مہنگائی ختم کرنے کے دعوے کب پورے ہوں گے؟
وزیراعظم عمران خان نے مخالف جماعتوں کے ساتھ نارمل تعلقات کے قیام اور سیاسی قوتوں کے ساتھ روابط قائم نہ کرنے کا اپنے تئیں جو اصولی فیصلہ کر رکھا ہے قطع نظر اس بات کے ان کو درپیش مشکلات اور چیلنجز بطور خاص داخلی حوالوں سے روز افزوں ہیں اور مستقبل دیدہ میں ان میں اضافے کے امکان کو بھی مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے کابینہ کے ارکان ریکارڈ پر ہیں جو اعلیٰ بیورو کریسی کو مسائل کی جڑ اور بس کی گانٹھ بغیر لگی لپٹی رکھے قرر دیتے ہیں۔ اطلاعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وزیراعظم خود بھی بیورو کریسی سے نالاں ہیں لیکن وہ اس پر ہاتھ ڈالنے کی بجائے صرف نظر کرتے ہیں یہ طرز عمل نا قابلِ فہم ہے۔ مہنگائی کے ہوشربا اضافے کے ذمہ دار وفاقی وزرا بیورو کریسی کو قرار دیتے ہیں لیکن بیورو کریسی کے اس مخصوص ٹولے پر انگشت نمائی کرنا اور ان کے نام ظاہر کرنے سے نہ جانے احتراز اور اجتناب کیوں کیا جاتا ہے۔ یہ بات بھی قرین انصاف ہرگز قرار نہیں دی جاسکتی۔ آئے روز اخبارات میں مہنگائی کا قلع قمع کرنے کے اعلانات پڑھنے کو ملتے ہیں کوئی دن ایسا نہیں آتا کہ وزیر اعظم مہنگائی کے خاتمے تک چین سے نہ بیٹھنے کا دعویٰ نہ کرتے ہوں کیا وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کا گندم کے کوٹے میں اضافہ کرکے 25 ہزار ٹن کرنے کا اعلان اور آٹے کی قیمتوں کی مانیٹرنگ خود کرنے کا فرمان شاہی قیمت میں کمی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکا ہے آٹا چکی مالکان 80 روپے فی کلو فروخت کر رہے ہیں جبکہ چینی سو روپے کلو سے کم نہیں ہو رہی لیکن وزیراعظم کو اس بات کا شاید ادراک ہی نہیں کہ ہمارا پیارا وطن زرعی ہے اور ہر سال خوراک و زراعت کی پیداوار کے حوالے سے کسی بھی ایشیائی ملک کے مقابلے میں صفِ اول میں ہونے کے باوجود اپنے شہریوں کی دسترس میں سبزیاں پھل اور دیگر اشیائے خورو نوش کیوں نہیں ہیں۔ وزیراعظم کی توجہ اس حقیقت کی جانب بھی شاید نہیں ہے کہ دنیا بھر کے ممالک میں ہائبرڈ بیج کے استعمال سے زراعت کی پیداوار میں حیران کن حد تک اضافہ ہوا ہے اور ان کی فی ایکڑ زرعی پیداوار میں دو سے تین گنا اضافہ ہوا ہے جبکہ ہمارے ہاں اس نئی ایجاد کے استعمال کے حوالے سے عدم دلچسپی ایک کھلی حقیقت ہے۔
ایک عرصے سے دہشت گردی کی چھپی اور دبی ہوئی چنگاری ایک مرتبہ پھر شعلوں میں تبدیل ہوتی نظر آ رہی ہے پشاور میں کوہاٹ روڈ دیر کالونی سے متصل ایک مدرسے کے ہال میں بم دھماکہ اور کوئٹہ کی سبزی منڈی میں دہشت گردی کے واقعات بالکل تازہ ہیں۔ اپوزیشن اب تک تین کامیاب پاور شوز کر چکی ہے۔ بیرونی چیلنجز بھی نہ صرف گہرے اور عمیق ہیں بلکہ محدود بھی نہیں ہیں۔ ہمارے ازلی، ابدی، مکار اور کمینے دشمن بھارت کی آئے روز سرحدی صورت حال کو کشیدہ بنائے رکھنے کی جسارتیں اور کوششیں مخفی ہرگز نہیں ہیں بلکہ اس کے عملی مظاہر آئے روز سامنے آتے ہیں۔ گستاخانہ خاکوں نے پوری امت مسلمہ کو بے چین اور دکھی کر رکھا ہے لیکن پاکستان چونکہ اسلام کا قلعہ ہے اور خوش قسمتی اور حسنِ اتفاق سے یہ ایک ایٹمی قوت بھی ہے لہٰذا آنحضورؐ کی شانِ اقدس اور عزت و احترام کے حوالے سے امت مسلمہ کی نظریں اس کی جانب ہیں۔ فرانسیسی دریدہ دہنی کے مقابلے پر اور وہاں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے حوالے سے وزیراعظم مسلمان سربراہان مملکت کے نام ایک خط میں پیغام دیتے ہیں کہ اسلام اور نبیؐ کریم کی ذات پر حملے بند کرانے کے لئے پوری دنیا کو پیغام دیا جائے۔
واضح رہے کہ عمران خان نے اپنے خط میں امت مسلمہ سے توہین رسالت اور اسلامو فوبیا کے خلاف متحد ہونے کی درخواست کی ہے۔ بلا شبہ یہ ایک جائز اور وزنی مطالبہ اور پیغام ہے کہ آنحضورؐ کی ذاتِ اقدس کے خلاف کوئی غیرت مند مسلمان ایک لفظ بھی سننے کو تیار نہیں۔ یہ ہماری غیرت ایمانی پر حملہ ہے ہونا تو یہ چاۂے تھا کہ دکھ اور کرب کی اس گھڑی میں اپوزیشن کو بھی گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے حوالے سے متحد ہونے کا پیغام دیا جاتا،کیونکہ وہ بھی کسی مسلمان سے کم مسلمان نہیں ہیں امت مسلمہ کے ہی فرزند ہیں لیکن جب مذکورہ بالا خط سربراہان مملکت اسلامیہ کو لکھا جا رہا تھا عین اس لمحے پی ڈی ایم والوں کو جیب کترے اور نہ جانے کیا کیا کچھ وزیر اعظم کہہ رہے تھے اور اس سے کسی بھی صورت بلیک میل نہ ہونے کی نوید اور عندیہ ظاہر کر رہے تھے۔ آپ یہ جان کر پریشان ہوں گے کہ ایک اطلاع کے مطابق پنجاب میں ملتان، خانیوال، وہاڑی، لودھراں، بہاولپور، ساہیوال، پاک پتن اور اوکاڑا کی 40 فیصد زمینیں گندم کی کاشت سے محروم ہو چکی ہیں کیونکہ ہمارے ہاں ملٹی نیشنل کمپنیوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی نقل، پیروی بلکہ نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ہماری زرعی زمینیں لیز پر لینا شروع کر دی ہیں، بتایا گیا ہے کہ لیز شدہ زمینوں پر مکئی اور آلو کاشت ہونے سے گندم کی پیداوار میں ایک کروڑ چھیانوے لاکھ من کمی ہو گی ابھی تک حکومت نے اس معاملے میں کوئی ردعمل نہیں دیا، ضرورت ہے کہ اس بارے میں درست اور حتمی اطلاعات عوام تک پہنچائی جائیں۔