بنگلہ دیشی نہیں، پاکستان ماڈل
یہ درست ہے کہ سیاست دان فرشتے نہیں ہوتے اور ان سے غلطیاں بھی ہو سکتی ہیں، جمہوری نظام میں کوئی بھی عقلِ کل نہیں ہوتا۔ سبھی اپنی اپنی استعداد کے مطابق سسٹم کو تقویت پہنچانے اور عوام کی رائے کو مقدم رکھتے ہوئے جمہوریت کی بالا دستی کے لئے کام کرتے ہیں۔
اصول یہ ہے کہ اگر اقتدار میں کسی سے کوئی غلطی ہو جائے تو اپوزیشن سامنے آتی ہے اور اپنا کردار احسن انداز میں پورا کرتی ہے۔ وہ حکمرانوں کی غلطیوں کی نشاندہی کرتی ہے اور اصلاح کے لئے اپنی تجاویز دیتی ہے۔ حکمران ہوں یا اپوزیشن‘ دونوں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آتے ہیں۔
جمہوریت کی مضبوطی دونوں کے باہمی اشتراک اور کردار سے ہی ممکن ہے تاہم ہمیشہ سے یہ ہوتا آیا ہے کہ ایک طبقہ اس جمہوریت سے خائف بھی ہوتا ہے، کیونکہ اس میں اس کا اپنا کردار محدود ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت پوری طرح سے قدم نہیں جما سکی۔
جیسے ہی یہ مضبوطی پکڑنے لگتی ہے کوئی ڈکٹیٹر آتا ہے اور سارے نظام کو تہہ و بالا کر دیتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ وہ چٹکی بجا کر سارے حالات ٹھیک کر دے گا اور مُلک کو مسائل کے بھنور سے نکال دے گا، لیکن اس کے برعکس ہوتا ہے۔ آپ آمروں کی تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں اقتدار پر قابض ہونے کے چند ہی مہینوں بعد ان کے قدم اکھڑنے شروع ہو جاتے ہیں، چونکہ عوام میں ان کی جڑیں نہیں ہوتیں اور صرف بزور طاقت وہ حاکم بن جاتے ہیں اِس لئے عوام سے یہ دوری آہستہ آہستہ بڑھنے لگتی ہے اور ایک دن ایسا بھی آتا ہے کہ عوام کی تحریک سیاست دانوں کی حکمت عملی سے زور پکڑتی ہے، جس کے بعد آمر کو اقتدار چھوڑنا پڑتا ہے۔
کچھ دِنوں سے مُلک میں ایک طبقہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی وزارت عظمیٰ سے علیحدگی کے بعد سازشوں کے جال بُن رہا ہے۔ ایسی ایسی افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں کہ نہ جانے مُلک میں کیا ہونے والا ہے۔
ایسی افواہوں کا نقصان مُلک کی معیشت کو ہوتا ہے۔ایسا کرنے والے محب وطن نہیں ہو سکتے۔ کہا جا رہا ہے کہ ٹیکنو کریٹس کی حکومت بننے والی ہے اور بنگلہ دیش ماڈل جیسا کوئی نظام آنے والا ہے۔
یہ سب سراسر افواہیں ہیں ۔ درحقیقت مُلک میں ایسی کوئی صورتِ حال نہیں، جس میں بنگلہ دیش ماڈل یا ٹیکنوکریٹس حکومت کی کوئی ضرورت یا گنجائش ہو۔ معیشت ترقی کر رہی ہے۔ امن و امان کی صورتِ حال ہمارے سامنے ہے۔ سی پیک کا منصوبہ تیزی سے تکمیل کی جانب رواں دواں ہے۔
ترقیاتی منصوبے مکمل ہو رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت بھی اگلے الیکشن کے لئے عوام کے سامنے اپنی کارکردگی کے ساتھ پیش ہونے کی تیاری کر رہی ہے۔ ایسے میں مُلک میں سیاسی عدم استحکام کی کوششیں کرنے کا کیا مقصد ہو سکتا ہے؟ اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے وزیر داخلہ احسن اقبال کو کہنا پڑا کہ مُلک میں کچھ لوگ مسلم لیگ (ن) اور فوج کے درمیان جنگ چاہتے ہیں، جبکہ اداروں کے درمیان کوئی ٹکراؤنہیں ہے۔
البتہ کچھ ریٹائرڈ فوجی، سیاست دان اور چند صحافی مخصوص لابی بیانیہ بنارہی ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی غیر آئینی اقدام ہوگا تو انہیں بھی اچھی نوکری مل جائے گی، لیکن یہ ان کا خواب ہے جو پورا نہیں ہو سکتا۔
وزیرداخلہ احسن اقبال نے بجا فرمایاکہ پاکستان ایک مستحکم جمہوریت ہے اور اسے غیر متوازن بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرنا دراصل اس مُلک کی مٹی کے ساتھ بے وفائی کے مترادف ہے۔ مسلم لیگ (ن) سمیت دیگر جماعتیں چار سال سے زیادہ حکومت میں ہیں۔
سب کی کارکردگی کو عوام غور سے دیکھ رہے ہیں۔ 2018ء میں وقت مقررہ پر انتخابات ہوں گے، سب کو ان کے کئے کا پھل مل جائے گا۔ انتخابات ہوں گے تو موجودہ جمہوری حکومت قائم رہے گی یا نئی حکومت آ جائے گی۔
مُلک کے لئے اس سے خوش آئند اور کیا بات ہو سکتی ہے۔ اس سے نہ صرف پاکستان مضبوط ہوگا، بلکہ دنیا میں ہمارا امیج بہتر ہوگا۔ وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ رات کو چند ٹاک شوز مُلک کو ڈبوتے ہیں،لیکن اگلے روز پھر وہ یہی حرکت کرتے ہیں کہ وطنِ عزیز اللہ کے فضل و کرم سے قائم دائم ہوتا ہے۔
احسن اقبال نے جس طرف نشاندہی کی ہے ایسا پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔ کچھ لوگوں کا چورن سازشوں پر ہی بکتا ہے۔ اب اس تھیوری کو ردی کی ٹوکری سے نکال کر، جھاڑ پونچھ کر پھر سے پیش کیا جا رہا ہے، حتیٰ کہ وزیراعظم عباسی کو بھی کہنا پڑا کہ ٹیکنوکریٹس کی حکومت پاکستان کے مسائل کا حل نہیں۔
پاکستان ایک اُبھرتا ہوا مُلک ہے، اس کی معیشت مستحکم ہو رہی ہے، ورلڈ بینک نے کہا ہے کہ پاکستان نے 10سال کی بلند ترین گروتھ ریٹ حاصل کی۔معیشت کو چلانے کے لئے سیاسی استحکام لازم ہے، پاکستانی معیشت مستحکم ہے، تنقید کرنے والے منفی بات کرتے ہیں۔
یہ تنقید کر کے اس مُلک کی معیشت کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں،جس کے یہ صبح و شام ثمرات سمیٹ رہے ہیں۔ امن اور سیاسی استحکام کے بغیر معیشت ترقی نہیں کر سکتی اور جو بھی استحکام اور امن کو خراب کرے گا وہ مُلک سے دشمنی کرے گا۔
جہاں تک بنگلہ دیش ماڈل کی بات ہے تو یہ بنگلہ دیش میں ناکام ہوا۔ بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد کو جیل میں ڈالا گیا اور جب وہ باہر نکلیں تو ان کی جماعت نے سب سے زیادہ ووٹ لئے جن کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ وہ ختم ہو چکی ہے۔ آج یہاں وہی تاثر دیا جا رہا ہے کہ حکمران جماعت کمزور ہو چکی ہے اور شاید یہ دوبارہ نہ اُٹھ سکے، حالانکہ یہ فیصلہ عوام نے الیکشن میں کرنا ہے کہ انہوں نے تاج کس کے سر پر رکھنا ہے۔
بعض لوگ فوج اور مسلم لیگ(ن)کے درمیان جنگ چاہتے ہیں تاکہ ان کے لئے چور دروازہ کھل جائے۔پاکستان کے عوام اب ان چالوں کو سمجھ چکے ہیں۔ سابق صدر پرویز مشرف نے نواز شریف حکومت کا تختہ اُلٹ کر بھی ایک کوشش کی تھی۔
یہ کوشش کتنی کامیاب رہی یہ ہمارے سامنے ہے۔ اگر ماضی میں ایسی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوئی تو اب بھی نہیں ہو گی۔ بہتر ہو گا کہ جمہوری عمل کو اِسی طرح جاری رہنے دیں اس میں عوام اور مُلک سب کا مفاد ہے۔ہمیں جمہوریت کو مضبوط کر کے بنگلہ دیش نہیں، بلکہ ایسے جمہوری ماڈل کو لاگو کرنے کی فکر کرنی چاہئے،جس پر دُنیا فخر کر سکے اور اسے پاکستان ماڈل سے تعبیر کرے۔