اختتام اچھا تو سب اچھا!!
کہا تو انگریزی میں گیا مگر ہم اپنی تفہیم کے لئے اردو میں ترجمے کا سہارا لے لیتے ہیں کہ ”اختتام اچھا تو سب اچھا“ مگر سوال اٹھانے والے تو سوال یہ اٹھا رہے ہیں کہ کیا اختتام ہوا بھی ہے یا ابھی ابہام ہی چلے گا۔ مسجد رحمت اللعالمین ملتان روڈ لاہور سے شروع ہونے والا دھرنا جب لانگ مارچ کی صورت اختیار کر گیا تو پوری قوم کی جان سولی پر لٹک گئی۔ صوبائی دارالحکومت کو وفاقی دارلحکومت سے ملانے والی شاہراہ جی ٹی روڈ بند ہو جائے تو معیشت کی نبضیں ڈوبنے لگتی ہیں۔جذبہ و شوق سے بھرا پر جوش ہجوم جب کسی معروف و مسلمہ قیادت کے بغیر رواں دواں ہو تو اسے قابو کرنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ دس روز تک سڑکوں پر آنکھ مچولی اور گھروں میں کہرام کی کیفیت تھی۔ معاملہ جب دین کا ہو، تحفظ ناموس رسالتؐ کا ہو تو بندوق کی لبلبی دباتے ہوئے وہی انگلی کانپ جاتی ہے اور ڈنڈا لہراتے ہوئے بازو شل محسوس ہوتے ہیں۔ ایسے میں حکومت نے وہی کچھ کیا جو پہلی حکومتیں مظاہرین کو روکنے کے لئے کرتی رہی ہیں۔ ایک طرف سڑکوں پر کنٹینر لگائے جا رہے تھے اور پلوں کے آگے خندقیں کھودی جا رہی تھیں تو دوسری طرف مذاکرات کا ڈول ڈالا جا رہا تھا۔ تاہم مذاکرات کا ماحول خراب کرنے میں بھی بعض حکومتی زعما اپنا زور لگا رہے تھے۔ اگرچہ کہا جا رہا ہے کہ فواد چودھری اور شیخ رشید کی بڑھکیں وزیر اعظم کی منظوری سے ہی لگائی گئیں تاہم نفرت اور نا پسندیدگی تو ان وزراء کے حصہ میں ہی آئی۔ حکومتی صفوں میں موجود سدا بہار ماہر مذاکرات طاہر اشرفی بھی غالباً مسلکی وجوہات کی بناء پر ناقابل قبول ٹھہرے۔ حکومت نے پھر دھرنے کے ایسے ہم مسلک زعماء سے رابطے کئے جن کو مولانا خادم حسین رضوی اور تحریک لبیک نے اوور ٹیک کر لیا تھا اور جو منظر سے بظاہر غائب تھے۔
کراچی سے مولانا مفتی منیب الرحمن، ملتان سے علامہ حامد سعید کاظمی کے علاوہ مولانا بشیر فاروقی کو اسلام آباد زحمت دی گئی۔ انہیں سپہ سالار کے حضور جمع کر کے کردار ادا کرنے پر راضی کیا گیا۔ فواد چودھری، جب سے لانگ مارچ شروع ہوا، دھمکی آمیز جارحانہ بیانات دے رہے تھے۔ انہوں نے تحریک لبیک والوں کو بھارتی ایجنٹ تک کہہ دیا تھا۔ حکومت نے فوری طور پر نئی مذاکراتی کمیٹی بنائی اور اس میں متذکرہ افراد کو شامل نہ کیا۔ لانگ مارچ جی ٹی روڈ پر رکاوٹیں ہٹاتا آگے سرکتا ایک جگہ تک گیا تھا۔ مذاکرات کے لئے ان کا رکنا ضروری بھی تھا۔ مذاکرات شروع ہوئے دو دن تک جاری رہے۔ حکومت اور تحریک لبیک کے زعما میں معاہدہ طے پا گیا جس میں قید نوجوان امیر تحریک سعید حسین رضوی بھی اپنے نمائندوں اور ٹیلی فون کے ذریعے شریک رہے۔ ان میں سرکاری نمائندوں اور مذاکرات زعما کی متعدد ملاقاتیں ہوئیں۔ معاہدے کو ان کی مکمل حمایت بتائی گئی حالانکہ سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود ان کی فوری رہائی عمل میں نہیں آ رہی تھی۔ معاہدہ اس لحاظ سے نفوذ ہے کہ معاہدے کا اعلان پریس کانفرنس میں کرنے والوں نے یہ نہیں بتایا کہ معاہدہ ہوا کیا ہے۔ دنیا میں کہیں اور ایسا ہوا ہو تو پتہ نہیں وطن عزیز میں تو ایسا کبھی ہوا نہیں کہ معاہدہ ہوا ہو اتنا تو بتا دیا گیا مگر کیا ہوا ہے؟ یہ نہیں بتایا جا سکا یا یہی وجہ ہے کہ معاہدے پر دستخط کرنے والے 78 سالہ مفتی منیب الرحمن رات گئے جب دھرنے کی جگہ پر خطاب کر رہے تھے تو وہاں شرکاء نے نعرے لگا دیئے۔ کٹ جائیں گے مر جائیں گے۔ سعد رضوی کو لائیں گے۔ مفتی صاحب نے کہا کہ وہ بھی ضابطے کی کارروائی کے بعد جلد رہا ہو جائیں گے۔ اس پر سامعین میں سے ایک وکیل صاحب نے بآواز بلند کہا کہ سپریم کورٹ دوبارہ رہائی کا حکم دے چکی ہے۔ ضابطے کی کون سی کارروائی رہتی ہے؟ جواباً ہاتھ کے اشارے سے خاموش رہنے کا کہا گیا اور یقین دلایا گیا کہ وہ جلد آئیں گے۔ جو باتیں اشاروں، کنایوں میں سنائی گئیں اور باوثوق ذرائع سے پتہ چلیں ان کے مطابق تمام گرفتار کارکن فوری رہا ہوں گے۔ مزید کوئی گرفتاری نہیں ہو گی۔ تحریک لبیک پر پابندی ختم ہو جائے گی وہ بطور سیاسی جماعت کام کر سکے گی۔ تحریک لبیک فرانسیسی سفیر کی ملک بدری سے دستبردار، آئندہ مارچ نہیں کریگی، دہشت گردی مقدمات کا فیصلہ عدالتیں کریں گی۔ معاہدے کی نگرانی کے لئے سٹیئرنگ کیٹی بنا دی گئی جس کے سربراہ وفاقی وزیر علی محمد خان ہوں گے۔ پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت، وفاقی، صوبائی سیکرٹری داخلہ کے علاوہ مفتی غلام غوث، مفتی عمیر، علامہ غلام عباس اور حافظ حفیظ بھی ارکان ہوں گے۔ مفتی منیب الرحمن نے شرکاء مارچ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے پر عملدرآمد کو یقینی بنایا گیا ہے۔ اب ایسا نہیں ہوگا کہ آج معاہدہ ہوا اور کل کچھ لوگوں نے اس کی قانونی حیثیت ماننے سے انکار کر دیا۔ ”آب آمد تیمم برخاست“ والا معاملہ ہو جائے گا سب سے زیادہ مہارت مخدوم شاہ محمود قریشی کی سامنے آئی وہ وزیر خارجہ بھی ہیں اور مخدوم بھی، وہ سرکاری غیر ملکی دورے سے لوٹے تو انہیں مذاکرات میں آگے کر دیا گیا۔ انہوں نے ملتان سے علامہ حامد سعید کاظمی کو بلوالیا۔ اور مشترکہ پریس کانفرنس میں حکومت کی نمائندگی بھی کرلی۔ دھرنے اور مارچ کے شرکاء کے لئے خود کو سیاسی اور دینی قوت منوانا اور دوسرے حکومت کو مذاکرات کی میز پر لانا اہم ہو گیا۔ تاکہ وہ مطالبات منوا کر عوام کے سامنے سرخرو ہو سکیں۔ جب دو گروپ مذاکرات کی میز پر آتے ہیں تو کچھ لو کچھ دو کی بنیاد پر ہی معاملات طے ہوتے ہیں۔ جو جارح مزاج ہجوم مذاکرات سے پہلے فرانسیسی سفیر کو دیس نکالا دینے، کالعدم کرنے کا فیصلہ واپس لینے پر اصرار کر رہا تھا اس نے وزیر آباد میں پڑاؤ کر کے مذاکرات کی دعوت، مطالبات تسلیم ہونے سے قبل ہی منظور کر لی، ان کے غصے کا ہدف حکومت یا سربراہ حکومت نہیں بلکہ دو شخصیات بن گئیں۔ انہیں مذاکرات کی میز سے اٹھانے کا مطالبہ کر دیا گیا۔ وزیر اعظم نے ہنسی خوشی دنبے قربان کر کے اپنی اور حکومت کی جان بچالی۔ جب مذاکرات شروع ہوئے تو بتایا گیا کہ پاکستان میں فرانس کا سفیر ہے ہی نہیں تو کس کو نکالیں؟ فرانس میں پاکستان کا سفیر ہے ہی نہیں تو کس کو واپس بلائیں۔ باقی باتیں تو اس وقت سامنے آئیں گی جب معاہدے کی تفصیلات سرکاری طور پر جاری کی جائیں گی البتہ ایک مسئلہ سنجیدہ غور و فکر کا متقاضی ہے کہ جس حکومت کے سربراہ اپنے سیاسی مخالفین (غیر مسلح) سے ہاتھ تک ملانا پسند نہ کرتے ہوں ان کے ساتھ مذاکرات کے کسی مرحلے میں شریک ہونا کسرِ شان سمجھتے ہوں وہ اگر بقول وفاقی وزیر مسلح جتھوں سے مذاکرات میں شامل بھی ہوں اور وعدے وعید بھی کرتے ہوں تو ملک کا آئندہ نقشہ کیا ہوگا؟ کیا آئندہ حکومت سے مطالبات منوانے کے لئے یہی راستہ اختیار کرنا پڑے گا؟؟ اس سے تو یہی گائیڈ لائن ملتی ہے کہ حکومت سے اپنے مطالبات ہاتھ پھیلا کر نہیں بلکہ گردن پر انگوٹھا رکھ کر ہی منوائے جا سکتے ہیں۔باقی باتیں ایک طرف لیکن اس تمام تر مذاکراتی عمل میں سپہ سالار کے فعال کردار نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ ابھی صفحہ سلامت ہے اور کوئی متبادل بھی سردست تیار نہیں۔ آگے کی اوپر والا جانے۔