سچاناہید شاہد

سچاناہید شاہد
 سچاناہید شاہد

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یہ تیس پینتیس سال پہلے کی بات ہے، جب مَیں حلقۂ تصنیف ادب چلا رہا تھا۔ اس تنظیم کو مَیں نے تقریباًپانچ سال چلایا۔پروگرام بناتا، اخبارات میں بھی خبر لگواتا، کارروائی بھی لکھتا اور خرچہ بھی خود ہی اُٹھاتا۔ ساتھ بینک کی ملازمت میں محنت اور ایمان داری سے ڈیوٹی سرانجام دیتا۔

حلقے کے اجلاس وائی ایم سی اے ہال میں منعقد ہوتے۔ ان کی صدارت ڈاکٹر ناہید شاہد و دیگر حضرات کرتے۔ دوست اپنی تخلیقات پیش کرتے۔ پسند ناپسند کا سلسلہ چلتا، تنقید بھی ہوتی، تصویریں بھی بنتیں۔ اُس دور کی سادگی، بے خوفی، کم علمی، کپڑوں کا پہنا وا اور لاہور جیسے بڑے شہر کا اثر، حلقے میں آنے والے حضرات کے چہروں سے دیکھا جاسکتا تھا۔

دوسری طرف بڑی تنظیم حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس پاک ٹی ہاؤس میں ہوتے، جنہیں ارباب ذوق میں پڑھنے کا موقعہ نہ ملتا۔ انہیں حلقہ تصنیف ادب آنکھوں پر بٹھاتا۔ یوں ان ادبی حلقوں نے ادیبوں، شاعروں اور اہل قلم کی عملی تربیت کی اور آج لوگ نام اور مال کما رہے ہیں، دنیا کی سیر کررہے ہیں، کچھ اس سفر میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ شاید اُنہیں ترقی کرنے کے گُر نہیں آتے تھے۔


حلقے کے اجلاس ختم ہونے کے بعد پرانی انار کلی چلے جاتے۔ وہاں آہستہ آہستہ دوست اکٹھے ہونا شروع ہو جاتے۔ حلقے میں جو کچھ پڑھا گیا ہوتا، اُس پر بحث ہوتی، کھانے اور چائے کا دور چلتا رہتا۔

سلیمان صدیق، سلیم ولی قریشی جیسی بزرگ شخصیات اور ڈاکٹر ناہید شاہد، پھر خواجہ محمد زکریا اور منصور آفاق بھی تشریف لاتے۔ قریشی صاحب اُن کی وفات پر ڈاکٹر ناہید شاہد بہت اُداس اور پریشان ہوگئے، کہنے لگے ہم معلومات کے خزانے سے محروم ہوگئے۔

ڈاکٹر ناہید شاہد کو پرانی انار کلی میں سندھی بریانی بہت پسند تھی۔ ایک دن ایک گاہک ہوٹل میں آیا، کھایا پیا، بل دیا، ایک بیگ کالا میز پر چھوڑ کر چل پڑا۔ ہوٹل کے مالک قیس کے بیٹے نے اُسے آواز دی اور بیگ ہاتھ میں پکڑ لیا۔ بس اُسی لمحے دھماکہ ہوا۔ نوجوان اسد شدید زخمی ہوگیا۔

ہوٹل کی عمارت کو بھی نقصان پہنچا۔ کچھ دنوں بعد دوستوں کی محفل دوبارہ شروع ہوئی۔ بھائی قیس سے ڈاکٹر ناہید شاہد نے افسوس کیا، دعا مانگی، ہم سب بھی شریک ہوئے۔ دو دن میو ہسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد اُن کا بیٹا فوت ہوگیا۔

اب بھائی قیس چلتی پھرتی لاش نظر آتے تھے۔ پھر وہ بھی اس غم کو برداشت نہ کرسکے اور مالک حقیقی سے جاملے۔یہ 2001ء کی بات ہے،میری پہلی کتاب تیسری آنکھ شائع ہوئی۔ اُس کا فلیپ مشہور ادیب ودانشور اشفاق احمد صاحب نے مقررہ وقت پر لکھ دیا تھا۔

مجھے دوبارہ کہنے اور چکر لگانے نہیں پڑے۔ جب بھی اُن سے ملاقات ہوتی،مجھے گیٹ تک چھوڑنے ضرور جاتے۔ اب یہ سفر اکیلے طے کرنا پڑتا ہے۔ کتاب کی رپورٹنگ کے لئے جنگ اخبار کے دفتر پہنچا، ڈاکٹر حسن رضوی سے ملاقات ہوئی، انہیں کتاب پیش کی۔

کتاب کی تقریب ناصر باغ چوپال میں منعقد ہوئی۔ ڈاکٹر ناہید شاہد تشریف لائے۔ کہنے لگے بڑی سفارش کرائی ہے، میری ڈیوٹی لگی ہے،چنانچہ 6جولائی2001ء میں انہوں نے جنگ لاہوریات میں میری کتاب کے حوالے سے بڑی دلچسپ تحریر لکھی جو سننے اور پڑھنے کے قابل ہے:


’’کنور عبدالماجد خاں ایک عجیب و غریب آدمی ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے ادبی حلقوں میں آتے جاتے ہیں اور مختلف جلسوں میں اپنی دلچسپ اور خوشگوار گفتگو بڑی معصومیت سے کرتے ہیں، یار لوگوں کو اس لمحے پتہ نہیں چلتا کہ وہ سنجیدہ ہیں یا غیر سنجیدہ، بہر حال وہ جو کچھ لکھتے ہیں اور سوچتے ہیں، بلاجھجک کہہ دیتے ہیں اور اسی رویئے کے تحت انہوں نے اپنی اب تک کی تمام یا اکثر تحریروں کا مجموعہ ’’تیسری آنکھ‘‘ کے نام سے شائع بھی کرادیا ہے۔

جس میں ان کی شاعری، افسانے، مضامین، آپ بیتی اور خطوط شامل ہیں۔ یوں ایک ہی مجموعے میں آپ کنور عبدالماجد خاں کی مختلف جہات سے واقفیت حاصل کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں اس کتاب کی تعارفی تقریب حلقہ تصنیف ادب کے زیر اہتمام ہوئی، یہ ایک منفرد تقریب تھی۔

اس کی صدارت سلیم ولی قریشی جیسے بے ساختہ اور منفرد بزرگ سے کروائی۔ یہ صدارت ایسی تھی کہ اس میں نظامت کا تڑکا بھی لگا ہوا تھا۔ سوسلیم ولی قریشی نے نظامت کے جوہر صدارت کی کرسی پر بیٹھ کردکھائے۔

مہمان خصوصی ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا تھے۔ ’’تیسری آنکھ‘‘ کے حوالے سے گفتگو کرنے والوں میں غضنفر علی ندیم، آشر محمود، یونس علی دلشاد، ڈاکٹر شوکت حیات، آزاد کوثری اور پروفیسر اسلم طارق شامل تھے۔


مقررین نے کنور عبدالماجد خاں کو سچا، کھرا اور پُرخلوص انسان کہا۔ اُنہوں نے کہا مصنف نے جو کچھ محسوس کیا ہے، اسے سادگی اور سچائی سے بیان کردیا ہے۔ تقریب کے صدر نے نظامت سے فراغت کے بعد اپنے مخصوص اورمنفرد انداز میں خطبہ صدارت دیا۔ سلیم ولی قریشی باکمال بزرگ ہیں، گزشتہ کئی برسوں سے منفرد انداز اور کلام سے حلقہ پرانی انار کلی کو اسیر کئے ہوئے ہیں، ان کے طلسماتی دائرے میں نوجوان سینئر اور جونیئر سبھی ہیں۔

سفید براق بال، گول چشمہ، بیضوی چہرہ، سانو لارنگ، درمیانہ قد، گٹھے جسم پر نفیس لباس ان کی پہچان ہے۔ اس پہچان کے ساتھ گزشتہ پچیس برسوں سے جانتے ہیں، جبکہ کچھ انہیں نصف صدی سے زائد عرصہ سے اس حلئے اور عمر میں دیکھتے چلے آئے ہیں‘‘۔۔۔ جہاں تک ڈاکٹر ناہید شاہد کی شاعری کا تعلق ہے، اپنی نظم میں جنت دوزخ کے بھرنے کا ذکر کرتے ہیں:
اسیں پڑھ پڑھ سبق عذاباں دے
جنت دا دوزخ بھر دتا
کجھ ہجرت کردے ہنجواں دی
دہلیز تے رُس کے بیٹھے سن
اسیں عالم فاضل مُلاں ساں
اسیں صوفی، سنت سپاہی ساں
اسیں اپنے اپنے حصے دا
ایمان لکایا بُکل وچ
ڈاکٹر ناہید شاہد آج ہم میں نہیں ہیں، لیکن اُن کا کام ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اُن کے شاگرد دوست اُن کے محبت کے پیغام کولے کر چلتے رہیں گے۔

اس مضمون کی تیاری میں شاعری کے حوالے سے ڈاکٹر نوید شہزاد اورینٹل کالج لاہور اور ڈاکٹر محمد اقبال شاہد، ڈین لینگویجزجی سی یونیورسٹی لاہور کا تعاون رہا، اُس کے لئے ان کا شکر گزار ہوں۔ جہاں تک ناہید شاہد کی تصویر کا تعلق ہے، اس وقت کی ہے، جب لاہور میں نئے نئے تشریف لائے تھے۔

حلقہ تصیف ادب کے مشاعرے میں مہمانِ خصوصی تھے۔ بعد میں اورینٹل کالج میں پنجابی کے پروفیسر لگ گئے۔18فروری 2017ء کو موذی بیماری سے لڑتے ہوئے وفات پاگئے۔

مزید :

کالم -