ٹیکنو کریٹ پارٹی
نون لیگ، پی پی پی اور پی ٹی آئی ہی نہیں اس وقت ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ایک پارٹی بھی ملک میں گھوم رہی ہے !....یہ پارٹی جلسے جلوس نہیں کر رہی لیکن عوام کی معیشت کو اور سیاستدانوں کے دماغ درست کرنے کے نسخے ٹی وی سکرینوں پر شیئر کرتی نظر آرہی ہے، کچھ کے دماغ تو اس پارٹی نے ٹھکانے لگانا بھی شروع کردیئے ہیں!
عمومی طور پرکنگز پارٹی وہ بھی ہوتی ہے جس کے پاس الیکٹ ایبلز کی بڑی تعدا د ہو یا الیکٹ ایبلز جس کی طرف رجوع کر رہے ہوں، جس کی عوام میں پذیرائی ہو اور عوام جس کے لئے سڑکوں پر آنے کے لئے تیار ہوں۔ لیکن جب کنگ خود ایک پارٹی بن جائے تو اسے الیکٹ ایبلز کی نہیں ، ٹیکنوکریٹس کی ضرورت پڑتی ہے جو ریزرو فورس کی صورت میں ہر وقت ملک میں موجود ہوتے ہیں ۔آج کل ٹیکنو کریٹ پارٹی کی حکومت کی بہت سی باتیں ہو رہی ہیں کیونکہ باتیں کرنے کیلئے ہی ہوتی ہیں۔ لیکن اگرواقعی ایسی بات ہے تو سنجیدگی سے لینا چاہئے ، اگرچہ لے بھی لیا جائے تو کیا فرق پڑتا ہے ، کرنے والے اپنی کریں گے، بھرنے والے بھریں گے۔
جمہوریت کو جو خطرہ قطرہ قطرہ بڑھتا جا رہا ہے قطرہ قطرہ یہ خطرہ کم بھی ہو سکتا ہے، سارا انحصار اس پر ہے کہ اس قطرے کے پیچھے کتنا اور کیسا بہاؤ ہے ، ہم بہاؤ کا اندازہ کئے بغیر قطرے کی استقامت دیکھ رہے ہیں ، یہ استقامت میڈیا دکھارہا ہے جوبار بار وہ کچھ پوچھتا ہے جس کا جواب خود اس کے پاس بھی نہیں ہے۔ کچھ چسکا لے رہے ہیں ،کچھ چسکیاں لے رہے ہیں ۔
دیکھا جائے توتینوں بڑی جماعتیں اپنا قد ایک دوسرے کے برابر رکھنا چاہتی ہیں ، نون لیگ نواز شریف کے ہٹائے جانے کے باوجود اپنی جگہ ڈٹی ہوئی ہے، پیپلز پارٹی جناب زرداری کو اگلی باری لانے کے لئے دور کی کوڑیاں لے کر آرہی ہے جبکہ عمران خان عوامی جلسوں سے اپنی دھاک بٹھانا چاہتے ہیں ، لوگوں کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ ان کے سوا کوئی وزارت عظمیٰ کا اہل نہیں ہے ۔
اب جبکہ تینوں بڑی سیاسی جماعتیں اپنا آپ منوانے میں لگی ہوئی ہیں ، کنگز پارٹی بھی دانت تیز کئے نظر آتی ہے ، ٹیکنوکریٹس کی حکومت سے لے کر مارشل لاء کی افواہیں ساتھ ساتھ چل رہی ہیں ، دوسرے معنوں میں کنگ خود ایک امیدوار ہے اور عالمی آقاؤں کو باور کرانا چاہتا ہے کہ موجودہ حالات میں اس سے بڑھ کر کوئی بھی گورنینس کرنے کا اہل نہیں ہے ، اسی لئے نون لیگ نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی ہے اور اب اس پر غور ہو رہا ہے کہ کس طرح سیاسی حالات کو بحفاظت 2018کے عام انتخابات تک لے جا یا جائے۔ یکم فروری کو اسمبلی کی مدت ختم ہونے میں 120دن رہ جائیں گے۔ اگر اس وقت نون لیگ میں کوئی فارورڈ بلاک بنتا ہے اور پارٹی سے منحرف ہونے والوں کو اسمبلی سیٹ چھوڑنا پڑتی ہے تو ضمنی انتخابات کا ڈول نہیں ڈالنا پڑے گا ، چنانچہ نون لیگ کے سامنے بڑا امتحان یہ ہے کہ کس طرح اپنے آپ کو متحد رکھتی ہے اور یکم فروری کے بعد بھی ایک جماعت کے طور پر موجود رہتی ہے ۔ گویا کہ نون لیگ کے سامنے دو بڑے چیلنج ہیں ، ایک تو سیاسی صورت حال کو 2018کے انتخابات تک لے کر جانا ہے اور دوسرا اپنے اندر فارورڈ بلاک کو نہ بننے دینا ۔
ان دونوں محاذوں پر بلاشبہ اس کا مقابلہ پیپلز پارٹی یا پی ٹی آئی سے نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ سے ہوگا کیونکہ اگر نون لیگ ان چیلنجوں پر قابو پانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اسٹیبلشمنٹ بھی بڑے خسارے میں ہوگی ۔ پیپلز پارٹی اس فرنٹ پر نون لیگ کی سپورٹ پر ہوگی کہ کسی بھی طرح اسٹیبلشمنٹ کو اس بات سے باز رکھا جائے کہ وہ ٹیکنوکریٹس کی حکومت لائے یا پھر ملک میں مارشل لاء لگادے ، یعنی بین الاقوامی طور پر نون لیگ اور پیپلز پارٹی مل کر لابنگ کر رہی ہوں گی کہ وہ جموریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گی ۔ تاہم خدشہ یہ ہے کہ اگر پیپلز پارٹی نے کھل کر یہ پوزیشن لے لی تو اسٹیبلشمنٹ پوری دلجمعی کے ساتھ پی ٹی آئی کے ساتھ جا کھڑی ہوگی اور ملک میں تین پارٹی انتخابات کو یقینی بنا کر ایک ہنگ پارلیمنٹ وجود میں لا سکتی ہے جس کے بعداسے دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ ڈیل میں آسانی رہے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خود اسٹیبلشمنٹ بھی اس قدر کچھ زیادہ آسان صورت حال میں نہیں ہے بلکہ اس کے لئے بھی کرنے کے بہت سے کام ہیں۔