حسین فاروق مودودی کی کتاب پر چند معروضات

حسین فاروق مودودی کی کتاب پر چند معروضات
حسین فاروق مودودی کی کتاب پر چند معروضات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جماعت اسلامی کے بانی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اپنی ذات میں بلاشبہ علم و دانش کا پیکر جمیل تھے۔ بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں ان کا قلمی سفر شروع ہوا۔ قدیم و جدید علوم پر دسترس حاصل تھی اور اظہار و ابلاغ کی خوبصورتیوں سے بھی آگاہ تھے۔ 1932ء میں ماہنامہ ترجمان القرآن جاری کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے متاثرین کا ایک حلقہ پیدا کر لیا۔ پہلے پہل تو پیش نظر علمی انقلاب کا منصوبہ تھا۔ لیکن کانگرسی حکومتوں کا مسلمانوں کے ساتھ ظالمانہ رویہ دیکھ کر اپنے متاثرین کو جماعت اسلامی کی صورت میں منظم کرنے کا پروگرام بنا لیا۔
اقامت دین کا تصور اتنے محکم استدلال کے ساتھ پیش کیا کہ جو لوگ قریب آئے انہوں نے زندگی بھر ساتھ نبھانے کا عہد کر لیا۔ تقسیم تک مولانا نہ خود سیاست کی اڑچنوں میں پڑے، نہ جماعت کو اس کے نزدیک جانے دیا۔ موقف یہ تھا کہ یہ طاغوتی نظام ہے اس کے ساتھ مصالحت نہیں ہو سکتی، ہم اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں۔


تقسیم کے ہنگامے شروع ہوئے تو مولانا پٹھانکوٹ کے علاقے میں اپنی بسائی ہوئی بستی ’’دارالاسلام‘‘ سے ہجرت کرکے پاکستان آ گئے۔ اِدھر آتے ہی حکمرانوں کو اسلامی آئین و قانون کے نفاذ کا وعدہ یاد دلایا اور اتنے زور شور سے مطالبہ اٹھایا کہ لیاقت علی خان کی حکومت بوکھلا اٹھی۔ اور کچھ نہ سُوجھا تو جیل کے دروازے کھول دیئے۔چونکہ اب سیاست میں قدم رکھ لیا تھا اس لئے قید و بند کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ چنانچہ مولانا کو اپنی زندگی میں چار دفعہ جیل جانا پڑا۔ انتخابی مہموں میں بھی حصہ لیا اور بیرون ملک بھی تشریف لے جاتے رہے۔ نتیجہ معلوم کہ مولانا اپنے بچوں پر زیادہ توجہ نہ دے سکے۔ جماعت کی پالیسیوں پر بھی ان کی گرفت بتدریج کمزور ہوتی چلی گئی۔ خود مولانا کو اور ان کے بچوں کو بعض معاملات میں جماعت اسلامی سے گلے شکوے ہونے لگے۔ مولانا وفات پا گئے تو جماعتی قیادت انہیں منصورہ میں سپردِ خاک کرنا چاہتی تھی لیکن مولانا کے اہل خانہ رضامند نہ ہوئے۔


مولانا مودودی کے سات بیٹے تھے، چوتھے نمبر پر سید حسین فاروق مودودی ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب ’’آفتابِ علم و عرفان۔۔۔ سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ ‘‘ کے عنوان سے ترجمان القرآن پبلی کیشنز کی طرف سے شائع کروائی ہے۔232صفحات کی اس کتاب میں انہوں نے مولانا کے حالاتِ زندگی تو تقریباً وہی بیان کئے ہیں، جن سے علمی دنیا بڑی حد تک واقف ہے، البتہ کتاب کا زیادہ قابل توجہ حصہ وہ ہے جس میں خود مولانا اور ان کے بچوں کا بعض معاملات میں جماعت اسلامی کے ساتھ اختلاف کا مسئلہ بیان ہوا ہے۔ اس حوالے سے کئی واقعات سامنے آتے ہیں۔


یہ عین ممکن ہے کہ ایسے واقعات کا بیان جماعت اسلامی کی قیادت اور مخلص کارکنوں کو پسندِ خاطر نہ ہو۔ لیکن ہمارے نزدیک انہیں مذکورہ کتاب کی اشاعت سے متوحش نہیں ہونا چاہئے۔ جماعتوں کی اپنے ہی رہنماؤں سے اختلافات کی صورت ماضی میں بنتی رہی ہے اور جماعت اسلامی بھی اس سے مستثنیٰ نہیں جماعت اسلامی کے قیام کے تھوڑے ہی عرصہ بعد مولانا ابوالحسن علی ندوی، مولانا منظور نعمانی اور مولانا جعفر پھلواری ایسے جید علماء کا مولانا سے اختلاف ہوا اور وہ جماعت سے الگ ہو گئے قیام پاکستان کے بعد مولانا امین احسن اصلاحی، ارشاد احمد حقانی، عبدالرحیم اشرف، ڈاکٹر اسرار احمد، مصطفیٰ صادق،مولانا عبدالغفار حسن، عبدالجبار غازی وغیرہ ہم اس بنا پر الگ ہو گئے کہ انہیں جماعت کا میدانِ سیاست میں آنا پسند نہ تھا۔ ان سب حادثات کے باوجود جماعت اسلامی نے اپنا سفر جاری رکھا۔

الگ ہونے والوں میں سے کئی اصحاب نے اپنے اپنے اختلاف کی کہانی سپرد قلم بھی کی اور ایک زمانے نے وہ تفصیلات پوری دلچسپی کے ساتھ پڑھیں اور کوئی قیامت نہیں ٹوٹ پڑی۔ جیسا کے پیچھے عرض کیا ہے کہ مولانا جماعتی مصروفیات کے باعث بیٹوں کی تعلیم و تربیت پر پوری توجہ نہ دے سکے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جب وہ جوان ہوئے تو ان کے پاس کوئی ذریعہ روز گار نہ تھا۔ مولانا نے ادارہ ترجمان القرآن قائم کیا اور چاہا کہ ان کی چند وہ کتابیں جو جماعت کا اشاعتی ادارہ اسلامک پبلی کیشنر چھاپتا ہے اور جن کی رائلٹی مولانا کو ملتی ہے

اب وہ ادارہ ترجمان کی طرف سے شائع ہوں۔بقول حسین فاروق اسلامک پبلی کیشنز کے کار پردازان سے حساب کتاب کرنے کا مرحلہ آیا تو وہ تعاون پر تیار نہ ہوئے نا چار مولانا کو جماعت اسلامی لاہور کے ارکان کو بلانا پڑا کہ وہ فریقین کا موقف سن کر اپنا فیصلہ دیں۔ حسین فاروق مودودی لکھتے ہیں کہ بالآخر اجلاس ہوا اور اسلامک پبلی کیشنز کے ڈائریکٹران نے مولانا کا موقف تسلیم بھی کیا اور مولانا سے معذرت بھی کی۔ فاضل مصنف نے اپنے والد محترم کے اپنے ہاتھ سے لکھے ہوئے حسابات کے عکس بھی شائع کئے ہیں جن سے مولانا کی بہت مرتب و منظم زندگی کی شہادت ملتی ہے۔ 


ایک موقع پر جب میاں طفیل محمد امیر جماعت تھے، جماعت نے دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک پلیٹ فارم کے تحت الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا مگر مولانا نے اپنا بیان اخبارات کو بھیج دیا کہ اس قسم کا فیصلہ جماعت کے دستور کی فلاں فلاں شق کے خلاف ہے۔ جماعت کے شعبہ نشر و اشاعت نے اخبارات کو اطلاع دی کہ مولانا نے اپنا بیان واپس لے لیا ہے۔ مصنف نے ایسے ہی کئی واقعات سپرد قلم کئے ہیں۔یہاں حسین صاحب کو غلط فہمی ہوئی ہے، جماعت اسلامی نے پاکستان قومی اتحاد بنایا اور اس کے تحت انتخابات میں حصہ لیا، اس پر مولانا نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔البتہ میاں طفیل محمد نے جب پاکستان قومی اتحاد کی جماعتوں کے ادغام کی بات کی تو تب مذکورہ بالا بیان جاری کیا گیا تھا۔
راقم الحروف کے نزدیک فاضل مصنف کا موقف یہ ہے کہ انہوں نے یہ کتاب اصل میں جماعت کی قیادت کو یہ احساس دلانے کے لئے لکھی ہے کہ جماعت اسلامی کو ان مقاصد سے دور نہ لے جایا جائے جو اس کے بانی کے پیش نظر تھے خاص طور پر جماعت کی اخلاقیات کی سمت درست رکھی جائے کیونکہ جب اخلاقی طرز عمل بدل جاتا ہے تو پھر زوال کا عمل شروع ہو جاتا ہے!!

مزید :

رائے -کالم -