اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 72

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط ...
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 72

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ایک روز میں خلیفہ ہارون الرشید کے دربار میں موجود تھا۔ اس وقت اس عہد کے جید عالم دینا ور سیف الاسلام حضرت ابن سماکؒ بھی دربار میں تشریف فرماتھے کہ خلیفہ کو پیاس لگی۔ اشارے سے پانی طلب کیا۔ حاجب نے طلائی پیالے میں آپ شفاف پیش کیا۔ خلیفہ پانی پینے کو تھا کہ حضرت سماکؒ نے فرمایا۔ 
’’ امیر المومنین ! ذرا ٹھہر جائیے۔ پہلے یہ بتائیے کہ اگر آپ کو شدید پیاس لگی ہو مگر پانی نہ ملے تو آپ پانی کا ایک پیالہ کس قیمت تک خرید سکتے ہیں؟‘‘ 
ہارون الرشید نے کہا۔ ’’ میں نصف سلطنت دے کر پانی کا ایک پیالہ خرید لوں گا۔ ‘‘ 
ابن سماکؒ نے فرمایا۔ ’’ اب پانی پی لیجئے۔‘‘ جب خلیفہ پانی پی چکا تو فرمایا۔ 
’’ اے امیر المومنین ! اگر یہ پانی آپ کے پیٹ میں رہ جائے اور نہ نکلے تو اسے نکلوانے کے عوض آپ کیا خرچ کریں گے؟‘‘ 

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 71 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
خلیفہ نے کہا۔ ’’ باقی آدھی سلطنت میں دے ڈالوں گا۔ ‘‘ 
حضرت ابن سماکؒ نے فرمایا۔ ’’ بس یہ سمجھ لیجئے کہ آپ کا تمام ملک ایک گھونٹ پانی اور چند ناپاک قطروں کی قیمت رکھتا ہے اس پر کبھی تکبر نہ کیجئے اور جہاں تک ہوسکے لوگوں سے یکساں سلوک کیجئے۔ ‘‘ 
پھر انہوں ے ہارون سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’ اے حسین چہرے والے ! تو اس امت کا ذمے دار ہے۔ تجھی سے باز پرس ہوگی۔ ‘‘ 
یہ سن کر ہارون الرشید کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ حضرت ابن سماکؒ نے ہارون کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’ خدا سے ڈرا کر جس کا کوئی شریک نہیں اور اس پر یقین رکھ کہ کل تجھے خدا تعالیٰ کے روبرو جانا ہے۔ وہاں تجھے دو مقاموں میں ایک مقام اختیار کرنا ہوگا اس کے علاوہ تیرا تیسرا مقام نہیں ہے۔ یہ دو مقام جنت اور دوزخ ہیں۔ ‘‘ 
اس وقت دربار میں ایک امیر فضیل بن حاجب بھی بیٹھا ہوا تھا۔ ابن سماکؒ کی نصیحت سن کر ہارون الرشید اتنا رویا کہ اس کی داڑھی کے بال بھی بھیگ گئے۔ یہ عالم دیکھ کر فضیل بن حاجب نے کہا۔ ’’ سبحان اللہ ! امیر المومنین کے جنت میں جانے میں کوئی شبہ ہوسکتا ہے؟ آپ خدا کے حقوق ادا کرتے ہیں۔ اوراس کے بندوں کے ساتھ عدل کرتے ہیں۔ اس کے صلے میں انشاء اللہ ضرور جنت کے مستحق ہوں گے۔ ‘‘ 
حضرت ابن سماکؒ نے ایک بار پھر ہارون الرشید کو مخاطب کر کے کہا۔ 
’’ امیر المومنین ! اس روز فضیل بن حاجب تیرے ساتھ نہ ہوگا۔ اس لئے خدا سے ڈرتا رہ اور اپنے نفس کی دیکھ بھال رکھ۔ ‘‘ 
خلیفہ ہارون کا دربار عباسی عہد کے جاہ و جلال کا نمونہ تھا۔ کوئی شخص بغیر اجازت خاص اور ہزار مرحلوں سے گزرے بغیر دربار میں داخل نہیں ہوسکتا تھا۔ بادشاہ قصر خلد میں ایک عالی شان تخت پر بیٹھا امراء اور وزراء اپنے درجوں کے مطابق کرسیوں پر بیٹھے ہوتے۔ ایک جانب علماء کی جماعت موجود ہوتی۔ وزیراعظم بادشاہ کے دائیں جانب ہوتا ۔ ان کے ساتھ ہی فوج کے نامور جرنیلوں کی کرسیاں ہوتی تھیں۔علماء کی قطار کے پیچھے اطباء ، شعراء اور ماہرین فنون لطیفہ کی کرسیاں اپنے اپنے مراتب کے اعتبار سے مقرر ہوتی تھیں۔ 
وقت گزرتا چلا جارہا تھا جعفر برمکی طبیعت میں چونکہ اپنے باپ یحییٰ جیسی فراست اور معاملہ فہمی نہیں تھی۔ اس لئے اس سے کچھ ایسی فاش غلطیاں سرزد ہوئیں جو آل برامکہ کی تباہی اور زوال کا باعث بنیں۔ جعفر نے اپنی ہر عام و خاص مجلس میں خلیفہ کے بارے میں غیر ذمہ دارانہ باتیں کہنی شروع کردیں۔ اس کے خوشامدیوں اور قصیدہ گو شعراء نے اسے اسلامی سرحدوں کا محافظ کہہ کر پکارنا شروع کردیا۔ اس نے بیت المال کا روپیہ دھڑا دھڑ خرچ کرنا شرو ع کردیا۔ یہاں تک خلیفہ ہارون الرشید کو بھی اپنی ضروریات کے لئے رقم کے واسطے جعفر برمکی سے بات کرنا پڑتی تھی۔
برامکہ عرب ثقافت کی جگہ عجمی ثقافت کو مسلط کرنا چاہتے تھے لیکن اس میں کم از کم مجھے کوئی شبہ نہیں ہے کہ جعفر برمکی یحییٰ برمکی اور فضل برمکی کی نگاہیں سلطنت عباسیہ پر لگی ہوئی تھیں۔ فضل برمکی خراسان سے آیا تو اپنی فوج میں بیس ہزار عجمی فوجیوں کا ایک لشکر بھی ساتھ لیتا آیا۔ اس عجمی لشکر کو جس میں ایک بھی عرب سپاہی نہیں تھا بغداد شہر کے قلب میں واقع رفہ چھاؤنی میں رکھا ۔ تھوڑے دنوں بعد فضل برمکی نے خلیفہ سے پوچھے بغیر ہی اس عجمی لشکر کا کچھ حصہ قصر خلد یعنی خلیفہ کے محل خاص کے اردگرد متعین کردیا اور یہ مشہور کر دیا کہ یہ لشکر خلیفہ کے اہل و عیال کی حفاظت کے لئے ہے۔ برامکہ کے جاسوس پل پل کی خبریں لا کر دیتے تھے۔ 
جعفر برمکی بھی کسی وقت تکبر و غرور کے نشے میں آکر کہہ دیا کرتا کہ ہم آل برامکہ خلیفہ کے لئے وبال بن جائیں گے۔ یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ اس قسم کی باتیں خلیفہ تک نہ پہنچیں۔ خلیفہ کے جاسوس بھی اپنا کام برابر کر رہے تھے۔ مگر یہ عظیم اور جیل القادر بادشاہ بڑی بردباری اور تحمل سے کام لے رہا تھا۔ وہ خاموش تھا۔ برامکہ کے عالی شان محلوں کو اور ان کے باہر خیرات وصول کرنے والوں کا ہجوم دیکھتا تو خاموش رہتا لیکن اس کے دل میں ایک خوفناک منصوبہ پرورش پا رہا تھا۔ اس خاموشی کے اندر ایک قیامت خیز طوفان ۔۔۔ پھٹ پڑنے کے لئے کروٹیں لے رہا تھا۔ آل برامکہ بلاشبہ سلطنت عباسیہ کے لئے ایک بھیانک خطرہ بن کر مسند خلافت پر منڈلانے لگے تھے۔ 
ہارون الرشید نے کمال تدبر، حکمت عملی اور استقلال کے ساتھ اپنے دل میں کئے ہوئے تاریخی فیصلے پر عمل کرنا شروع کردیا۔
میں سلطنت کے تختے الٹتے ، بادشاہوں کو قتل ہوتے محلات کو خاکستر ہوتے اور تخت نشینوں کے سر شہر کے صدر دروازوں میں لٹکتے دیکھتا چلا آرہا تھا۔ میں نے آنے والے خونیں طوفان کی بو سونگھ لی تھی۔ ایک روز معمول کے مطابق محفل رقص و سرود میں موجو دتھا۔ جعفر برمکی ایک مطلق العنان شہنشاہ کی شان و شکوہ کے ساتھ مسند پر بیٹھا موسیقی سے محظوظ ہو رہا تھا کہ کسی نے خلیفہ کے بارے میں کوئی بات کی ، جس کا مطلب یہ نکلتا تھا کہ بادشاہ کو ہماری رتی رتی خبر پہنچا دی جاتی ہے۔ جعفر برمکی نے بڑے غرور اور گھمنڈ کے ساتھ کہا۔ ’’ ہارون الرشید ہماری مرضی کے خلاف ایک نوالہ تک نہیں اٹھا سکتے۔ وہ ہماری کیا جاسوسی کرے گا۔ ہمارے جاسوس جلوت و خلوت میں اس کے ساتھ ہوتے ہیں۔ ‘‘ 
اس دن پہلی بار میں نے موقع پا کر جعفر برمکی سے کہا کہ اسے بادشاہ کے اقتدار اعلیٰ میں ضرورت سے زیادہ داخل اندازی نہیں کرنی چاہئے اور ہوا کے رخ کو پہچاننا چاہیے۔ جعفر اقتدار کے نشے میں چور تھا۔ اس پر میری نصیحت کا کوئی اثر نہ ہوا لیکن خلیفہ ہارون الرشید بڑی خاموشی ، مکمل آزادی اور کمال تدبر کے ساتھ میدان عمل میں اترچکا تھا۔ 
مجھے آج بھی یاد ہے کہ وہ قمری مہینے کی آخری تاریخیں تھیں اور موسم سردی کا تھا۔ رات ڈھل رہی تھی۔ جعفر برمکی خیمے کے اندر زربفت کی مسند پر بیٹھا تھا ۔ میں اس کے داہنی جانب نیچے ایک چوکی پر بیٹھا تھا۔ جعفر کا خاص گویا ابو اسحاق موصلی دھیمے اور دلگداز سروں میں دف ہاتھ میں لئے اپنے آقا کی شان میں لکھا گیا قصیدہ گا رہا تھا کہ اچانک خیمے کا پردہ ہٹا اور خلیفہ کے حاجب خاص نے آکر کہا کہ امیر المومنین نے ایک تحفہ بھیجا ہے۔ جعفر نے نیم وا آنکھوں سے حاجب کو دیکھا اور خوش ہو کر کہا۔ 
’’ ہم ہارون الرشید کے تحفے کو خوشی سے قبول کرتے ہیں۔ تحفہ پیش کیا جائے۔ ‘‘ 
کچھ غلام سروں پر خوان اٹھائے خیمے میں داخل ہوئے اور خوان جعفر کے سامنے رکھ دیئے گئے۔
(جاری ہے... اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں )