مولانا اگر عمران خان کا استعفیٰ چاہتے ہیں تو انہیں کیا کرنا چاہئے؟ اگر وہ اپنی ضد پر قائم رہے اور ٹکراﺅ ہوا تو پھر کیا ہو گا؟ کامران خان کا تجزیہ جان کر ہر پاکستانی پریشان ہو جائے
لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن) معروف صحافی و تجزیہ کار کامران خان نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان عمران خان کا استعفیٰ اور نئے الیکشن چاہتے ہیں تو جمہوری طریقہ اختیار کرتے ہوئے تمام اپوزیشن جماعتیں قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ سے استعفیٰ دیدیں،
اس پر بہت بڑا خلاءپیدا ہو گا اور عمران خان نئے انتخابات کا اعلان کرنے پر مجبور ہو جائیں گے لیکن اگر اسلام آباد میں ٹکراﺅ ہوا تو پھر فوج تماشا نہیں دیکھے گی اور ہو سکتا ہے کہ ایک مرتبہ پھر جمہوریت کی بساط الٹ جائے۔
تفصیلات کے مطابق کامران خان نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ ”پاکستان میں ایک بار پھر سیاسی افراتفری کی صورتحال ہے، لوگوں میں پریشانی ہے اور سب سے زیادہ پریشانی کاروبار، معیشت اور ڈیلی ویجز کیلئے ہوتی ہے مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن ایک بڑی مہم چلا رہی ہے، مولانا فضل الرحمان اور تمام اپوزیشن جماعتیں عمران خان سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی ہیں اور نئے انتخابات بھی چاہتی ہیں۔
اس کیلئے بہت آسان طریقہ ہے یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی)ف سمیت تمام اپوزیشن تمام جماتیں قومی، صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کی نشستوں سے استعفیٰ دیدیں جس کے نتیجے میں قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ میں خلاءپیدا ہو جائے گا جو ناقابل قبول ہو گا اور عمران خان نئے الیکشن کا اعلان کرنے پر مجبور ہو جائیں گے، ظاہر ہے کہ نئے الیکشن کا اعلان ہو گا تو انہیں استعفیٰ بھی دینا پڑے گا، سانپ بھی مر جائے گا اور اٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی۔
کامران خان نے کہا کہ اگر اس کے برعکس ٹکراﺅ کی فضاءہوتی ہے اور اسلام آباد میں موجود مشتعل لوگوں کو ریڈزون کی جانب بھیجا جاتا ہے جو پاکستان کی حساس عمارتوں میں اگر گھستے ہیں تو ٹکراﺅ ہو گا اور خون بچے گا، اگر ایسا ہوا تو پھر کیا ہو گا؟ شائد عمران خان کو جانا پڑے لیکن اس صورت میں جب مارشل لاءلگ جائے کیونکہ ظاہر ہے اس پوری صورتحال میں فوج تماشہ نہیں دیکھے گی اور پاکستان میں پھر جمہوریت کی بساط الٹ جائے گی اور اس کے نتیجے میں یہ بھی نہیں ہو گا کہ کرپشن کے خلاف تحریک رک جائے،
سول عدالتوں میں دو سال میں پورے ہونے والے کیس فوجی عدالتوں میں صرف دو ہفتوں میں پورے ہو جائیں گے اور ان کے فیصلے سامنے آ جائیں گے، پاکستان اب جمہوریت کی بساط الٹنا افورڈ نہیں کر سکتا جبکہ دنیا بھی ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دے گی کہ یہاں منی لانڈرنگ ہو یا پاکستان میں کیش اکانومی چلتی رہے، مدرسوں کی فنڈنگ بھی ہوتی رہے اور ان کے ذرائع بھی نہ پتہ ہوں ، یہ نہیں ہو پائے گا، اس لئے بہتر یہ ہے کہ قانونی، جمہوری اور آئینی طریقے سے مسئلے کا حل ڈھونڈ لیا جائے ورنہ کسی کے ہاتھ میں کچھ نہیں آئے گا۔