا ہے۔ جب اسمبلیوں کی کاروائی کورم کی وجہ سے ٹوٹ جاتی ہے تو ایسی خبریں شائع ہوتی ہیں کہ یہ ایک اجلاس قومی خزانہ کو کتنے میں پڑا۔ ایوان صدر اور ایوان وزیر اعظم کے اخرجات کوبھی جمہوریت کے خلاف پراپیگنڈہ کے طور پر استعمال کیا جا تا ہے۔ ایسے میں ہمارے سیاستدانوں اور ملک میں جمہوریت کے ثمر سے فیض یاب ہونے والوں پر یہ لازم ہے کہ وہ جمہوریت کے تحفظ کی ذمہ داری بھی اٹھائیں۔ ابھی تو ایسا لگ رہا کہ جمہوریت کے نرم و نازک شاخ پر بیٹھے الو ہی اس کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ حالانکہ انہیں یہ علم ہو نا چاہئے کہ یہ شاخ کٹنے سے وہ بھی نیچے گر جائیں گے۔ اس لئے حکومت اور تمام اپوزیشن کو ایک مرتبہ مل بیٹھ کر اس ملک میں جمہوریت کے تحفظ کے لئے بھی ایک نیشنل ایکشن پلان بنانا چاہئے۔ ورنہ جمہوریت ایسی مزید سازشوں کا مقابلہ کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

مزید :

کالم -