امرتا پریتم کی برسی، ورلڈ پنجابی کانگرس اور بھائی چارہ!
پاک، بھارت تعلقات اب ایک نازک موضوع اور مسئلہ بن چکا کہ اِس حوالے سے سرگرم تنظیموں کو بھی چپ سی لگ چکی ہے۔
اس کی بنیادی وجہ تو بھارت کی موجودہ حکومت اور حکمران جماعت بی جے پی ہے،جس کا تعصب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں،بھارتی وزیراعظم مودی تو گجرات کے ہزاروں مسلمانوں کو زندہ جلا دینے والے واقع کے حوالے سے قصاب مشہور ہیں کہ اب عرصہ سے لائن آف کنٹرول پر مسلسل گولہ باری اور فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی افواج کی طرف سے ساڑھے چار سو سے زیادہ بار جنگ بندی کی خلاف ورزی کی جا چکی اور پاکستان کے درجنوں معصوم شہری شہید ہوئے ہیں،ان حالات میں دوستی کی بات کرنا حوصلے کی بات ہے۔یہاں تو اب ہمارے سابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان اپنی جماعت کے قائد سے بھی کھلا اختلاف کرتے نظر آ رہے ہیں۔
یہ بات درست بھی ہے کہ نریندر مودی کی سرپرستی میں بھارتی افواج کشمیری مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہیں اور کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو دبانے کے لئے شہادتوں کی تعداد میں اضافہ کرتی چلی جا رہی ہیں۔
یوں احساس ہوتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں حریت کے جذبے کو فرو کرنے یا دبانے میں ناکام ہو کر بھارتی افواج اور زعماء نے کنٹرول لائن پر لڑائی کی کیفیت پیدا کر رکھی ہے کہ دُنیا کی نگاہ سے تشدد اور ظلم کو اوجھل رکھا جا سکے۔
اس میں وہ بالکل ناکام تو ہیں،لیکن عالمی برادری اِسی طرح بے حس نظر آتی ہے جیسے فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کے مسئلے پر خاموش تماشائی ہے۔
ان حالات میں ورلڈ پنجابی کانگرس(ڈبلیو پی سی) کے چیئرمین فخر زمان اور تنظیمی کمیٹی نے ہمت کا مظاہرہ کیا اور یہاں گوجرانوالہ کی پیدائش بھارتی ادیبہ اور پنجابی کی مشہور ترین شاعرہ امرتا پریتم کی برسی پر تقریب کا انعقاد کر ڈالا،امرتا کی بارہویں برسی ہے اور یہاں ایک عالمی کانفرنس کا اہتمام کیا گیا، جس میں بھارت اور مغربی ممالک کے سکھ سکالرز بھی تشریف لائے اور ہمارے اپنے ادیبوں،دانشوروں اور شاعروں نے بھی بھاری تعداد میں شرکت کی۔فخر زمان کا نام پاک بھارت دوستی کے حوالے سے کسی تعارف کا محتاج نہیں،انہوں نے اِس سلسلے میں اس وقت سے کوشش شروع کی، جب اچھے تعلقات خراب ہو چکے اور 1965ء کے بعد1971ء کا حادثہ بھی ہو گزرا تھا، بی جے پی کی مخاصمت، پاکستان اور مسلم دشمن پالیسیوں کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات متاثر ہوئے ہیں اور ان دنوں وفود کا تبادلہ تو ایک طرف ویزوں کے حصول میں بھی شدید ترین دشواری ہے۔
بھارت کی طرف سے تو سخت پابندی ہے،حتیٰ کہ کسی بیمار کے علاج کے لئے بھی بھارتی وزیر خارجہ خصوصی اجازت دیتی ہیں۔ماضی میں دونوں طرف سے وفود کا تبادلہ ہوتا تھا، حتیٰ کہ دونوں ممالک کی پریس کلبوں کے وفد بھی آتے جاتے تھے،بھارت کے چندی گڑھ پریس کلب اور لاہور پریس کلب کے درمیان گہرے دوستانہ بندھن رہے،جبکہ فخر زمان کو بھارت میں ان کی پنجابی زبان کے لئے خدمات اور دوستی کے فروغ کے لئے کوششوں کے باعث بھی احترام سے دیکھا جاتا ہے۔
اِس تنظیم کے علاوہ بھی متعدد دوسری تنظیموں کی بھی جدوجہد رہی کہ دونوں ہمسایہ ممالک اچھے دوستوں کی طرح رہیں کہ جنگ اور دشمنی کسی مسئلے کا حل نہیں،دونوں طرف سے امن اور دوستی ہی سے حکمرانوں کو عوامی مسائل حل کرنے کا موقع مل سکتا ہے،لیکن بھارت کے موجودہ حکمرانوں اور متشدد حکمران جماعت بی جے پی نے سب کے خواب چکنا چور کر دیئے ہیں،ایسے میں یہ تقریب شاید بارش کا پہلا قطرہ ہی ثابت ہو سکے۔
امرتا پریتم بہت معروف ادیبہ اور شاعرہ تھیں ان کی پیدائش گوجرانوالہ کی ہے اور برصغیر کی تقسیم کے بعد وہ بھی نقل مکانی کر کے دہلی چلی گئی تھیں۔ان کی ایک نظم ’’اج آکھاں وارث شاہ نوں، اٹھ قبراں وچوں بول‘‘ بہت مشہور ہوئی، تقریب کا پہلا سیشن امرتا پریتم کے حوالے سے تھا،اس میں مستنصر حسین تارڑ اور ڈاکٹر اشتیاق نے بھی اظہارِ خیال کیا،سکرین پر امرتا کے بارے میں ڈاکو مینٹری بھی دکھائی گئی، حتیٰ کہ اُن کے حالاتِ زندگی پر مشتمل ویڈیو بھی تھی، جس میں خود انہوں نے بلا کم و کاست اپنے حالاتِ زندگی کو بیان کیا اور اپنی والدہ کے مر جانے کے بعد لادینیت اختیار کرنے کی بات بھی کی، حتیٰ کہ خود ان کے والد کے ساتھ ان کا مکاملہ بھی دکھایا گیا۔
امرتا پریتم نے صوفی شاعر وارث شاہ کو مخاطب کر کے جو بین ڈالے،ان کا بھی ذکر ہوا کہ اس نے اس میں ’’لہو بھری چناب‘‘ کا تو ذکر کیا،لیکن سرحد پار بیاس میں خون کی سرخی کو بھول ہی گئیں،اس سے ان کے اندر بیٹھا بت پرست دِل ظاہر ہوا اور ان کی لادینیت دھری کی دھری رہ گئی کہ امرتا نے پاکستان کی حدود میں ہندو، سکھوں کی اموات یا ان کے قتل پر تو دُکھ کا اظہار کیا،لیکن مشرقی پنجاب، اور بھارت کے دوسرے شہروں میں مسلمانوں کے قتل عام اور دوسرے انسانیت سوز مظالم پر چپ رہیں،حتیٰ کہ انہوں نے بعد میں بھی رجوع نہ کیا،جبکہ ہمارے استاد دامن جب بھارت گئے تو وہاں اپنے جذبات کا کسی تعصب کے بغیر اظہار کر دیا،’’لالی اکھیاں دی اے پئی دسدی اے‘‘۔
روئے تُسی وی او تے روئے اَسی وی آں۔۔۔ شاید انہی حالات و واقعات کی روشنی میں مستنصر حسین تارڑ بھی یہ کہہ اُٹھے کہ امرتا پریتم کی برسی یہاں منائی جا رہی ہے یہ اچھی بات ہے کہ دوستی سے بڑی نعمت کوئی نہیں،لیکن یہ سب ہم پر ہی تو فرض نہیں ہے۔
دوسری طرف سے بھی تو فراخدلی کا مظاہرہ ہونا چاہئے،وہ شریف کنجاہی، افضل رندھاوا اور استاد دامن جیسے دانشور حضرات کے دن منا سکتے ہیں۔
دیر آید درست آید کے مصداق تقریب اچھی تھی اور یہاں بہتر جذبات ہی کا اظہار بھی کیا گیا، فخر زمان کا تو موقف ہے کہ یہ صوفیاء کی سرزمین ہے اور صوفیاء کی راہ پر چل کر ہی انسانیت کی بھلائی ہو سکتی ہے۔دونوں ممالک کے درمیان جو بھی ہوا وہ ماضی ہے،اب دونوں ممالک ایک حقیقت ہیں اور اس کو تسلیم کر کے ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے،ان کے مطابق دونوں طرف سے عوام بہرصورت امن اور خوشحالی چاہتے ہیں اور یہ سب اچھے تعلقات اور دوستی کے جذبے ہی سے ممکن ہے۔اس لئے اس طرف قدم بڑھانا ضروری ہے۔ تقریب میں مہمان مقررین اور پاکستانی دانشوروں اور ادیبوں نے بھی امن کی ضرورت پر زور دیا،ان کے مطابق دونوں ممالک کے عوام ایک دوسرے کے ساتھ بھائی چارہ چاہتے ہیں،سیاسی حالات کو بھی عوامی خواہشات کے مطابق ہی ہونا چاہئے، کہ بھلائی اسی میں ہے،زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت سے گریز کرتے ہوئے مستنصر حسین تارڑ کے ان الفاظ سے ہم بھی اتفاق کرتے ہیں کہ برصغیر کی تقسیم کے وقت پاگل پن کے باعث انسانی خون کی ارزانی کے حوالے سے صرف پاکستان میں سوچ بچار کرنے والوں پر ہی یہ فرض عائد نہیں ہوتا کہ وہ ماضی پر دُکھ، افسوس اور ندامت کا اظہار کریں،سرحد پار والوں کو بھی یہ فرض نبھانا چاہئے۔
