تعلیمی اداروں میں بڑھتی انتہا پسندی

تعلیمی اداروں میں بڑھتی انتہا پسندی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

وقار عظیم ۔زرعی یونیورسٹی اسلام آباد
جامعہ کراچی کے ایک طالب علم اور اس سے منسلک پورا نیٹ ورک جو دہشت گردی میں ملوث تھا، کا پکڑا جانا یقیناًہمارے خفیہ اداروں کی ایک بڑی کامیابی ہے۔ ہماری سول اور عسکری ادارے پوری تندہی کے ساتھ آپریشن ضرب عضب سے لے کر رد الفساد تک کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دہشت گردی کا کینسر جو پورے ملک میں پھیلا ہوا تھااس کا اللہ کے فضل و کرم کے ساتھ بالکل خاتمہ ہونے جا رہا ہے۔پوری دنیا کے خفیہ اداروں بالخصوص ’’را‘‘ کا ادارہ جو ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کا ہے، اس نے پوری محنت کے ساتھ اپنے دہشت گرد افغانستان میں تیار کر کے پاکستان بھیجے۔ پاکستان سے میر جعفر اور میر صادق کو تیار کیا۔ اندرونی و بیرونی دونوں دشمن جب آپس میں ملے تو پاکستان کے مشرق و مغرب میں آگ و خون کی ہولی ہی ہمیں نظر آئی۔ سکول، کالج، ہسپتال اور عدالتیں بھی بم دھماکوں سے لرز اٹھیں۔میرے ملک کے باسی اپنا خون دہشت گردی کے خلاف پیش کر رہے۔ ملک کے محافظ ادارے بھی اس خونی شام سے بچ نہ پائے۔ 6ہزار فوجیوں سمیت 80ہزار سے زائد پاکستانی اس جنگ میں شہید ہوئے۔ 65، 71 اور کارگل کی جنگوں سے زیادہ شہادتیں پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف پیش کیں۔ فاٹا اور وزیرستان کے وہ آپریشن جن کے متعلق دنیا کی سپر پاور کا خیال تھا کہ شاید ہم اس کو 20 سال میں بھی مکمل نہ کر پائیں گے۔ پاک آرمی نے اس کو صرف 2 سال میں مکمل کیا۔
گزشتہ چند ماہ میں لیکن ہم چند ایسی خبریں سن چکے ہیں کہ جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی اب ہمارے تعلیمی اداروں بشمول یونیورسٹیز سرایت کر رہی ہے۔مثلاًنورین لغاری جو ایم۔ بی۔ بی ایس کی طالبہ تھی ایک دہشت گرد تنظیم سے منسلک ہو گئی۔سعد عزیز جوایک یونیورسٹی کا طالب علم تھا صفورا جیسے دہشت ناک واقعات میں ملوث تھا۔انسداد دہشت گردی ادارے کے ایس ایس پی راجہ عمر کہتے ہیں کہ 19 کے قریب اعلیٰ تعلیم یافتہ طلباء دہشت گردی میں ملوث ہیں۔اسی طرح کی دیگر بہت سی خبریں زیر گردش ہیں۔ یقیناً مقتدر حلقے اس کے حل اور تدارک کے لیے سرگرداں ہیں لیکن اس عفریت کے تعلیمی اداروں میں سرایت کرنے کے محرکات کیا ہیں ان پر بھی ایک نظر دوڑانے کی ضرورت ہے۔
محرکات:
-1 سب سے پہلی اور اہم بات ہے کہ ملک میں فساد کرنا اور ملکی اداروں، فوج اورنہتے عوام کو مارنا درحقیقت تکفیری سوچ ہے۔ تکفیری سوچ درحقیقت جہاد کے نام پر ایک فسادی سوچ ہے، وہ جہاد جو صرف مسلمانوں کے خلاف کیا جاتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ا نتہا پسند طلبا جہاد کرنا چاہتے ہیں مگر مسلمانوں کے خلاف۔ اس سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ طلبا صحیح اسلامی جہاد سے واقف نہیں ہیں۔ وہ جہاد جو صرف ملکی سرحدوں کے دفاع کے لیے اللہ کے راستے میں اس کے دشمنوں سے کیا جائے۔ جیسا کہ افواج پاکستان اپنا کردار اد کر رہی ہے۔ کیپٹن بلال اور لیفٹیننٹ ارسلان کی طرح پاک سرزمین کے لیے اللہ کے دشمنوں سے لڑنا اصل جہاد ہے۔ہم جہادی سوچ پر پابندی نہیں لگا سکتے کیو نکہ پاکستانی قوم کا مزاج جہادی ہے۔ ہمیں اپنے نوجوان طلبا کو جہاد کے اصل مفہوم سے آگاہ کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ شریعت میں جہاد ہے کس کے خلاف؟اگر ہمارے انسداد دہشت گردی کے ادارے دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے اپنی پالیسی میں یہ تجویز شامل نہیں کرتے تو ہم کبھی بھی ان فسادیوں کو روک نہیں پائیں گے۔ کیونکہ یہ دہشت گرد اپنے اس فساد کو جہاد بتا رہے ہیں جو ان کی چالاکی ہے اور ہمارے طلبا کو علم نہ ہونے کی صور ت میں ان کا آلہ بن جاتے ہیں۔
-2 دوسری اہم چیز سوشل میڈیا کا استعمال ہے۔ جو خبر آئی من و عن مان لی ہے۔ معاذ اللہ بعض دفعہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے میڈیا کو حدیث کا درجہ حاصل ہو گیا ہے۔ تمام دہشت گرد گروہ سب سے زیادہ سوشل میڈیا پرکام کر رہے ہیں۔فیس بک کی آئی ڈی پر دوستیاں اور پھر اپنی فکر اور سوچ کو مختلف وڈیوز اور آڈیوز اور کتابوں کے ذریعے پھیلایا جا تا ہے۔اصل وجہ یہ ہے کہ یہ گروہ سرعام کام نہیں کرپاتے اور پھر یہ سوشل میڈیا کا سہارا لیتے ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑے دہشت گرد گروپ داعش نے دنیا بھر میں اصل پذیرائی صرف اور صرف فیس بک، ٹو یٹر اور دیگر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے ذریعے حاصل کی۔ خلافت کا نعرہ لگایااور پوری دنیا کو بتانے کی کو شش کی ۔ طلبا چونکہ سوشل میڈیا کو زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے وہ اس کینسر میں مبتلا ہو گئے۔
-3 تیسری بڑی اوراہم وجہ ہے یہ ہے کہ ہمارے طلبا اسلام سے تھوڑی سی بھی رغبت نہیں رکھتے۔ جس کی وجہ سے ان کے لیے اسلام اور جہاد کو سمجھنا انتہائی مشکل ہے کہ درست کیا ہے اور غلط کیا۔ ہمارے طلبا تو اسلام میں خوارجیوں کی تاریخ سے بھی آشنا نہیں ہے۔ تکفیر کے مفہوم کو نہیں جانتے۔ اس فتنے کے نقصانات سے واقف نہیں ہے۔ تکفیری اور خارجی نوجوانوں کی حالت و کیفیت سے نا آشنا ہیں۔اسلام کا مطالعہ نہ ہونے کی وجہ سے موجودہ حالات میں درپیش چیلنجز سے مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔
-4 چوتھی وجہ تبدیلی اور انقلاب کے اصل راستے سے ناواقفیت ہے۔ یونیورسٹی میں اس سوچ کے حامل طلبا اپنے اندر دو طرح کی فکر رکھتے ہیں۔
ایک تو وہ برائی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ دوسرا وہ اسلامی نظام کو نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ اسلام کی تاریخ میں کوئی بھی ایسا واقعہ نہیں ہے جس میں مسلمانوں کا قتل عام کر کے اسلامی خلافت کو قائم کیا گیا ہو اور نہ ہی کوئی ایسی تحریک ہے جو قتل عام کر کے برائی کا خاتمہ کرتی ہو۔
-5 جذبہ حب الوطنی کا نہ ہونا بھی انتہا پسندی کی بڑی وجہ ہے۔ تکفیری اور خارجی ذہن کے لوگ وطن سے محبت کو کفر کہتے ہیں، جبکہ ایسا نہیں ہے۔
اللہ کے نبی ﷺ جب مکہ سے گئے تو آپ ﷺ نے فرمایا:’’اے مکہ! میں تجھ سے بڑی محبت کرتا ہوں مگر تیرے شہر کے لوگوں نے مجھے بڑی اذیت دی ہے۔‘‘
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے طلبا کو جذبہ حب الوطنی کوٹ کوٹ کر بھر دیں۔ آئندہ نہ کوئی نورین لغاری ہو اور نہ کوئی سعد عزیز۔ ہماری قوم کی مائیں بس میجر عزیز بھٹی، کرنل شیر اور راحیل شریف جیسے دلاورہی پیدا کریں۔
-6 صبر کا نہ ہونا بھی انتہا پسندی کی وجہ ہے۔ دعوت کے ذریعے قوم کی تربیت چونکہ ایک لمبا اور مشکل عمل ہے۔ اس لیے انتہا پسند بس بے صبری کا مظاہرہ کر کے فوری رد عمل کا اظہار کرتے ہیں اور لڑپڑتے ہیں۔
صبر ایمان ہے اور ہمیں صبر کو اپنے وجود میں جگہ دینی چاہیے۔ اللہ کے نبیﷺ اور صحابہ نے عبداللہ بن ابی منافق کی کالی کرتوتوں پربہت صبر کا مظاہرہ کیا: ’’اللہ کے نبیﷺ نے اسلام کے امن کے تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے عبداللہ بن ابی سے جنگ نہ کی کہ لوگ کیا کہیں گے کہ مسلمان آپس میں لڑ پڑے ہیں۔ چونکہ یہ منافق کلمہ بھی پڑھتا تھا اور نمازیں بھی۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی ہر حرکت پر صبر کا مظاہرہ کیا۔‘‘ لیکن آج کا دہشت گرد مسلمان اور نریندر مودی میں کوئی فرق نہیں سمجھتا۔پوری دنیا میں مسلمانوں کے امن کے تشخص کوبرباد کردیا گیا ہے، اسلام میں تبدیلی اور انقلاب کا راستہ تو مسلم معاشرے کی اصلاح سے جڑا ہوا ہے۔ مسلم بھائیوں کی غلطیوں پر صبر و دعوت، بلدد اسلام اور دین اسلام کے دفاع کے لیے کفار سے جہاد ہے۔ان حالات میں تمام محب وطن اور اسلام پسند طلبا سے گزارش ہے کہ ان عناصر پر کڑی نظر رکھیں۔ ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔انسداد دہشت گردی جیسے اداروں اور فوج کا ساتھ دیں تاکہ اس ناسور کو جڑ سے ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے۔سوشل میڈ یا پر ایسے عناصر پر خصوصی نظر رکھی جائے اور ان کی منفی سرگرمیوں کی رپورٹ متعلقہ ادارں کو دی جائے۔
***

مزید :

ایڈیشن 1 -